3
Thursday 27 Jun 2019 15:30

مقبوضہ یروشلم سے بحرین تک مقاومت کی جیت

مقبوضہ یروشلم سے بحرین تک مقاومت کی جیت
تحریر: محمد سلمان مہدی
 
دارالحکومت منامہ میں بحرین کا امریکا کے ساتھ مل کر چند ممالک کو دو روزہ ورکشاپ میں جمع کرنا ہو یا مقبوضہ یروشلم (بیت المقدس) کے مغربی حصے میں جعلی ریاست اسرائیل کی میزبانی میں امریکی، اسرائیلی، امریکی سکیورٹی ایڈوائزرز کی اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ نشست ہو، ان سب کے لئے ایک جملے میں رائے بیان کی جائے تو یہ مقاومت اسلامی کی طاقت کا غیر اعلانیہ اعتراف ہے۔ جی، فلسطین و لبنان سے یمن تک جاری مقاومت اسلامی کا وہ بلاک جو اس مادی دنیا میں امام خامنہ ای سے روحانی وابستگی رکھتا ہے، امریکا اور اسرائیل اس سے خوفزدہ ہیں۔ ان کی موجودہ سرگرمیاں اس حقیقت کا اظہار ہیں کہ پس پردہ ان کو سازشوں میں ناکامی ہوئی ہے اور مقاومتی بلاک جیت رہا ہے۔
 
یہ مقاومت اسلامی کا خوف تھا جس نے امریکی، اسرائیلی بلاک کو شام پر پیچیدہ نوعیت کی پراکسی جنگ مسلط کرنے پر مجبور کیا۔ شام لبنان اور فلسطین کی قومی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت کرتا تھا، امریکی اسرائیلی بلاک کی نظر میں یہی اس کا جرم تھا۔ بعد میں روس اپنے مفاد کے ہاتھوں مجبور ہوا کہ مقاومت کے بلاک کے اہم ملک شام کی حمایت میں یہاں آیا اور یہ بھی مقاومتی بلاک کا ہی خوف تھا کہ اسرائیل اور امریکا نے روس کو ساتھ بٹھا کر مقاومتی بلاک سے متعلق اپنے فیصلے مقبوضہ یروشلم میں سنائے، تاکہ یوکرین سمیت دیگر تنازعات میں لالچ دے کر روس کی مشرق وسطیٰ پالیسی کو امریکا و اسرائیل کے حق میں تبدیل کرنے پر آمادہ کر لیا جائے۔

مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دینے کی نیت سے صدی کی سب سے بڑی فریب کاری ڈیل آف دی سینچری اپنی پیدائش سے پہلے ہی امریکی اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کے بطن میں ہی مرگئی، کیونکہ مقاومت اسلامی کے بلاک نے فلسطین سے کی جانے والی اس تاریخی خیانت کی اصل حقیقت پہلے ہی بے نقاب کر دی تھی۔ اگر مقاومتی تحریکیں نہ ہوتیں تو محمود عباس کی اتنی ہمت نہ ہوتی کہ وہ امریکا اور سعودی عرب کی ڈکٹیشن کو مسترد کر دیتے۔ بحرین کے دارالحکومت منامہ کی نام نہاد امن برائے خوشحالی ورکشاپ کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ اس کا بائیکاٹ خود فلسطینیوں نے کیا تھا۔
فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے، ان کی سرزمین سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنا انکا اپنا اختیار ہے۔ بحرین اور امریکا کی مشترکہ منامہ ورکشاپ اپنی ذات میں بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ والی کہاوت کا مظہر تھی، کیونکہ اصل فریق تو اس پوری ڈیل کو ہی مسترد کرچکا ہے۔ بحرین کانفرنس کے خلاف فلسطینیوں نے غزہ میں ہڑتال کی جبکہ جا بجا احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے ہوئے۔ نہ صرف غزہ و مغربی کنارہ بلکہ دیگر عرب ممالک اور خاص طور پر لبنان میں کہ جہاں سعودی عرب اور امریکا کی مداخلت بہت زیادہ ہے، وہاں وزیر خارجہ جبران باسل جو مسیحی عرب ہیں، انہوں نے پہلے ہی فلسطینیوں کی حمایت میں بحرین اجتماع کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا، جبکہ اس اجتماع میں اسرائیل کی سرکاری نمائندگی بھی نہیں تھی۔
 
لبنان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری پہلے ہی اس پر شدید ردعمل دے چکے تھے اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کے اعلان کردہ پچاس بلین ڈالر کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس طرح لبنان ایسے کسی منصوبے کو نہیں مانتا۔ فلسطینی مہاجرین کو ان کے وطن فلسطین واپسی کے حق کو ختم کرنے کے بدلے میں یہ منصوبہ لبنان کو منظور نہیں۔ اور تو اور سعودی نواز سعد حریری جو لبنان کے وزیراعظم ہیں، انہوں نے بھی لبنان کا متفقہ فیصلہ پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران سنا دیا کہ لبنانی عوام، ریاست و حکومت اور پارلیمنٹ سبھی ڈیل آف دی سینچری کو مسترد کرتے ہیں۔
 
بحرین کے مذکورہ اقتصادی اجتماع میں سعودی عرب کی نمائندگی وزیر ٖمالیات اور حکومتی سرمایہ کاری ادارے کے سربراہ نے کی۔ مصر اور اردن نے اپنے نائب وزراء کو بھیجا، حالانکہ یہ دونوں اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں، اس کے باوجود اس اجتماع میں ان کی نمائندگی نائب وزراء نے کی۔ یعنی ان کی نسبت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسرئیل کے حق میں اور فلسطینیوں کو فروخت کرنے والے اس اجتماع کو زیادہ اہمیت دی۔ بار ایلان یونیورسٹی کے اسرائیلی پروفسیر جوشوا ٹائٹلبام کا کہنا ہے کہ امریکا چاہتا ہی یہی تھا کہ یہ اجتماع خلیجی عرب ملک میں ہو، کیونکہ مال ہے ہی ان کے پاس۔ پروفیسر جوشوا کا کہنا ہے کہ بحرین، سعودی عرب کی سیٹلائٹ ریاست ہے اور بحرین کو سعودی عرب نے ہی کہا تھا کہ وہ ایسا کرے۔
 
اس پروفیسر کا مزید کہنا ہے کہ بحرین خود بھی متحدہ عرب امارات کی نسبت اسرائیل سے پس پردہ زیادہ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے، اس لئے بھی اس نے یہ اجتماع منعقد کیا، کیونکہ قطر اور کویت تو اس اجتماع کو اپنے ہاں نہ ہونے دیتے۔ ان کے مطابق سعودی عرب بھی اپنے ہاں یہ اجتماع نہیں کرواسکتا تھا، اس لئے اس نے بحرین کو چنا۔ انکا کہنا ہے کہ سعودی (حکومت) کو کوئی پرواہ نہیں کہ فلسطینی ناراض ہوتے ہیں، سعودی حکومت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے لئے کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے، اسی لئے بحرین جس کا انحصار سعودی عرب پر ہے، وہاں یہ اجتماع ہوا۔ یعنی امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب نے ایک ایک تیر سے کئی شکار کئے۔
یہ الگ بات کہ اس اجتماع کی حیثیت امریکی اتحادیوں کی گیٹ ٹو گیدر اور فوٹو سیشن سے زیادہ کی نہیں تھی۔ اس اجتماع سے کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہونا تھا۔ فلسطین کے اصل وارث کی جانب سے اس اجتماع کو مسترد کر دینے کے بعد تو اس اجتماع کی تھوڑی بہت ساکھ جو محمود عباس جیسے امریکی سعودی لابی کے اپنے نصب کردہ شخص کی شرکت سے ہوسکتی تھی، جس سے بعض عربوں، بعض مسلمانوں کو تھوڑا بہت گمراہ کیا جاسکتا تھا، وہ ساکھ بھی باقی نہ رہی۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا محمود عباس سعودی ڈکٹیشن کو رد کرسکتے تھے؟! غور و فکر کا مقام ہے کہ کیا سعد حریری سعودی حکم کے خلاف جاسکتے تھے؟؟ یعنی اسلامی بیداری اور مقاومت اسلامی کی کامیاب استقامت ایک ایسی حقیقت ہے، جسے عام عرب اور عام مسلمان بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور اب رائے عامہ سعودی اسرائیلی خفیہ گٹھ جوڑ کے کھل کر خلاف نظر آرہی ہے۔
 
ہفتہ سے منگل تک اسرائیلی میزبانی میں امریکی، روسی، اسرائیلی سکیورٹی ایڈوائزرز کی ملاقاتوں کے بعد بدھ کے روز روسی صدر پوتین کے نمائندہ برائے افغانستان ضمیر کابلوف نے ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ خدا نہ کرے کہ امریکا ایران کے خلاف پاگل پن پر مبنی غیر ذمے دارانہ اقدامات کرے، (اگر امریکا ایسا کرے گا) تو ایران بھی ہرگز اکیلا نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف روس بلکہ کئی دیگر ممالک بھی ایران کے ہمدرد ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ نہیں ہوگی اور سفارتکاری سے تنازعہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے امام خامنہ ای کے خلاف امریکی پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے توہین آمیز قرار دیا۔
 
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بدھ  کے روز کہا کہ امریکا اور ایران دونوں کو مکالمے پر آمادہ کرنے کے لئے روس کوشش کرے گا، البتہ انہوں نے امریکا پر واضح کر دیا کہ مذاکرات اور پابندیاں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں، یعنی مذاکرات کرنا ہیں تو ایران کے خلاف پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔ یہ روس کا موقف ہے، جو مقبوضہ یروشلم کے سکیورٹی اجلاس کے بعد سامنے آیا ہے۔ روس کو معلوم ہے کہ ایران کا انحصار روس پر کبھی بھی نہیں رہا۔ لبنان میں متعین روسی سفیر الیگزینڈر زاسپکن تو پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ روس کے حزب اللہ کے ساتھ تعلقات مضبوط، قریبی اور تعاون پر مبنی ہیں اور ان تعلقات سے حق پر مبنی اہداف (کے حصول) کا مفاد پورا ہوتا ہے۔
 
مشرق وسطیٰ میں روس اپنے لئے بڑے مقام کی تلاش میں ہے۔ امریکا اور اسرائیل روس کو اسپیس دینے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن کیا پوتین ایک جونیئر شراکت دار بننے پر آمادہ ہو جائیں گے؟؟  اصل میں روس کی عزت اور کوئی بھی بڑا مقام اب مکمل طور پر اس ایک نکتے پر منحصر ہے کہ وہ کتنے زیادہ امریکی مخالف اور فلسطین دوست، ایران دوست بن کر سامنے آتا ہے۔ اگر وہ بھی امریکا کی طرح اسرائیل کے مفادات کو ترجیح دے کر سودے بازی کر لیتا ہے، تو بھی خطے میں مقاومتی بلاک کی موجودہ حیثیت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ جس کو یقین نہیں آرہا، وہ ان حقائق پر غور فرمائیں۔ میڈرڈ کانفرنس، اوسلو معاہدہ، کیمپ ڈیوڈ معاہدے وغیرہ وغیرہ کی مکمل ناکامی، غزہ سے ایریل شیرون کا اسرائیلی انخلاء، جنوبی لبنان سے اسرائیل کا فرار، 2006ء کی جنگ کا نتیجہ وغیرہ وغیرہ اور اب یمن جنگ میں سعودی و اماراتی ناکامیاں۔ حتیٰ کہ روس کو ساتھ ملانے کی کوشش کرنا بھی مقاومتی بلاک کی کامیابیوں کی وجہ سے ہے۔
ایک اور مرتبہ اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ غیبت حضرت ولی عصر کے اس پر فتن دور میں جب اسلام و مسلمین و مستضعفین ہر طرف سے دشمنوں اور ان کے منافق سہولت کاروں کے حملوں کی زد پر ہیں، تب صرف ایک ہستی ان کی نیابت میں قیادت و رہبری کے ذریعے ان سارے حملوں کو ناکام بنا رہی ہے۔ ڈیل آف دی سینچری کی قبل از پیدائش موت ہو یا بحرین اجتماع کا کھوکھلا پن، یہاں بھی اسلام دشمن، عرب دشمن حکمرانوں کی ناکامی کا کریڈٹ صرف ایک رہبر و قائد کو جاتا ہے۔ جی ہاں، یہ معصوم امام زمان (عج) کے نائب برحق آیت اللہ العظمیٰ امام سید علی حسینی خامنہ ای کی قیادت و رہبری ہے، جس نے دنیا میں سب سے بڑی طاقت سپرپاور سمجھے جانے والے امریکا کی بدترین پابندیوں اور جنگ جنگ کی دھمکیوں کو جوتے تلے روندتے ہوئے ایران اسلامی کی حدود میں درانداز امریکی ڈرون طیارہ تباہ کر ڈالا۔ خلیج فارس میں آبنائے ہرمز کے قریب بظاہر ڈرون کا ملبہ گرا تھا، لیکن معنویت اس حقیقت کو منکشف کرتی ہے کہ شیطان بزرگ کا تکبر اور گھمنڈ ذلت و و رسوائی کو ساتھ لے کر خلیج فارس میں غرق ہوا تھا!!
خبر کا کوڈ : 801860
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش