0
Sunday 29 Sep 2019 09:59

ڈونالڈ ٹرامپ اور اسکی سیاست(1)

ڈونالڈ ٹرامپ اور اسکی سیاست(1)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

امریکہ میں دو جماعتی نظام ہے جبکہ دوسری طرف امریکی انتخابات کا پیچیدہ نظام ایسے کسی فرد کو وائٹ ہائوس میں نہیں پہنچنے دیتا، جو امریکی اسٹیبلشمنٹ یا ڈیپ اسٹیٹ کا تائید یافتہ نہ ہو۔ ڈونالڈ ٹرامپ نہ ری پبلکر تھے اور نہ ڈیموکریٹس لیکن اس کے باوجود وہ ایک پرانے ری پبلیکنز کو شکست دے کر ری پبلکنز پارٹی کی طرف سے امریکی اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ کیا ایک تاجر پیشہ لا ابالی شخص کا امریکی صدر بننا اتفاق ہے یا امریکی تھنک ٹینک کی مرضی و منشا شامل تھی، اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں، انہوں نے امریکہ کا ایک منفرد چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ ٹرامپ نے امریکہ کے چہرے سے نقاب اتار کر امریکہ کا حقیقی چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ ٹرامپ آج وہ باتیں کر رہے ہیں، جو سابقہ امریکی صدور بغیر کچھ کہے انجام دے دیتے تھے۔ بس یہ بات بڑے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ ڈونالڈ ٹرامپ امریکہ کا حقیقی چہرہ ہے، اس سے پہلے کے امریکی صدور یہی سامراجی امور انجام دیتے تھے، لیکن چہرے پر نقاب چڑھا کر اور زبان پر قابو پا کر۔ ٹرامپ امریکہ کی حقیقی تصویر بن کر ابھر رہے ہیں۔

امریکی صدر ٹرامپ کی طرف سے اپنی انتخابی مہم میں امریکہ کے بعض اندرونی رازوں کو فاش کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا تھا کہ ہم نئے آنے والے امریکی صدر کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری زحمتوں اور محنتوں کو کم اور امریکہ کے حقیقی چہرے کو آشکار کر دیا ہے۔ اس شخص نے امریکی حکمرانوں کے سیاسی، اقتصادی، اخلاقی، سماجی اور دیگر جرائم کو سب کے سامنے پیش کر دیا ہے اور یہ وہی جرائم ہیں، جو اسلامی جمہوریہ ایران پچھلے اڑتیس برسوں سے لوگوں کو بتلا رہی تھی۔ پس امریکہ کو حقیقت سے آگے کی حقیقت کہا جا سکتا ہے۔ امریکہ کے وہ معاملات و مسائل جو مغربی میڈیا چھپا دیتا تھا یا اس کو اور انداز سے پیش کرکے اپنی مرضی کی تصویر بناتا تھا، وہ ٹرامپ کے بیانات سے واضح ہو کر رائے عامہ کے سامنے آگئے ہیں۔ اس دور میں بہت سارے افراد کی یہ کوشش تھی کہ امریکہ کا خیر و شر کا چہرہ پیش کرکے ڈونالڈ ٹرامپ کو تسلط پسندانہ نظام سے الگ بنا کر ایک نئی حقیقت کے طور پر پیش کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرامپ امریکہ کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں، انہیں امریکہ کی علامت و نشانی نہیں قرار دیا جا سکتا، یہ زمانہ گزر جائے گا اور ٹرامپ زیادہ عرصے تک قائم و دائم نہیں رہ سکے گا۔

آج یہ نظریہ باطل ثابت ہو رہا ہے، ٹرامپ امریکہ کا بظاہر روایتی چہرہ اور علامت نہیں، لیکن اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو ڈونالڈ ٹرامپ امریکی رویوں کی حقیقی تصویر و علامت ہے۔ دور حاضر کے میڈیا نے امریکہ کا جو چہرہ اور شناخت دنیا کے سامنے پیش کی تھی، وہ ڈونالڈ ٹرامپ سے ملتی جلتی نہیں، لیکن امریکہ کی حقیقی تصویر اور ماہیت ڈونالڈ ٹرامپ کے افکار و کردار سے جھلک رہی ہے۔ امریکہ نے اپنی نرم طاقت کے ذریعے اپنی حقیقت کو پوشیدہ رکھا ہوا تھا، لیکن ٹرامپ نے اسے بے نقاب کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جوزف نائی جو سوفٹ پاور نظریہ کے بانی ہیں، انہوں نے ٹرامپ کو امریکہ کی سافٹ پاور کے لیے ایک بہت صدمہ قرار دیا ہے۔ سافٹ پاور کے ذریعے امریکہ کی جو تصاویر دنیا میں بنائی گئی تھی، خاص طور پر باراک اوبامہ کے دور میں امریکہ کو خوابوں کی تعبیر، سب کے لیے برابر مواقع، سب سے منفرد ایک دنیا بنا کر پیش کیا گیا۔ اس مذکورہ تصور میں امریکہ کو ایک ملک سے بڑھ کر ایک اور انداز سے دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

امریکہ کو ایک ایسی ریاست کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی گئی تھی، جو تمام دنیا کے لیے ہے اور سب کے لیے برابر مواقع موجود ہیں۔ امریکہ نائزیشن اور کمال و سعادت کی آخری منزل اور تاریخ کے اختتام سے تعبیر کیا گیا، امریکہ کی یہ خیالی تصویر حقیقت سے کوسوں دور تھِی۔ ڈونالڈ ٹرامپ حقیقت میں امریکہ کو وہ حقیقی کردار ہے، جو سیاسی تکلفات من جملہ political correctness کے دبیز پردوں کے پیچھے پوشیدہ تھا۔ امریکہ کے حقیقی چہرے کی بے نقابی نے مغرب میں بہت سارے لوگوں کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ وہ امریکی میڈیا جو امریکی چہرے کا میک اپ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتا تھا, اس کے پاس اب کوئی چارہ نہیں کہ ڈونالڈ ٹرامپ کو امریکی اقدار سے لابلد ایک کردار کے طور پر متعارف کرائے۔ نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کے سابق سربراہ مارتھن شولٹس نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ "ڈونالڈ ٹرامپ امریکی نہیں ہے۔"

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ آج لگامیں توڑ کر ایران کے عوام کے خلاف اپنا کینہ، نفرت اور غصے کا اظہار کر رہا ہے۔ وہ دھونس، دھمکی، دبائو اور پابندیوں سمیت ہر حربے کو سامنے رکھ کر تمام آپشن میز پر ہیں، کا نعرہ لگائے ایران کو ڈرانے کے تمام ممکنہ حربے استعمال کر رہا ہے۔ البتہ باشعور اور آگاہ افراد اگر اپنے حافظے پر زور دیں تو یہ بات کھل کر واضح ہوگی کہ امریکہ کے سابق صدور بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔ گذشتہ امریکی حکومت یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتی تھی کہ ایرانی قوم ان کی سب سے بڑی دشمن ہے اور باراک اوباما نے ہی ایران کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کی تھیں، جو بقول ان کے ایران کے اقتصادی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیں گی۔ لہذا اگر آج ٹرامپ بھی یہ سب کچھ کر رہا ہے تو پوری جرات اور اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ گذشتہ امریکی اقدامات کا تسلسل ہے، ٹرامپ نے صرف پوشیدہ امور سے پردہ اٹھایا ہے اور ٹرامپ کا حالیہ موقف امریکہ کے حقیقی موقف اور چہرے کو نمایاں کر رہا ہے۔

ڈونالڈ ٹرامپ نے امریکی ماہیت کو اس وقت واضح کر دیا، جب فاکس نیوز کے ایک رپورٹر نے ڈونالڈ ٹرامپ کی موجودگی میں روس کے صدر پر قاتل ہونے کا الزام لگایا تو صدر ٹرامپ نے نہایت ڈھٹائی اور اعتماد سے کہا ہمارے ہاں بھی کئی قاتل ہیں اور ہم بھی بے گناہ نہیں ہیں۔ ڈونالڈ ٹرامپ کے رفتار و کردار سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس امریکہ کے حلیفوں یا حریفوں کے ساتھ نئے انداز سے تعلقات استوار کرنے کا کوئی نظریہ یا سوچ نہیں ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بہت سے مفکرین اور دانشوروں کی اس رائے پر جس میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کی سوفٹ پاور میں کمی ہوچکی ہے، کہا ہے کہ دوسروں پر مسلط کرنے کی امریکہ کی نرم طاقت اس وقت کمزور ترین درجے پر پہنچ چکی ہے، بالخصوص موجودہ امریکی صدر کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکہ نہ صرف ملتوں بلکہ یورپ، چین، روس، ہندوستان، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک سے بھی اپنے تعلقات کشیدہ کر چکا ہے اور یہ ممالک بھی دنیا کے مختلف اقوام کی طرح امریکی فیصلوں کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی امریکی کمزوریوں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آج نہ صرف امریکہ کی سوفٹ پاور زوال پذیر ہے بلکہ امریکہ کے موجودہ صدر کے عجیب و غریب اقدامات نے لبرل ڈیموکریسی جسے مغربی تمدن کی بنیادی جڑ قرار دیا جاتا ہے، کو بے آبرو کر دیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی اس معروف محقق جس نے امریکہ کو انسانیت کی تاریخ کے تکامل کا آخری نقطہ قرار دیا تھا، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں، آج اسی ماہر سماجیات نے اپنا نظریہ واپس لے لیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ اور لبرل ڈیموکریسی دونوں زوال پذیر ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی امریکہ کی ہارڈ پاور کو بھی کمزور قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امریکہ کے پاس جدید ترین فوجی مشیزی موجود ہے، لیکن اس کی افواج میں افسردگی، ڈیپریشن، بے تابی اور اپنے مستقبل کے بارے میں عدم اطمینان اس بات کا باعث بنتا ہے کہ وہ اپنی ریگولر فوج کو استعمال کرنے کی بجائے مختلف ممالک میں پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیاں من جملہ بلیک واٹر کو استعمال کرکے اپنے سامراجی اہداف تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ کے غیر منطقی فیصلوں کی وجہ سے امریکہ کے حلیف ممالک بھی حیران و پریشان ہیں اور ان فیصلوں کی مخالفت بہت زیادہ ہے، ماضی میں یہ صورتحال نہیں تھی۔ اس مخالفت میں موجودہ امریکی حکام مزید سرعت بھی لا رہے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرامپ نیشنلسٹ اقتصادی نظام کو لے کر چل رہے ہیں اور وہ اپنے آپ کو ایک قدامت پرست اور نیشنلسٹ کہنے پر فخر بھی محسوس کرتا ہے۔ اس وقت اقتصادی میدان میں بھی امریکہ کی چین اور روس سے کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ چین سے تجارتی جنگ اور روس پر اقتصادی پابندیاں اس کی چن مثالیں ہیں۔ امریکہ کے اپنے قریبی حلیف برطانیہ سے بھی حالات معمول پر نہیں ہیں۔ حال ہی میں واشنگٹن میں تعینات برطانیہ کے سفیر کم ڈیرک نے امریکی صدر اور امریکی پالیسیوں کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ امریکہ برطانیہ تعلقات کا آئینہ ہے۔ برطانوی سفیر کو حقائق بتانے پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا، لیکن اس نے برطانوی حکومت اور متعلقہ اداروں کو بتا دیا ہے کہ ٹرامپ حکومت ایک غیر منطقی، متزلل اور بے کار حکومت ہے۔ اس نے اپنے ایک مراسلے میں برطانوی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وائٹ ہائوس ماضی کی نسبت اپنی پالیسیوں میں ناکام ہوچکا ہے اور ڈونالڈ ٹرامپ کے اقتدار کا اختتام انتہائی بے آبروئی اور بے عزتی سے ہوگا۔ اس موقف کے سامنے آنے کے بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ نے فوری حکم صادر کیا کہ یہ برطانوی سفیر واشنگٹن میں نہیں رہ سکتا اور اسے فوراً اپنے ملک واپس بھیج دیا جائے۔ ٹرامپ نے برطانوی سفیر کم ڈیرک کو ایک انتہائی نادان شخص قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 819187
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش