0
Thursday 16 Jan 2020 19:41

کیا گمشدگیوں کا کوئی حل نہیں؟

کیا گمشدگیوں کا کوئی حل نہیں؟
تحریر: ابراہیم کنبھر
kumbharibrahim@gmail.com


سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجداری مقدمات سے متعلق ایک بڑا فیصلہ دیا ہے، اس فیصلے کے دو تین نقاط اہم ہیں، پہلا یہ ہے کہ ایک مقدمہ میں دو ایف آئی آرز نہیں درج کی جا سکتیں، دوسری اہم بات یہ ہے کہ صرف ایف آئی آر کی بنیاد پر کسی بھی ملزم کی گرفتاری نہیں کی جا سکتی، ایف آئی آر کے بعد تفتیش ہوگی، پولیس کے پاس ناقابل تردید شواہد ہونگے تو ملزم کو گرفتار کیا سکتا ہے، ورنہ پولیس کسی پہ ہاتھ نہیں ڈال سکتی، پاکستان میں پولیسنگ سروس، پولیس کا نظام، پراسیکیوشن اور اس کے بعد نظام عدل و انصاف کی جو کھال ادھیڑی گئی ہے، وہ تو سب جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایف آئی آر میں تفتیش کے بغیر گرفتاری سے روکا ہے، لیکن یہاں تو پولیس شک یا این سی کی بنیاد پر ملزم کے سارے خاندان کو پکڑ کر بند کر دیتی ہے۔

صرف شک کی بنیاد پر یا نامعلوم افراد پر ایف آئی آر کاٹ دی جاتی ہے اور پھر اس میں نام ذاتی عناد کی بنیاد پر ڈالے جاتے ہیں۔ داخلے کئے جاتے ہیں، گرفتاری، رہائی جسے عرف عام میں پکڑ دھکڑ کہا جاتا ہے، پاکستان کی پوری پولیس کے پاس کمائی کا ذریعہ اسی ایک ہی نظام کے تحت ہوتا ہے، افتخار چودھری سے موجودہ فعال چیف جسٹس تک اس ناکارہ سسٹم کی بہتری کے لئے رتی برابر کام نہیں ہوا، یہ بات سب کو ماننا چاہیئے۔ اس وقت ملک میں آہستہ آہستہ اپنے دیس باسیوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف تحریک زور پکڑ رہی ہے، اس کی اہم وجہ آئین اور قانون پر بے اعتمادی اور عملدرآمد نہ ہونا ہے، شہریوں کی گمشدگیوں کے معاملات میں پولیس کی ایف آئی آر وغیرہ کی تو ایک دھیلے کی بھی حیثیت نہیں ہے، خفیہ والے آتے ہیں، لوگوں کو دن دھاڑے اچانک اٹھا کر چلے جاتے ہیں، پھر ان کو حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے، پولیس بےبس ہو کر رہ جاتی ہے۔ اکثر واقعات میں لاعلم رہتی ہے، سول انتظامیہ بےبس و لاچار بن جاتی ہے۔

انتظامیہ تو کیا وزیروں کی حالت بھی وہی ہوتی ہے، جیسے سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال یا ناصر شاہ کی اس وقت ہوئی تھی، جب وہ کراچی میں شہریوں کی بازیابی سے متعلق قائم کیمپ پر پہنچے، گمشدہ باپوں کی بیٹیاں ان کو اپنا درد سنا رہیں تھیں، لیکن ان وزراء کے پاس تسلی دینے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا؛ یاران وطن کی گمشدگی پاکستان کا پرانا مسئلہ رہا ہے، بلکہ اب تو وہ ریاست کے سر کا درد بنتا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود اس کو حل کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے ملک کے مارشل لا چیف عرف چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اپنے وطن کے کئی شہری اٹھا کر امریکا کے سپرد کئے، سپرد خاک کئے، دراصل بیچ دیئے۔ اس لاقانونیت کا اعتراف انہوں نے اپنی کتاب "ان دی لائین آف فائر" میں بھی کیا ہے۔ ان گمشدگیوں یا حوالگیوں کے بدلے سربراہ مملکت امریکا سے پیسے وصول کرتے رہے ہیں، دنیا کے ممالک اشیاء کی برآمدات سے پیسے بناتے ہیں، ہمارے ملک کے فوجی آمر نے اپنے شہریوں کی ہیومن ٹریفکنگ یعنی لوگوں کی غیر آئینی، غیر قانونی اسمگلنگ کے ذریعے پیسے کمائے، پھر ان پیسوں کا حساب کتاب بھی ہڑپ کر گئے۔

ملکی مفادات اور سلامتی کی بات کرنے والے کسی بھی ادارے نے اس شخص سے یہ سوال نہیں پوچھا کہ لوگوں کو بیچنے سے جو ملا، وہ مال کہاں گیا؟ وہ پیسے قومی خزانے میں جمع ہوئے یا آرمی چیف نے اپنی جیب میں ڈالے؟ یہ بھی پتہ نہیں کہ فی فرد کے حساب سے روپیہ طے ہوا یا سودا کچھ اور ہوا؟ ایک آدمی بیچنے کے بدلے کتنے پیسے ملے؟ وہ پیسے کہاں ایڈجسٹ ہوئے؟ دوسری طرف نواز شریف ابھی تک ایمل کانسی کے طعنے بھگت رہا ہے۔۔۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اپنے ملک سے لوگ اٹھائے گئے اور ان میں سے کئی افراد امریکا کے ذریعے گوانٹانامو بے بھیجے گئے، کئی لوگوں کو غیر قانونی حراستی مراکز میں رکھا گیا، ان میں سے کئی مرگئے، جن کی لاشیں تک ورثاء کو نہیں ملیں اور کئی بےحال ہو کر واپس گھر پہنچے، 2003ء سے ایسی گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا، جو ابھی تک جاری ہے اور یہ سب کچھ وسیع تر قومی مفادات، ملکی سلامتی، ملکی مفاد کے نام پر ہو رہا ہے۔

منظور پشتین کی تحریک کو جو بھی نام دیں، لیکن تحریک جبری گمشدگیوِں کے خلاف ابھری، جو اسلام آباد سے شروع ہو کر فاٹا سے ہوتی ہوئی سارے خیبر پختونخوا کے بعد اب پورے ملک میں پھیل کر ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، اب اس تحریک کے رہنماء الیکشن یعنی پارلیمانی سیاست کی جانب بڑھ رہے ہیں، جبری گمشدگیوں کے مسئلے میں صرف کے پی کے اور فاٹا نے ہی نہیں لیکن سندھ اور بلوچستان نے بھی خوب بھگتا اور ابھی تک بھگت رہے ہیں، اب تو ان گمشدگیوں کے خلاف سندھ میں بھی ایک تحریک شروع ہوچکی ہے، جو سندھ کے دارالحکومت کراچی سے شروع ہوئی۔ احتجاجی کیمپ کا دائرہ بڑھ کر پورے سندھ تک پہنچ چکا ہے۔ کراچی احتجاجی کیمپ پر بیٹھی سندھ کی بیٹیوں نے پولیس اور دیگر کارندوں کی بدسلوکی کے خلاف سب سے پہلے سوشل میڈیا پر آواز بلند کی، بعد میں وہ احتجاجی تحریک میں تبدیل ہو کر سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں، ریلیوں، دھرنوں یا احتجاجی کیمپس کی صورت میں نظر آرہی ہے۔

ایسا ہی ایک کیمپ اسلام آباد میں بھی قائم کیا گیا، گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے منظور پشتین، نظیر آریجو، سورٹھ لوہار، سسئی سے ثناء اللہ امان تک سب کا مطالبہ بالکل سادہ، چھوٹا سا اور معمولی ہے کہ جن لوگوں کو اغواء کرکے گم کیا گیا ہے، ان کو ملک کے آئین کے تحت چوبیس گھنٹوں میں عدالتوِں میں پیش کیا جانا چاہیئے، اگر ابھی تک ان کو پیش نہیں کیا گیا تو اب ان کو عدالتوں میں لایا جائے، ان لوگوں کو ان کا جرم بتایا جائے، ان کے خلاف کوئی شواہد ہیں تو مقدمات چلائے جائیں، اگر ان پر جرم ثابت ہو جائے تو ان کو سزا دی جائے، ان سب باتوں میں کونسی بات ملکی سلامتی اور مفادات کے خلاف ہے؟ اسلام آباد میں مہران اسٹوڈنٹس کونسل کی کال پر تین دن کے احتجاجی کیمپ نے انتظامیہ، پولیس، سکیورٹی ایجنسیز اور حساس اداروں کو کتنا پریشان کیا، ان کا ایک گواہ میں خود بھی ہوں،
میرا کچھ وقت اس احتجاجی کیمپ پر گزرا۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ سندھ میں سورٹھ لوہار، نظیر آریجو، سسئی اور کچھ دیگر خواتین نے جب اپنے پیاروں کے بازیابی کے لئے کراچی میں احتجاجی کیمپ قائم کیا تو اس کیمپ میں سندھ حکومت کی ناک کے نیچے ان کے اور دوسرے اہلکاروں نے خواتین کو گھسیٹا ان کے کپڑے تک پھاڑ دیئے۔ یہ جو کچھ ہوا، اس کا ردعمل اسلام آباد میں بھی ظاہر ہوا اور سندھی طلبہ نے یونیورسٹی کی دوسری کاؤنسلز جن میں پشتون، بلوچ، سرائیکی، پنجابی اور گلگت کاؤنسلز کو ساتھ لے کر احتجاجی مظاہرہ کرنے کے بعد نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ قائم کر دیا، پہلے تو ان کو یہ کیمپ قائم کرنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی، لیکن اسلام آباد انتظامیہ میں موجود سندھ کے آفیسر جو کہ خود بھی قائد اعظم یونیورسٹی کے طالبعلم رہ چکے ہیں، انہوں نے طلبہ کو اس شرط پر اسلام کیمپ قائم کرنے دیا کہ وہ دوسرے دن احتجاج ختم کردیں گے۔

طلبہ نے آپس میں چندہ اکٹھا کرکے ڈیکوریشن کی دکان سے خیمے لئے اور کیمپ قائم کر دیا، اسی رات کو پشتین موومنٹ کے رہنما منظور پشتین بھی اس کیمپ پر پہنچ گئے، منظور پشتین سے متعلق ایک حلقے کا خیال یہ ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی کی پشتون کاؤنسل ہی پشتین کی اصل طاقت ہے، مہران کاؤنسل کے احتجاج کی حمایت پاکستان عوامی ورکرز پارٹی نے بھی کی، اس پارٹی کے کئی رہنما بھی کیمپ پر پہنچے، جب دوسرا دن آیا یعنی بدھ کی صبح ہوئی تو اسلام آباد انتظامیہ، پولیس، رینجرز، سکیورٹی اور حساس اداروں کے اہلکار طلبہ کا گھیرا تنگ کرتے نظر آئے، لیکن طلبہ نے رات گئے ہی اعلان کر دیا تھا کہ احتجاجی کیمپ تین دن تک جاری رہے گا۔ نیشنل پریس کلب کے احاطے میں اور بھی کئی کیمپس لگائے گئے ہیں، لیکن گمشدگیوں کے خلاف کیمپ انتظامیہ اور ریاستی مشینری کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا، وہاں سب کو احتجاج کرنے کی اجازت بھی ہے، اگر احتجاج سے کسی کو روکا گیا ہے تو ان طلبہ کو روکا گیا، جو گمشدگیوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے آئے تھے۔

میری آنکھوں کے سامنے فرشتے، اہلکار، کارندے طلبہ کو کیمپ ختم کرنے کا کہتے رہے، اسلام آباد میں اسی دن گرمی کا درجہ حرارت بھی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا، طلبہ نے احتجاج اور کیمپ ختم کرنے سے انکار کر دیا، تیز دھوپ میں اڑھائی بجے کے قریب اسلام آباد پولیس نے ایک ڈی ایس پی کی سربراہی میں شاگردوں کو دھوپ سے محفوظ رکھنے والا کیمپ اکھاڑ کر پھینک دیا اور خیمے بھی موبائل میں ڈال کر لے گئے، اسلام آباد پولیس کو یہ بھی حکم ملا تھا کہ احتجاج میں شامل لوگوں کی پکڑ کر تھانے لایا جائے، لیکن جوان نسل طلبہ بغیر کسی مزاحمت پرامن انداز میں احتجاج کرتے رہے اور انتظامیہ پر واضح کیا کہ احتجاج ہمارا آئینی حق ہے، وہ ختم نہیں کریں گے، اگر آپ کو گرفتار کرنا ہے تو ہم تیار ہیں۔ پولیس کیمپ اکھاڑ کر لے گئی، لیکن کسی طالبعلم کو گرفتار نہ کرسکی، طالبعلم بڑے حوصلے سے تپتی دھوپ میں نعرہ بازی کرتے، احتجاج ریکارڈ کرواتے رہے۔

پھر اس کیمپ جو اصل میں کیمپ بھی نہیں تھا، وہاِں آہستہ آہستہ لوگ آتے گئے، قافلہ بنتا گیا۔ اسلام آباد میں موجود کچھ غیر سرکاری سندھی بھی اپنے خاندانوں کے ساتھ اسی احتجاج میں شریک ہوئے، اسی رات سندھ سے آنے والی سورٹھ لوہار اور نظیر آریجو بھی کیمپ پر پہنچیں تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا، رات کو اچھے خاصے لوگ اکٹھے ہوئے، اس صورتحال اور بڑھتے ہوئے احتجاج کو دیکھ کر اسلام آباد انتظامیہ کو غصہ آگیا، طلبہ کی منتیں بھی ہوتی رہیں اور دھمکیاں ملتی رہیں، سارا زور اس بات پر تھا کہ احتجاج کو ختم کیا جائے. اب اسلام آباد انتظامیہ کا موقف تھا کہ منظور پشتین کی آمد سے صورتحال خراب ہوئی ہے، یہاں اینٹی اسٹیٹ نعرہ بازی ہوئی ہے، یہ ایک بہانہ تھا کہ لڑکوں کو ڈرا کر بھگایا جائے، مہران کاؤنسل کے طلبہ جیسا کہ تیسرے دن بھی کیمپ لگانے کا اعلان کرچکے تھے، اس لئے انہوں نے رات گئے کیمپ ختم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ احتجاج دو دنوں تک جاری رہے گا۔

رات گئے اپنے گمشدہ پیاروں کی تلاش میں نکلی نظیر آریجو، سورٹھ لوہار کی آمد، عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماؤں کے آنے سے احتجاجی کیمپ قائم کرنے والوں کے حوصلے بلند ہوئے، لوگ بڑھنے سے اسلام آباد انتظامیہ کی نیندیں حرام ہوگئیں، پھر آخری دن بھی احتجاج کرنے والوں کے سر پر کوئی سایہ نہیں تھا، انتظامیہ نے کیمپ واپس کرنے سے انکار کر دیا اور نیا کیمپ لگانے کی اجازت بھی نہین دی، سندھ کی بیٹیاں دہکتے سورج کی کڑکتی دھوپ میں احتجاج جاری رکھے ہوئے تھیں۔۔۔۔ تین دن لگاتار احتجاج کرنے کے بعد رات کو ریلی نکال کر اس احتجاج کے ذریعے پانچ مطالبات رکھے گئے، جو مطالبات مکمل طور پر آئینی اور قانونی ہیں، ملک، آئین، قانون، اصول پالیسیاں، قاعدے سب سر آنکھوں پر، لیکن گمشدگیاں غیر آئینی ہیں، یہ حقیقت چاہے کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا، پاکستان ایک ملک ہے اس کا ایک آئین ہے، ستر سالوں سے جو جھگڑا چل رہا ہے، وہ آئین پر چلنے یا نہ چلنے کا جھگڑا ہے۔

گمشدگیاں غیر آئینی ہیں، لیکن آج کی صورتحال میں گمشدگیوں کو غیر آئینی یا غیر قانونی قرار دینے کے بجائے اس کے خلاف احتجاج کرنے اور آواز بلند کرنے کو غیر آئینی، ملک دشمنی یا لاقانونیت کا نام دیا جا رہا ہے، گمشدگیوں کو روکنے کا آسان طریقہ موجود ہے، لیکن اس سے پہلے کہ اس ملک کو ایک مستقل نظام دینا پڑے گا، روز روز کے نئے تجربے بند کرنے پڑیں گے۔ پراسکیوشن اور عدل کے نظام میں اصلاحات بھی اس صورتحال میں لائی جا سکتی ہیں، جب پالیسیاں بنانے کا اختیار پارلیمینٹ اور ان کے منتخب نمائندوں کو ہوگا، اس کے لئے بھی شرط یہ ہے کہ انداز حکمرانی آصف زرداری اور میاں نواز شریف جیسا نہ ہو بلکہ مکمل جمھوری ہو اور نہ ہی انداز سیاست عمران خان جیسا ہونا چاہیئے۔

سیاستدانوں، حکمرانوں سمیت سارے اداروں کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ایک مضبوط و مستحکم نظام کی جانب قدم بڑھانے کی ضرورت ہے، جہاں اپنے ملک، اس کے اداروں اور حکومتوں کو اپنے شہریوں پر اعتماد ہو، ریاست کا کردار ماں جیسا ہو تو شہری بھی بغاوت نہیں کریں گے، قوانیں موجود ہیں، شہریوں سے پہلے ان پر ادارے عمل کریں، اگر قوانین کمزور ہیں تو ان کی خامیاں ختم کی جا سکتی ہیں۔ جب تک قوانیں کے مطابق گرفتاریاں، قوانین کے مطابق عدالتی پیشیاں، قانون کے مطابق سزائیں نہیں ملیں گی، تب تک ریاست اور شہریوں میں بے یقینی ختم نہیں ہوگی اور اسی اضطرابی کیفیت میں جیتے رہیں گے، گمشدگیوں کا حل بھی ریاست کے پاس ہے، وہ سوچے کہ ایک خاندان کے فرد کو اٹھا کر غائب کرکے وہ اس خاندان کو باغی بنا مسائل کرنا چاہتی ہے یا مروجہ قوانین اور آئین پر عمل کرکے گمشدہ لوگوں کو عدالتوں میں پیش کرکے سزائیں دلا کر یہ اضطرابی کیفیت ختم کرنا چاہتی ہے۔
بشکریہ از پاکستان 24Tv
خبر کا کوڈ : 838869
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش