0
Monday 23 Dec 2019 13:43

اردوغان نے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی

اردوغان نے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ملائیشیاء میں ہونے والی کانفرنس بنیادی طور پر مہاتیر محمد، اردوغان اور عمران خان صاحب کی ملاقاتوں کا نتیجہ تھی کہ او آئی سی خاص گرداب میں پھنس چکی ہے اور اس پر سعودیہ اور اس کے اتحادیوں کا مکمل قبضہ ہے، وہ نہ خود کچھ کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کچھ کرنے دیتے ہیں۔ ان کی اس اجارہ داری اور امت مسلمہ کی ان کی خود ساختہ ٹھیکیداری کو او آئی سی کے ذریعے ہی دوام دیا جاتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں طے یہ کیا گیا کہ ایک بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے، جو ان ممالک کی خدمت کرنے کی بجائے امت کے درد کی دوا بنے۔ کانفرنس ہوئی اور پوری شان سے ہوئی۔ جانے ہمارے وزیراعظم کو کیا خیال آیا کہ انہوں نے کانفرنس میں جانے کی بجائے پہلے سعودیہ کی زیارت لازمی خیال کی، پھر وہ ہوا جس نے ہماری خارجہ پالیسی کے کھوکھلے پن کو عام لوگوں پر بھی آشکار کر دیا۔

وزیراعظم کے دورے ذاتی حیثیت سے طے نہیں کیے جاتے، جانے یا نہ جانے کے فیصلے بڑی حکمت کے ساتھ کیے جاتے ہیں اور ان سے واپس مڑنا بہت ہی ایمرجنسی کی صورتحال میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ملائیشیاء میں کانفرنس کے لیے تیار کیے گئے لٹریچر میں عمران خان صاب کی تصویر پوری آب و تاب سے موجود ہے۔ عمران خان صاب نے دورہ کو ملتوی کیا اور مہاجرین کے مسائل پر بات چیت کے لیے یورپ نکل گئے۔ اس پر بہت لے دے ہوئی، سیاسی جماعتوں نے شدید ردعمل دیا۔ عوامی سطح پر بھی بہت بے چینی ہوئی، یہ سب ختم ہی ہونے والا تھا کہ ترکی کے صدر کا بیان آگیا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ اس کانفرنس میں شریک ہوا تو نہ صرف اربوں ڈالر اکاونٹ سے نکال لیے جائیں گے بلکہ چالیس لاکھ پاکستانیوں کو بھی چلتا کیا جائے گا۔

اس بیان پر سچ پوچھیں تو میں سکتے میں چلا گیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارا برادر ملک جس کی حفاظت میں ہمارے لوگوں نے جانیں قربان کی ہیں اور جس کی تعمیر میں لاکھوں پاکستانیوں کی محنت شامل ہے، وہ اس قدر جلد ہمیں اتنی بڑی دھمکی دے رہا ہے؟ اس سے بڑا دھچکا یہ تھا کہ ہر بات پر ایاک نعبد و ایاک نستعین پڑھنے والا ہمارا وزیراعظم مکمل طور پر جی حضوری والا ثابت ہوا اور کہا اگر آپ نہیں چاہتے تو ہم نہیں جاتے۔ پیسے نکالنا تو ممکن ہے، کسی بھی وقت نکالے جا سکتے ہیں، مگر کیا سعودیہ کے لیے چالیس لاکھ پاکستانیوں کو نکالنا ممکن ہے؟ ہمارے دوست اور مشہور تاریخ دان داود ظفر صاحب نے یہ تحریر شیئر کی۔ پرنس محمد بن سلمان نے چالیس لاکھ پاکستانی کارکنان کو سعودی عرب سے بے دخل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ تصور کریں یہ کس قدر قابل عمل دھمکی تھی؟

تربیت یافتہ ملازموں کا ملنا دنیا میں اسی قدر آسان ہے کہ پرنس چٹکی بجاتے اور چالیس لاکھ افراد سعودی عرب کی خدمت کرنے کے لیے پہنچ جاتے اور اس کے جواب میں پاکستان اگر کہہ دیتا کہ اگلے سال سے ہم حج کوٹہ اور عمرہ کا کوٹا 90 فیصد کم کر رہے ہیں تو سعودی پرنس کی طبیعت صاف ہو جاتی۔ اسی طرح ایران پاکستان کو تقریبا مفت تیل اور گیس دینے کے لیے تیار ہے۔ یعنی لمبے ادھار پر بارٹر ٹریڈ سسٹم کے تحت خوراک اور ادویات کے عوض۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیئے کہ سعودی عرب کے بغیر پاکستان گزارا کرسکتا ہے اور زندہ رہ سکتا ہے۔ شرطیہ کہتا ہوں کے پاکستان کے بغیر سعودی بادشاہت ایک دن بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ سعودی عوام میں غیر مقبول ہونے کے بعد سعودی بادشاہت پاکستانیوں کی طاقت کے پاؤں پر کھڑی ہے۔ حکومت پاکستان کو اپنی اس طاقت کا احساس ہونا چاہیئے۔

داود صاحب نے درست لکھا کہ ہم ان کے بغیر رہ سکتے ہیں، وہ ہمارے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ہمارے وزیراعظم کو جو دھمکی دی گئی، دراصل وہ ہمارا طاقتور ترین پہلو تھا کہ ہم چالیس لاکھ پاکستانیوں کو سعودیہ سے نکال لیں گے، جس کے نتیجے میں سعودیہ کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ بغیر تنازع بنائے بھی یہ بات کی جا سکتی تھی کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، مگر اب ہم اس کانفرنس میں جا رہے ہیں، اگر یہ سعودیہ کے خلاف ہوئی تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ نواز شریف نے یمن فوج بھیجنے کے معاملے پر بڑی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے سعودیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو پس پشت ڈال کر پارلیمنٹ کے ذریعے فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا، اس سے مودی کو سعودی ایوارڈ تو مل گیا، مگر ہم ایک بے مقصد جنگ سے بچ گئے۔ ویسے بھی عربوں کو خطرہ لاحق ہوگیا کہ عقیدت کے نام پر بہت سے ممالک کو ہم نے اپنا تابع فرمان کر رکھا ہے، اگر یہ الگ سے سوچنے سمجھنے لگے تو ہمارا کیا بنے گا؟ یہ ابھرتا اتحاد امریکی مفادات کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی تھا، اس لیے اس کا دباو الگ سے تھا۔

کچھ باتیں بچپن سے انسان کے ذہن میں ڈالی جاتی ہیں اور ان کے مخالف سوچنا بھی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک بات جو ہمارے ذہن میں ڈالی گئی ہے کہ سعودیہ ہمارا ہر دم کا یار ہے اور اس کی پاکستان کے لیے قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور سعودیہ اور ہمارے درمیان برادرانہ سے بھی آگے کے تعلقات ہیں۔ میں بھی یہی سمجھتا تھا، جب تھوڑا تھوڑا بین الاقوامی میڈیا کو فالو کرنا شروع کیا اور فلسطین  سے متعلق پڑھنے لگا تو بہت سے ممالک کا کردار بے نقاب ہونے لگے۔ اس میں سعودیہ کا کردار بڑا عجیب تھا کہ امت کی رہبری کے دعویدار کس طرح فلسطینیوں کے قاتلوں کے ساتھ ہیں؟ یہ بات حیران کن تھی۔ پھر بھی بہت سی باتوں کو اس لیے نہیں کہہ پاتا تھا کہ شائد مخالف فکر ہونے کی وجہ سے میرے ذہن میں یہ خیالات آتے ہیں، اگر امت کے لیے خاندان سعود کا کردار اتنا ہی خطرناک ہے تو دوسرے ایسا کیوں نہیں سمجھتے۔؟

سچ یہ ہے کہ مقروض اور فقیر کی محلے میں کوئی عزت نہیں کرتا، دنیا میں اس کی کیا عزت ہوگی؟ اس کانفرنس میں نہ جانے کے نقد فوائد ملنا شروع ہوگئے، امریکہ نے پاکستانی فوجیوں کی تربیت پر عائد پابندی ختم کر دی ہے اور ساتھ میں آئی ایم ایف نے  بھی اگلی قسط جاری کر دی ہے، تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو ٹھکراو گے۔ یہ سب کانفرنس میں نہ جانے کے فوری فوائد ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ غیرت دکھانے کی ایک قیمت ہے، جو ادا کرنی پڑتی ہے، جس کے لیے ہم ابھی تیار نہیں  کیونکہ FATE کی میٹنگ بھی نزدیک ہے۔ سعودیہ اور ہمارے تعلقات ایسے ہی تھے، مگر اردوغان نے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی، جس پر ہم جیسے تلملا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 834370
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش