0
Thursday 26 Dec 2019 15:19
خودساختہ دہشتگردی کا مقصد پاراچنار کو ریڈ زون بنانا ہے

پاراچنار، سکیورٹی کے نام پر اہلیان کرم کا سیاسی اور اقتصادی پوسٹ مارٹم

پاراچنار کی اقتصادی اور سیاسی بیخ کنی میں فوجی اور سول انتظامیہ کی ایک دوسرے پر سبقت
پاراچنار، سکیورٹی کے نام پر اہلیان کرم کا سیاسی اور اقتصادی پوسٹ مارٹم
تحریر: روح اللہ طوری

ضلع کرم بلکہ ہر قبائلی ضلع اس وقت شاید اپنے سابقہ سیٹ اپ یعنی ایجنسی کے نام کے لئے ترس رہا ہوگا۔ قبائل سسٹم میں صرف 40 ایف سی آر ہی ایک ایسا مسئلہ تھا، جس کی وجہ سے قبائلی عوام فاٹا کے نام سے متنفر ہوگئے تھے۔ جسکے تحت ملزم یا مجرم کی جگہ اسکے خاندان بلکہ اسکے پورے قبیلے کو تنگ کیا جاتا تھا۔ مجرم یا ملزم جب تک حاضر نہ ہوتا، اسکے گھر، خاندان اور قبیلے والے ٹھوکریں کھاتے۔ باقی یہاں فیصلے ضلع کی نسبت سستے اور جلد ہوا کرتے تھے۔ علاقائی روایات اور دستورات کا خیال رکھا جاتا تھا۔ شاید انہی مسائل و مشکلات کو پیشگی درک کرکے مولانا فضل الرحمٰن صاحب ضلعی نظام کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ ایک سال سے شاید کم عرصہ ہورہا ہے کہ دیگر قبائلی علاقوں کی طرح کرم میں بھی ضلعی نظام رائج ہے مگر اس دوران اہلیان کرم نے جن مشکلات کا سامنا کیا، یا ابھی تک کررہے ہیں۔ اسکی مثال قبائل کی سوا صدی میں نہیں ملتی۔

یہاں تو حالت کچھ یوں ہے کہ اگر کہیں عوام کو نہایت ایمرجنسی میں انتظامیہ اور پولیس کی ضرورت ہو، تو ایک ہفتے میں بھی وہ دستیاب نہیں ہوگی۔ تاہم اگر کہیں انہیں اپنی مشکل درپیش ہے، تو آنا فانا وقوعہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ پاراچنار گذشتہ چند سالوں سے شدید دہشتگردی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ ان حالات کو اس وقت دہشتگردوں کی کارروائی خیال کیا جارہا تھا، لیکن اب نظر آرہا ہے کہ یہ سب کچھ خود ساختہ دہشتگردی تھی۔ جس کا واحد مقصد علاقے خصوصا پاراچنار کو ریڈ زون بنانا تھا۔ نیز یہ کہ عوام کے دلوں میں طالبان کیلئے جو نفرت تھی، کہ وہ کسی صورت میں انہیں اپنے علاقے سے گزرنے کو تیار نہ تھے، اسکی بجائے انہیں اپنے مسائل میں الجھا کر کرم بھر میں مسلح طالبان کی سرگرمیوں سے غافل کرانا تھا۔ اس دوران کرم جن مشکلات سے دوچار ہوا۔ اسکی تفصیل کچھ یوں ہے۔

1۔ شہر میں مال بردار گاڑیوں کے داخلے پر پابندی:
عرصہ دو سال سے دھماکوں کو بہانہ بنا کر پاراچنار شہر میں مال بردار گاڑیوں کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔ گاڑیاں کئی کئی گھنٹے ٹل پاراچنار مین روڈ پر کھڑی رہتی ہیں۔ اور شام 6 بجے کے بعد انکو اجازت دی جاتی ہے۔ کئی گھنٹوں تک انتظار کرنے کی وجہ سے گاڑیوں کا کرایہ کئی گنا زیادہ ہے۔ جو کہ پاراچنار میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر ڈائریکٹ اثرانداز ہے۔ چنانچہ پاراچنار میں سبزیوں اور دیگر اشیائے خورد و نوش نیز روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء کی قیمتوں سے اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل  نہیں۔ 

2۔ معمولی مسئلے کو ایشو بناکر خانہ تلاشی کی سازش:
حکومت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کوئی خاص مسئلہ پیدا کرتی ہے، جسے ایشو بناکر وہاں کے عوام کو تنگ کیا جاتا ہے۔ مثلا حال ہی میں پیواڑ میں گل سکینہ کے قتل کو ایشو بنا کر علاقے کے لوگوں کو قید کیا گیا۔ دفن کے کئی ہفتے بعد بچی کی لاش کو کئی مرتبہ نکالا گیا۔ اور اسکا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ حالانکہ سکول کا چوکیدار زیر حراست ہے، اسی سے پوچھ گچھ کی جاتی، مگر حکومت نے اس پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اطراف میں واقع تمام گھروں کی تلاشی لے کر چادر اور چاردیواری کو پائمال کیا گیا۔ لوگوں کا معمول کا اسلحہ چھینا گیا۔ اصل مسئلے کی بجائے لوگوں کو دوسری مصیبت میں ڈالا گیا۔ جس کی وجہ سے گل سکینہ سے ہمدردیاں رکھنے والے عوام میں غم اور غصے کی لہر دوڑ گئی۔ نتیجتا مقتولہ سے انکی تمام تر ہمدردیاں دم توڑ گئیں۔

3۔ پوسٹ مارٹم کے نام پر لاشوں کی بیحرمتی:
پاراچنار میں پیش آنے والے ہر چھوٹے بڑے معاملے کو حکومت اب ایک ایشو بناکر عوام کو تنگ کرتی ہے۔ قبائل بلکہ اسلام میں میت کا ایک خاص احترام ہوتا ہے۔ میت کو جلد دفن کرنے کا حکم اسلام اسلئے دیتا ہے کہ سڑ جانے کیوجہ سے میت کی کہیں بیحرمتی واقع نہ ہو۔ جبکہ حکومت قتل کے کیسز میں اب مقتول کی لاش کا پوسٹ مارٹم کراتی ہے۔ یہی نہیں، بلکہ متعدد واقعات میں کئی ہفتے گزرنے کے بعد نبش قبر کرتے ہوئے میت کی بیحرمتی کی گئی۔ جس کی وجہ سے اب عوام میں فاٹا میں رائج اس کالے قانون کی تمنائیں کی جارہی ہیں۔ 

4۔ ریت اور بجری کے ٹریکٹروں کے داخلے پر پابندی:
پاراچنار شہر اور اطراف میں لوگ تیزی کے ساتھ نئی آباد کاری کررہے ہیں۔ جسکے لئے پاراچنار کے اطراف سے ریت اور بجری لائی جارہی ہے۔ تاہم ایک ہفتے سے حکومت نے ان پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ روزانہ پاراچنار آنے والے راستوں پر واقع پھاٹکوں پر سینکڑوں کی تعداد میں ٹریکٹرز کو دن بھر روکا جاتا ہے۔ متعدد مرتبہ مقامی بااثر افراد یا تنظیموں کی سفارش پر ٹریکٹرز کو چھوڑا گیا۔ تاہم اگلے روز پھر وہی سلوک۔ تنگ آکر کل 25 دسمبر کو ٹریکٹرز ڈرائیورز نے نستی کوٹ بائی پاس روڈ کو احتجاجا بلاک کردیا۔ کئی گھنٹے احتجاج کے بعد حکومت نے مجبور ہوکر ٹریکٹرز کو شہر میں داخلے کی اجازت دے دی۔ خیال رہے کہ بجری اور ریت پر پابندی کی وجہ سے تعمیراتی کام کئی دنوں تک روکے رہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو خاص طور پر ٹھیکداران کو کروڑوں کا نقصان ملا۔ خیال رہے کہ یہ موخر الذکر مسئلہ سول انتظامیہ کا نہیں بلکہ فوجی انتظامیہ کا پیدا کردہ ہے۔ 

5۔ ممنوعہ اشیاء خود رکھ کر الٹا عوام کا مواخذہ:
اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ کہیں دور کھیتوں میں پراسرار طور پر کوئی ممنوعہ چیز برآمد کی جاتی ہے، جسکا اس علاقے کے باشندے تو کیا، ان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ پولیس، ایف سی یا فوج جاکر وہاں سے وہ ممنوعہ چیز برآمد کرتی ہے۔ جس کی پاداش میں مقامی عوام کو تنگ کیا جاتا ہے کہ یہ آپ لوگوں نے رکھی ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ حال ہی میں کڑمان روڈ پر واقع ٹولہ کے علاقے میں پیش آیا۔ جہاں کھیتوں میں رکھے دو عدد میزائلوں کا مقامی افراد کی بجائے حکومت کو علم ہوا۔ میزائل اٹھانے کے بعد انہوں نے علاقے کے عوام کو تنگ کرنا شروع کیا۔ علاقے سے موصولہ باوثوق ذرائع کے مطابق علاقے کے مشران نے بلکہ وہاں کے کچھ اہم افسران نے جواب دیا کہ جب ہمیں علم نہیں تھا، تو آپکو کیسے علم ہوا۔ چنانچہ واضح ہے کہ آپ ہی کے بندوں نے رکھا ہے۔ اور یہ کہ جس کسی نے آپکو یہ اطلاع دی ہے۔ اسی سے پوچھو کہ یہ سامان کس نے رکھا ہے۔ وہ سب کچھ بتا دے گا۔ یہ اور اسی طرح درجنوں ایسے ایشوز ہیں، جس میں انتظامیہ عوام کو تنگ کرتی رہی ہے۔ جس کا واحد حل قومی اتحاد ہے۔ اس حوالے سے انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی کو رول ادا کرنا چاہیئے۔ 
خبر کا کوڈ : 834917
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش