0
Monday 23 Dec 2019 21:06

جمال خاشقجی کے قاتلوں کو سزائے موت

جمال خاشقجی کے قاتلوں کو سزائے موت
تحریر: طاہر یاسین طاہر

اس پر بحث ہی نہیں کہ عدل پورا ہوا یا ادھورا، البتہ یہ طے ہوگیا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہوا، باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہوا۔ قاتلوں کو سزا، عالمی برادری، بالخصوص ترکی حکومت کے دلیرانہ موقف اور بعد ازاں اقوام متحدہ و انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی اس کیس پر مسلسل نظر نے دلوائی۔ ڈان نیوز کے مطابق "سعودی عدالت نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت اور دیگر تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنا دی۔ امریکا میں مقیم سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گذشتہ سال ترک شہر استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت سامنے آنے والی ویڈیو فوٹیج کے مطابق 2 اکتوبر 2018ء کو جمال خاشقجی استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے کے اندر داخل ہوئے تھے، لیکن اس کے بعد واپس نہیں آئے۔ جمال خاشقجی کے قتل پر عالمی سطح پر غم و غصہ سامنے آیا تھا، جس کی وجہ سے سعودی ولی عہد کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا تھا، جس کے بعد سے انہوں نے امریکا اور یورپی ممالک کا کوئی دورہ نہیں کیا۔"

گذشتہ برس نومبر میں امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔ امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق امریکا کی جانب سے یہ نتیجہ سعودی پراسیکیوٹر کے بیان سے براہ راست متصادم ہے، جس میں انہوں نے اس سفاکانہ قتل میں سعودی شہزادے کے ملوث ہونے کو مسترد کیا تھا۔ یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ سعودی عرب نے پہلے جمال خاشقجی کے بارے میں کسی بھی طرح کی معلومات سے انکار کیا تھا جبکہ بعد میں کہا تھا کہ لڑائی کے دوران انہیں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں سعودی پراسیکیوٹر نے یہ بھی کہا تھا کہ جمال خاشقجی کو "قائل کرکے" استنبول سے واپس لانے کے لیے 15 رکنی اسکواڈ قائم کیا گیا تھا، لیکن یہ معاملہ صحافی کے قتل اور "خطرناک" آپریشن کے ذریعے ان کے جسم کے ٹکرے کرنے پر ختم ہوا۔

واشنگٹن پوسٹ نے گذشتہ برس اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سی آئی اے نے مختلف خفیہ ذرائع کا جائزہ لیا، جس میں امریکا کے لیے سعودی سفیر اور ولی عہد کے بھائی خالد بن سلمان اور جمال خاشقجی کے درمیان کی گئی فون کال بھی شامل ہے۔ اس فون کال میں خالد بن سلمان نے مقتول صحافی کو بتایا تھا کہ وہ استنبول میں قونصل خانے جا کر مطلوب دستاویزات حاصل کر لیں اور وہ وہاں محفوظ رہیں گے، جبکہ سعودی سفارتخانے کے ترجمان محمد کا کہنا تھا کہ خالد بن سلمان نے کبھی جمال خاشقجی سے ترکی جانے سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ اس حوالے سے سفارتکار نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ٹوئٹ کیا تھا کہ خالد بن سلمان نے جمال خاشقجی سے کبھی کوئی ٹیلی فونک گفتگو نہیں کی اور واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کیا گیا دعویٰ جھوٹا ہے۔

جون 2019ء میں جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق اقوام متحدہ کی تشکیل کردہ ٹیم کی جانب سے جاری کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر سینیئر سعودی عہدیدار، صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ ماورائے عدالت قتل سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر اور تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ اگنیس کیلامارڈ نے مختلف ممالک سے مطالبہ کیا تھا کہ سعودی ولی عہد جب تک یہ ثابت نہیں کر دیتے کہ وہ جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار نہیں، سعودی عرب پر عائد کی گئی پابندیوں میں توسیع کرتے ہوئے ولی عہد اور ان کے ذاتی اثاثوں کو بھی پابندی کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

 سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی دو چار برس سے امریکا میں مقیم تھے۔ تاہم 2 اکتوبر 2018ء کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں سامنے آئے، جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے، لیکن واپس نہیں آئے۔ بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔ صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا۔ گذشتہ سال دسمبر میں امریکی سینیٹ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دینے سے متعلق قرارداد منظور کی، جس میں سعودی حکومت سے جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ داران کا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ نے جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش کے لیے 3 رکنی ٹیم تشکیل دی تھی اور اس ٹیم کی سربراہ نے جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں گرفتار مشتبہ ملزمان کی خفیہ سماعت کو عالمی معیار کے خلاف قرار دیتے ہوئے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔ سعودی عرب کی جانب سے پانچ افراد کو اس مقدمے میں سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے جبکہ دیگر تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ریاض میں پریس کانفرنس کے دوران پبلک پراسیکیوٹر نے سزاؤں کا اعلان کیا۔ سعودی پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے عرب نیوز سے شیئر کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ عدالت نے 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی، جس میں سے تین کو بری کر دیا گیا۔"

 میری رائے میں یہ امر طے ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو ان کی شاہی خاندان پر سخت ناقدانہ رائے کے باعث ظالمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ اگرچہ ان کے قاتلوں کو سزائے موت کو حکم سنا دیا گیا ہے اور قتل میں معاونت کرنے والوں کے لیے بھی سعودی قانون کے مطابق سزائیں سنائی گئی ہیں۔ لیکن یہ امر حیرت افروز ہے کہ کیا ناقد، یا حکومت سے مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والوں کا مقدر صرف موت ہی ہے؟ کیا اکیسویں صدی میں بھی اختلافِ رائے رکھنے والوں کو طاقت ور بادشاہ، یا دیگر ادارے اپنے کارندوں کے ذریعے موت کے گھاٹ ہی اتارتے رہیں گے؟ یا اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے ہوئے مکالمہ اور دلیل کو رواج دیں گے؟ جمال خاشقجی کے ایک دوست کے مطابق جمال کے پاس سعودی شاہی خاندان کی کرپشن اور دہشت گرد تنظیموں سے گہرے روابط کے متعلق کافی معلومات تھیں۔

اگرچہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش اور القاعدہ کی تشکیل میں سعودی عرب کے مرکزی کردار سے دنیا کے بیدار مغز افراد پہلے ہی بہت کچھ جانتے ہیں۔ یہ امر واقعی ہے کہ بادشاہوں کا ایک مزاج ہوتا ہے، ظالمانہ مزاج جو ملوکیت کو دوام دیتا ہے۔ خاشقجی کے قتل پر ثابت قدمی دکھانے اور اسے ہائی لائٹ کرنے میں ترکی کے کردار کو فراموش کرنا زیادتی ہوگی۔ اگر ترک حکومت خاموشی اختیار کر لیتی تو عالمی براداری بھی چپ سادھے رکھتی۔ شاید نہیں یقیناً خاشقجی کے قتل کے منصوبہ کاروں نے غلط ملک اور جگہ کا انتخاب کیا۔ خاشقجی کے قتل سے سعودی شاہی خاندان، بالخصوص شہزادے کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا گیا، جس سے شہزادے کو ندامت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن کیا  ایک بیدار مغز اور انسانیت کے ہمدرد صحافی جمال کے قتل پر شاہی خاندان کی چند روزہ ندامت کافی ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 834426
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش