0
Friday 29 Nov 2019 13:10

عراق کے حالات پر ایک نظر

عراق کے حالات پر ایک نظر
تحریر: ناصر رینگچن

عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں روز بہ روز شدت آرہی اور تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ کرپشن اور اقتصادی مشکلات کے خلاف اٹھنے والے یہ مظاہرے اب عوام کے ہاتھوں سے نکل کر تیسری قوتوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ تقریباً دو ماہ سے جاری ان مظاہروں میں اب تک چار سو کے قریب جانیں ضائع ہوئی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری تنصیبات اور عوامی املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت سب سے اہم بات مظاہرین کا اپنے اصل ہدف سے دور ہونا اور تشدد کی جانب بڑھنا ہے۔ خصوصاً مذہبی حلقوں اور حشد الشعبی کے خلاف قدم اٹھانا ہے، جنہوں نے ان کو داعش کے شر سے نجات دلائی تھی۔ معاملہ اب کرپشن اور اقتصاد کے دائرے سے باہر ہے اور حالات ایسے ہی برقرار رہے تو خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ مظاہرین کے درمیان سازشی عناصر نے نفوذ پیدا کر لیا ہے اور وہ مظاہرین کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ان سازشی عناصر کو حکومت نے تیسری قوت قرار دیا ہے۔ تیسری قوت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عراقی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ قوتیں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب ہیں، جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے ان مظاہروں کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہر جگہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کا کیوں نام آتا ہے، مظاہرے تو عراقی کر رہے ہیں، وہ بھی اپنے ہی مطالبات کے حق میں تو یہاں امریکہ کا کیا کام؟ جواب یہ ہے کہ جہاں امریکی مفادات ہوتے ہیں، وہاں پر مستحکم حکومت کبھی امریکہ کے مفاد میں نہیں ہوتی، یہ بات ہم افغانستان سے لیکر افریقہ تک جہاں جہاں امریکہ ہے، بخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اگر حکومت مستحکم ہو اور عوام باشعور ہوں تو پھر امریکہ کے کالے کرتوت کھل جاتے ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس وقت روس اور چین کے بڑھتے اثر و رسوخ اور ایران سمیت مقاومتی بلاک کی مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کامیابی نے امریکی سپر پاور ہونے کے دعوے کو للکارا ہے اور شام، عراق اور لبنان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ عراق میں مظاہرین کا رخ تشدد کی جانب مڑنا، ایرانی کونسل خانے کو جلانا اور عراقی مذہبی شخصیات کے دفاتر پر حملہ کرنا، یہ سب عام عراقی عوام نہیں کرسکتے ہیں۔

امریکہ کو عراق کے مذہبی حلقوں سے شکایت کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک بات بتاتا چلوں کہ امریکہ جس ملک میں بھی اپنا اڈہ بناتا ہے تو سب سے پہلے اس ملک میں بدامنی اور انارکی پھیلاتا ہے، سقوط صدام کے بعد داعش کا سر اٹھانا امریکی پلاننگ کا حصہ تھا۔ داعش کے ذریعے امریکہ نے بیک وقت شام اور عراق دونوں میں خانہ جنگی شروع کروا دی تھی اور اسی بہانے امریکہ نے یہاں رہنا اور ان کے قدرتی وسائل پر ڈاکہ ڈالنا تھا۔ اب آئیں جواب کی طرف امریکہ کو دھچکہ اس وقت لگا، جب عراق کی سب سے بڑی مذہبی شخصیت آیت اللہ سیستانی نے داعش کے خلاف جنگ کا فتویٰ دیا، جس کا اثر یہ ہوا کی لاکھوں کی تعداد میں عراقیوں نے لبیک کہا اور امریکی و داعشی عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ جس کا براہ راست نقصان امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کو ہوا، کیونکہ داعش کو بنانے، ان کی تربیت کرنے اور ان کو فنڈنگ کرنے میں ان تین ممالک کا مستقیم ہاتھ تھا۔

اب امریکہ عراق میں میں ناکام ہوچکا تھا، اُس نے جس مقصد سے داعش کو بنایا تھا، اس کا سو فیصد ثمر اس کو نہیں ملا بلکہ اس کے برعکس عراق میں آیت اللہ سیستانی کے فتویٰ کی وجہ سے ایک ایسی قوت حشد الشعبی کے نام سے ابھر آئی، جس نے نہ صرف داعش کو شکست دی بلکہ امریکیوں کو بھی عراق چھوڑنے کا حکم دیا، دوسری طرف عراق کی رضاکار فورسز نے اسرائیل کو بھی آنکھیں دکھائیں، جس کے جواب میں اسرائیل نے ایک دو بار عراق میں حشد الشعبی سے متعلق ملٹری بیس پر فضائی حملے بھی کئے۔ عراق میں حشد الشعبی کی بڑھتی مقبولیت اور عراق ایران کے بہتر ہوتے تعلقات امریکہ و اسرائیل کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی۔ دوسری جانب عراقی الیکشن میں امریکہ مخالف پارٹیوں کی کامیابی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے ناقابل برداشت تھی۔

جب عوام حکومت سے اقتصادی اصلاحات کا مطالبہ لئے سڑکوں پر نکل آئے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے یہ ایک بہترین موقع ثابت ہوا اور انہوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عوام میں یہ باتیں پھیلانا شروع کیں کہ عراق کے اقتصادی بحرانوں کا اصل سبب حشدالشعبی، مقاومتی بلاک اور ایرانی اثر و رسوخ ہے، جس کی وجہ سے آج عراقی مظاہرین کا ہدف تبدیل ہوا ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس وقت بدامنی پھیلانے والوں کی اکثریت کا تعلق امریکہ اور داعش حمایتی افراد سے ہے، جو اس موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ابھی بھی عراقی باسی اور قبائلی افراد آیت اللہ سیستانی کی جانب دیکھ رہے ہیں، تاکہ ان کے حکم سے ملک میں بدامنی پھیلانے والوں کا سر کچل سکیں۔ مگر آیت اللہ سیستانی، مقتدا الصدر، عمار الحکیم سمیت اہم سیاسی و مذہبی شخصیات نے پُرامن مظاہرے کی حمایت اور حکومت سے فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی پُرتشدد واقعات کی سختی سے مذمت کی ہے اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ پرامن رہیں۔

اس وقت عراق کی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ عوام عوام کے خلاف برسرپیکار ہے، جن کو قابو کرنا حکومتی بس کی بات نہیں ہے اور آخر میں ان تمام مشکالات کا حل مراجع اور مذہبی شخصیات ہی نکال سکتی ہیں۔ امید ہے کہ اس دفعہ پھر امریکہ اور اس کے اتحادی ناکام ہونگے اور ان کے ناپاک عزائم خاک میں مل جائیں گے، ساری دنیا کی نظریں آیت اللہ سیستانی پر ہیں اور مرجع تقلید حالات کی بہتری کی جانب پُرامید نظر آتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ان شاء اللہ آئندہ جلد عراق کے حالات بہتری کی طرف لوٹ آئیں گے۔
خبر کا کوڈ : 829729
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش