0
Tuesday 17 Mar 2020 21:49

حکمت الٰہی و اثبات حکمت الٰہی

حکمت الٰہی و اثبات حکمت الٰہی
مقالہ نگار: سیدہ فصیحہ زینب گردیزی

مقدمہ:
 خدا نے اس جہان ہستی کو تمام جہتوں سے نظم و حساب اور مناسب قوانین کی اساس پر قائم کیا۔ افعال خدا تمام جہتوں سے حکمت پر مبنی ہیں۔ پس خدا کی صفات میں سے ایک صفت اس کا حکیم ہونا ہے۔ خدا حکیم ہے یعنی خدا  کا کوئی  فعل عبث انجام نہیں پاتا۔ اس نے ایسے قوانین کی بنیاد رکھی ہے، جو نظام احسن کا مصداق ہیں۔ پس اس کی حکمت کا اندازہ اس کے بنائے گئے نظم و نسق سے کیا جاسکتا ہے، نیز پوری کائنات کا نظام حکمت الٰہی کے تحت چل رہا ہے۔

مفہوم شناسی:
حکمت الٰہی کے لغوی معنی:
لفظ حکمت حکم سے لیا گیا ہے۔ حکمت کا لغوی معنیٰ "دانائی و علم و معرفت"، "عدل و انصاف"، "فلسفہ" و "علت"ہے۔
اصطلاحی معنی:
اصطلاح میں حکمت کے دو معنی ہیں:
اشیاء کے حقائق کو حقیقی معنوں میں پہچاننا۔
کسی کام کو بہتر، مکمل اور ہستی و خلقت کی مصلحت کے مطابق انجام دینا۔
قرآن مجید کی نگاہ میں لفظ حکمت:
قرآن مجید میں لفظ حکمت 20 بار آیا ہے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے: یُّؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا "وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت دی جائے، گویا اسے خیر کثیر دیا گیا ہے۔" آیت مذکورہ کی تفسیر کے بارے میں امام محمد باقرؑ نے فرمایا: حکمت سے مراد "معرفت" ہے۔
احادیث کی روشنی میں لفظ حکمت:
احادیث و روایات میں حکمت سے مراد "اطاعت خدا اور امام کی معرفت و فرمانبرداری اور بعض روایات میں معرفت امام اور گناہوں سے پرہیز کا نام حکمت ہے۔" امام جعفر صادقؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا کا فرمان ہے: "جسے حکمت ملی اسے خیر کثیر ملا اور حکمت کے بنیادی دو نکتے ہیں: 1۔ خدا کی معرفت 2۔ امام کی معرفت۔

حکمت الٰہی:
چونکہ حکمت خداوند کی صفات میں سے ایک صفت شمار ہوتی ہے۔ اس کا دائرہ اور وسعت لامحدود ہے۔ قرآن کی بھی مختلف آیات میں اس کا معنی و مفہوم مختلف ہے۔ البتہ بعض مقامات میں اس سے مراد محکم اور استوار ہونے کے ہیں کہ ایک ایسا کام کہ جس میں نہ کوئی خلل ہو اور نہ ہی کوئی ضرر۔ درج ذیل آیت سے خداوند متعال کی حکمت کو اسطرح بیان کیا جا رہا ہے: الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ "الف لام را، یہ وہ کتاب ہے جس کی آیات مستحکم کی گئی ہیں، پھر ایک باحکمت باخبر ذات کی طرف سے تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔" مذکورہ آیت کے مفہوم سے نزدیک تر جو بحث سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ پہلے لفظ (احکمت) میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ قرآن ایک واحد مجموعہ ہے، جو آپس میں پیوست ہے، ایک محکم و استوار عمارت کی مانند ہے اور اس امر کی نشاندہی  کرتا ہے کہ یہ خدا واحد و یکتا کی طرف سے نازل ہوا ہے، اس بنا پر اس کی آیات میں کسی قسم کا تضاد و اختلاف نظر نہیں آتا ہے۔ نیز دوسرا لفظ (فصلت) اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس کتاب میں باوجود وحدت و اکائی کے بہت سے شعبے اور شاخیں ہیں، جو انسان کی تمام تر جسمانی و روحانی ضروریات کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں، اسی بنا پر وحدت کے باوجود کثیر ہے اور کثرت کے با وصف واحد ہے۔

قرآن مجید کی ایک اور آیت میں حکمت خداوندی اسی معنی میں بیان کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡر "اس نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، تو رحمٰن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا، ذرا پھر پلٹ کر دیکھو، کیا تم کوئی خلل پاتے ہو؟" مذکورہ آیت میں خداوند انسان کو مجموعہ عالم ہستی کے مطالعے کی دعوت دیتا ہے کہ اس پوری کائنات میں ہر چیز اپنے اندر حکمت کو سموے ہوئے ہے۔ اب اگر ہم سات آسمانوں کو منظومہ شمسی کے سات کروں کی طرف اشارہ سمجھیں، جو بغیر کسی آلہ کے دیکھے جا سکتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا سورج کے ساتھ ایک معین فاصلہ ہے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے اوپر ہے۔ لیکن اگر ہم ان ثوابت و سیار و ستاروں کو جنھیں ہم دیکھتے ہیں، پہلے آسمان کا جزو شمار کر لیں تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بالا تر مراحل میں کچھ دوسرے عوالم ہیں کہ جن میں سے ہر ایک دوسرے کے اوپر قرار پاتا ہے۔

اس کے بعد مزید کہتا ہے: "تم خدائے رحمان میں کوئی تضاد اور کسی قسم کا کوئی عیب نہیں دیکھ پاؤ گے۔" عالم ہستی اس ساری عظمت کے باوجود جو کچھ بھی ہے، وہ نظم و نسق، استحکام اور ٹھیک ٹھاک حساب شدہ ترکیبات اور دقیق قوانین ہیں۔ اگر اس عالم کے کسی گوشہ میں بے نظمی واقع ہو جاتی تووہ اسے نابود کر کے رکھ دیتی۔ اس عجیب و غریب نظام سے لے کر جو ایک ایٹم کے ذرہ اور الیکٹرون و پروٹون کے ذرات پر حاکم ہے۔ کل منظومہ شمس اور دوسرے منظوموں اور کہکشاؤں پرحاکم نظامات تک، سب کے سب دقیق قوانین کے زیر تسلط ہیں، جو انہیں ایک خاص راستہ پر چلا رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہر جگہ قانون و حساب ہے۔ کائنات کا نظام محکم و استوار ہے۔ ہر جگہ ایک نظم اور خاص ترتیب ہے۔ یہ مستحکم نظام خدا کے حکیم ہونے پر دلالت کر رہا ہے۔ آیت کے آخر میں مزید تاکید کے لیئے خداوند فرماتا ہے: "پھر نظر دوڑا کر دیکھو اور اس عالم کو غور سے دیکھو، کیا تمھیں اس میں کوئی شگاف یا خلل اور اختلاف نظر نہیں آتا ہے۔؟" مراد یہ ہے کہ انسان عالم آفرینش میں چاہے جتنا بھی غور کرے، اس پر یہ حقیقت آشکار ہوتی چلی جائے گی کہ اس کائنات کا نظام کس قدر مستحکم و استوار ہے، جو کہ کسی مدبر و دانا حکیم کی تدبیر ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالٰی ہے: اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ "بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔" پس خدا حکیم ہے، وہ حکیم ہونے کی وجہ سے ہستی و وجود کے تمام اسرار، ہر کام کے فائدہ و نقصان اور بندوں کی احتیاجات سے باخبر ہے۔

اثبات حکمت الٰہی:
معارف میں ایک وہ چیز جس کی حکیم، متکلم، عوام اور اہل شرائع(سب ہی) تصدیق کرتے ہیں اور واقعی اس میں کسی کے لئے کوئی شبہہ بھی نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ حکیم علی الطلاق، خداوند عالم کی جنبش قلم سے جو بھی ظاہر ہوتی ہے، مثلاً وجود اور اس کے کمالات، وسعت نعمت، رزق و روزی کی تقسیم (وغیرہ) وہ سب بہترین منصوبہ اور خوبصورت ترین نظام کے تحت ہے اور تمام تقاضوں کو پورا کرنے والے جس مکمل اور جامع نظام کا تصور کیا جا سکتا ہے، اس کے عین مطابق ہے۔ حکمت کے معانی میں سے ہے کہ خداوند متعال کے افعال معقول اور منطقی مقصد رکھتے ہیں، جو بھی فعل کسی خاص و معین مقصد کے لئے انجام نہ پائے۔ تمام عقلاء کے نزدیک عبث اور بے ہودہ شمار ہوتا ہے اور بے ہودہ فعل عقلاء کے نزدیک قبیح شمار ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ قبیح کام خدا کے لئے محال ہے۔ حکیم کے تمام افعال حکمت و مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں اور انسانی جزئی و محدود عقول ان مخفی صلاحیتوں کے ادراک سے، جو تقدیرات الٰہی میں جاری ہیں، عاجز ہیں۔

محققین فلاسفہ کے نزدیک خدا کے فعل مطلق کے لئے ذات مقدس حق اور اس کی ذاتی تجلیات کے علاوہ کوئی غرض و غایت نہیں ہے۔ ایجاد اشیاء کے سلسلے میں سوائے اپنی ذات اور اس کی تجلی و ظھور کے علاوہ ممکن نہیں ہے کہ خدا کوئی دوسری غایت رکھتا ہو، اس لئے کہ جو بھی فاعل اپنی ذات کے علاوہ کسی بھی قصد یا غرض کے پیش نظر کسی چیز کو پیدا کرتا ہے، خواہ وہ دوسرے کو منافع و ثواب ہی پہنچانا ہو یا عبادت و معرفت یا حمد و ثنا کے لئے ہو، وہ فاعل اپنی غرض کے ذریعے کمال تک پہنچتا ہے۔ یعنی وہ غرض و غایت جو فاعل کا محرک ہے، وہی باعث بنی ہے، جس کے نتیجے میں فاعل اس غرض و غایت تک پہنچنا چاہ رہا تھا، یہ چیز فاعل میں نقص کی مستلزم ہے اور اس طرح کے اغراض و مقاصد مخلوقات اور (بلقوہ فاعل) میں تو صادق آسکتے ہیں، لیکن خالق کے بارے میں صادق نہیں آ تے۔ اس طرح کے اغراض و مقاصد سے فاعل اپنے کام کے ذریعے اس کمال تک پہنچنا چاہتا ہے، یعنی اس کام کے ذریعے وہ ایسی چیز تک پہنچے، جو اس کے پاس نہیں ہے، اس قسم کا تصور خدا کے لیے محال و ناممکن ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ  جس طرح خدا کی ذات نفی و اعتراض سے مبرا ہے، اس کے افعال بھی اس سے مبرا ہیں اور یہ بات دیگر موجودات میں نہیں ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: لَا یُسۡـَٔلُ عَمَّا یَفۡعَلُ وَ ہُمۡ یُسۡـَٔلُوۡنَ "وہ جو کام کرتا ہے، اس کی پرسش نہیں ہوگی اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں، اس کی ان سے پرسش ہوگی۔" اس آیت سے یہ واضح ہوتا کہ چونکہ ذات خدا بدرجہ اتم جمال و کمال ہے اور نظام کائنات تمام متصورہ نظاموں میں کامل ترین ہے، لہذا مسلم طور پر خداوند حکیم کے افعال پر اعتراض و غرض و غایت کا سوال کوئی معنی نہیں رکھتا اور اگر کسی سے سرزد ہو جائے تو حتمی طور پر وہ ناآگاہی اور جہالت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ لیکن دوسروں کے افعال میں اس قسم کے سوالات کی بہت گنجایش ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں میں امام محمد باقرؑ سے منقول ہے کہ اس آیت کے بارے میں جابر جعفی کے سوال کے جواب میں آپؑ نے فرمایا: لانہ لا یفعل الا ما کان حکمۃ و صواباً "اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کوئی کام انجام نہیں دیتا، مگر یہ کہ اس میں حکمت ہوتی ہے اور وہ بالکل درست اور صحیح ہوتا ہے۔"

پس ثابت ہوا کہ خداوند متعال کے تمام افعال میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ خداوند متعال نے ہر چیز کو کسی غرض و غایت کے تحت خلق کیا ہے۔ پس واضح ہوا کہ خداوند متعال کا کوئی بھی فعل بغیر کسی غرض و غایت کے انجام نہیں پایا ہے۔ ایک صورت میں خلقت کی جو غرض و غایت ہوتی ہے، اس کا تعلق خود فاعل کی ذات سے نہیں بلکہ اس میں فعل کی غرض و غایت ہوتی ہے کہ جس کام کو انجام دیا جا رہا ہے، اس میں کوئی ہدف و مقصد ہے، اس کو کمال کی طرف لے جانا مقصود ہے۔ یعنی کمال تک پہنچنا اس خلق شدہ چیز کا کام  ہے، نہ یہ خود فاعل اپنے فعل کے ذریعے کمال تک پہنچنا چاہتا ہو، اگر ہم اس معنی کو مدنظر رکھیں کہ ہر فعل اپنے وجود کے کمال کی طرف متحرک ہے تو ایسی صورت میں خلقت ایک خاص ٖغرض و غایت کی حامل ہوگی، پس مزید واضح ہوا کہ خداوند متعال کے تمام افعال ٖغرض و غایت کے حامل ہیں۔

خلقت میں حکمت الٰہی:
قرآن کی روشنی میں: جیسا کہ ثابت ہوچکا ہے کہ خداوند متعال کا کوئی بھی فعل بغیر کسی غرض و غایت کے انجام نہیں پاتا۔ خداوند حکیم نے ہر موجود کو کسی نہ کسی حکمت کی بنیاد پر خلق کیا ہے۔ خداوند حکیم کا کتاب حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ لَئِنۡ قُلۡتَ اِنَّکُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡمَوۡتِ لَیَقُوۡلَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ''وہ ایسی ذات ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دنوں میں خلق کیے اور اس کا عرش (قدرت) پانی پر ہے۔ (اور یہ اس لیے پیدا کیا) تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کس کا عمل بہتر ہے اور تم کہو کہ تم موت کے بعد دوبارہ مبعوث ہوگے تو یقیناً کافر کہیں گے کہ یہ کھلا جادو ہے۔" اس آیت میں خداوند متعال نے اس جہان ہستی کی آفرینش خصوصاً آغاز آفرینش کہ جو پروردگار  کی قدرت کی نشانی ہے اور اس کی عظمت کی دلیل ہے، "وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے آسمان اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔"

اگرچہ خدا قدرت رکھتا تھا کہ تمام عالم کو ایک ہی لحظہ میں پیدا کرے، لیکن متواتر اور پے درپے چھ ادوار میں اس لیے پیدا کیا ہے کہ یہ تدریجی خلقت جو ہر وقت رنگ نو اور چہرہ تازہ دکھاتی ہے، قدرت و عظمت خداوندی کو بیشتر اور بہتر انداز میں متعارف کرواتی ہے۔ خدا چاہتا تھا کہ اپنی قدرت کو ہزاروں رخ میں نمایاں کرے، ایک ہی رخ میں نہیں، نیز اپنی حکمت کو بھی ہزاروں پیرہن میں دیکھے نہ صرف ایک لباس میں، تاکہ اس کی ذات مقدس اور قدرت و حکمت کی پہچان آسان تر و واضح تر ہو اور اس کی معرفت کے دلائل ماہ و سال صدیوں اور زمانوں کی تعداد کے برابر ہمارے پاس موجود ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ خداوند متعال نے زمین و آسمان کو خاص مقصد کے تحت خلق کیا ہے۔ مذکورہ آیت جہان ہستی اور عالم وجود کی خلقت کے ہدف و مقصد کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ  اس آیت میں اس جہان ہستی اور عالم وجود کی خلقت کا ہدف کہ جس کا اہم ترین حصہ اس جہان کا گل سر سبد یعنی "انسان" ہے۔ وہ انسان کہ جس کی خلقت کا خاص مقصد ہے اور "یہ عالم اور باعظمت خلقت اس لئے معرض وجود میں آئی، تاکہ تمہاری آزمائش کرے اور دیکھے کہ تم میں سے کون اعمال حسنہ انجام دیتا ہے۔" پس خلقت عالم کا مقصد انسانوں کا تکامل و ارتقاء ہے۔

اس طرح ایک اور آیت میں خلقت عالم کی حکمت کو خداوند متعال بیان کرتا ہے: "وَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مِّنۡہ" اس آیت میں خداوند متعال انسان کے احساسات کو جھنجھوڑتے ہوئے کہتا ہے "خدا ہی تو ہے کہ جس نے دریا کو تمہارے لئے مسخرکر دیا ہے، تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور اس کے فضل سے تم اپنا حصہ حاصل کرو۔ شاید کہ اس کی نعمتوں کا شکر بجا لاؤ۔" اس نے تمہیں کس قدر حیثیت، قدر و قیمت اور عظمت عطا فرمائی ہے کہ کائنات کی تمام چیزیں تمہارے لئے مسخر کر دی گئی اور تمہارے مفادات کی نگرانی کر رہی ہیں۔ آفتاب، ماہتاب، پہاڑ اور باران وغیرہ۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ اس عالم کی خلقت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو اور خدا کا شکر بجا لائے، نیز خدا کی شناخت حاصل کرنے اور ساتھ ساتھ اپنے ہدف تک پہنچنے میں اس جہان کی پیچیدہ خلقت مدگار ثابت ہوتی ہے۔ خداوند متعال کے فضل سے بہرہ برداری کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان کے احساس شکر گزاری کو متحرک کیا جا سکے اور اس کے تمام احساسات کو ایک جگہ مرکوز کیا جاسکے، تاکہ اس طرح سے انسان معرفت خدا کی راہوں کو طے کرسکے۔

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً ۪ وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّکُمۡ ۚ فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا وَّ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ "جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس سے تمہاری غذا کے لیے پھل پیدا کیے، پس تم جانتے بوجھتے ہوئے کسی کو اللہ کا مدمقابل نہ بناؤ۔" عیون الاخبار میں امام زین العابدین سے منقول ہے: "جس نے زمین کو تمہاری طبیعتوں کے مطابق اور تمہارے اجسام کی ضروریات کے موافق پیدا کیا ہے۔ خدا نے زمین کو سخت گرم نہیں بنایا، ورنہ وہ تمہیں جلا دیتی اور زمین کو سخت ٹھنڈا نہیں بنایا، ورنہ وہ تمہیں منجمد کر دیتی اور زمین کو زیادہ خوشبو دار نہیں بنایا، ورنہ وہ تمہارے سر میں درد پیدا کر دیتی اور زمین کو بدبو دار نہیں بنایا، ورنہ وہ تم کو ہلاک کر دیتی۔ زمین کو پانی کی طرح سے زیادہ نرم نہیں بنایا، ورنہ وہ تمہیں غرق کر دیتی اور اسے زیادہ سخت نہیں بنایا، ورنہ اس پر تمہارے گھر اور مکانات نہ بنتے اور اس میں تمہاری قبریں نہ بنتیں۔ خداوند نے اپنی حکمت سے اسے اتنا ہی ٹھوس بنایا ہے کہ اس پر تمہارے گھر تعمیر ہوسکیں اور اس میں تمہاری قبریں کھودی جا سکیں۔ اس کے علاوہ اس میں بہت سے فوائد ہیں، اسی لئے خداوند نے فرمایا کہ میں نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا ہے اور آسمان کو تمہارے لئے چھت بنایا ہے۔ آسمان تمہارے اوپر ایک محفوظ چھت ہے اور تمہارے  فائدے کے لئے خدا نے سورج، چاند اور ستاروں کو گردش دی ہے۔

"وَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَاء" (اور خدا نے آسمان سے پانی اتارا) یعنی خدا نے بارش نازل کی۔ خدا اوپر سے بارش برساتا ہے، تاکہ اس کا پانی پہاڑوں کی چوٹیوں اور بلند و بالا ٹیلوں اور پست وادیوں تک بھی پہنچ جائے۔ خدا بارش کو قطرات کی شکل میں نازل کرتا ہے، تاکہ وہ آسانی سے زمین میں جزب ہوسکے۔ خداوند نے بارش کو یکدم اور اکٹھا کرکے نازل نہیں کرتا، ورنہ کھیت تباہ ہو جاتے اور پھل پھول اور درخت ختم ہو جاتے۔ پھر خدا نے بارش کو ذریعہ رزق بنایا اور اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی ملتی ہے اور اس سے انسانوں  اور جانوروں کی غذا پیدا ہوتی ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ خداوند کی ہر مخلوق کی حکمت اس کی ذات میں پوشیدہ ایک مقصد ہے، پس خدا کے ہر فعل کا مقصد و ہدف ہے۔

روایات کی روشنی میں:
امام جعفر صادق ؑ مفضل کے سامنے اس کائنات کی موجودات کی حقیقتوں نیز اسرار و رموز کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔ امامؑ آسمان کی خلقت میں چھپی حکمتوں کی کچھ اس طرح سے وضاحت کرتے ہیں: "سماء کے رنگ کو دیکھو! اس میں کیا بہترین تدبیر ہے؟ کیونکہ یہ رنگ نظر کے لئے تمام رنگوں کی بہ نسبت زیادہ مناسب اور مقوی ہے۔ یہاں تک کہ اطباء بھی اس شخص کے لئے جس کی آنکھ میں کوئی بیماری ہوگئی ہو، سبزی کے برابر دیکھنا کہ جو قریب قریب مائل بہ سیاہی ہو تجویز کرتے ہیں۔ دیکھو! خدا جل و جلالہ و تعالٰی نے آسمان کا رنگ سبز کیونکر رکھا، جو مائل بہ سیاہی ہے، تاکہ ان نگاہوں کو رد کرے، جو اس پر بار بار  پڑتی ہیں اور دیر تک دیکھنے سے ان میں خرابی (یا کوئی خراش) نہ ڈالے۔ اسی طرح سے امامؑ نے اپنے صحابی کو  رات اور      دن کے قائم کرنے کے لئے آفتاب کے طلوع اور غروب کرنے کی بابت پر غور کرنے کو کہا۔

امام فرماتے ہیں: "اگر سورج طلوع نہ ہوتا تو تمام عالم کا کام بھی تباہ و برباد ہو جاتا، نہ تو لوگ اپنے معاش کی کوشش کرسکتے اور نہ دوسرے کام کرسکتے تھے، جبکہ تمام دنیا ان کی نگاہ میں تیرہ تاریک ہوتی اور روشنی کی لذت نہ پانے کی وجہ سے ان کی زندگی با مزہ اور خوشگوار نہ ہوتی۔ اس کے طلوع کے اغراض تو خیر اس قدر واضح ہیں کہ اس کے بیان میں طول دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اس کے غروب کے فوائد پر غور کرو۔ پس اگر وہ غروب نہ ہوتا تو آدمیوں کو آرام و قرار ہی نہ ملتا، باوجود اس  کے ان کو اپنے بدن کو راحت پہنچانے اور اپنے حواس کو مجتمع کرنے اور ہضم طعام کے لئے قوت ہاضمہ کو  ابھارنے اور غذا کو اعضاء کے اندر اثر و نفوذ کرانے کے لئے بڑی سخت ضرورت سکون و آرام لینے کی ہے۔ اس طرح ان کا حرص ان سے اس برابر کام لیتا کہ جسم میں سخت خرابی پیدا ہوتی، کیونکہ اکثر آدمی اس قسم کے ہیں کہ اگر یہ رات ان پر اپنی تاریکی نہ ڈالے تو کسب معاش اور جمع مال اور خزانہ کرنے کی حرص کی وجہ سے بالکل آرام و قرار ہی نہ لیں۔ لہذا اس کے لئے خدا نے اپنی حکمت و تدبیر سے یہ مقدر کر دیا کہ ایک وقت غروب کرے اور ایک وقت طلوع کرے، تاکہ برابر آفتاب کے روشن رہنے سے تمام زمین تپتی نہ رہے اور جو حیوانات یا نباتات اس پر ہیں، وہ بھی ہر وقت جلتے نہ رہیں۔

امام علیؑ تخلیق خداوند کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: "اس نے چیزیں پیدا کیں ہیں، ان کا ایک اندازہ رکھا، مضبوط و مستحکم اور ان کا  انتظام کیا۔ خدا سبحانہ کے زور فرمانروائی اور عجیب و غریب صنعت کی لطیف نقش آرائی ایک یہ ہے کہ اس نے پہاڑوں کو پست اور زمین کو بلند کیا اور ان کی بنیادوں کو ان کے پھیلاؤ اور ان کی ٹھراؤ کی جگہوں میں زمین کے اندر اتار دیا، ان کی چوٹیوں کو فلک بوس اور بلندیوں کو آسمان پیما بنا دیا اور انہیں زمین کے لئے ستون قرار دیا، جس نے پانی کی طغیانوں کے بعد زمین کو تھام رکھا اور اس کے اطراف و جوانب کو  تر ہونے کے بعد خشک کیا اور اسے اپنی مخلوقات کے لئے گہوارہ (استراحت) بنایا اور ایک ایسے گہرے دریا کی سطح پر اس کے لئے فرش بچھایا، جو تھما ہوا ہے، بہتا نہیں ہے اور رکا ہوا ہے، جنبش نہیں کرتا، جس نے آسمان کو محفوظ چھت اور بلند عمارت کی صورت میں اس طرح  قائم کیا کہ نہ ستونوں کے سہارے کی حاجت تھی، نہ بندھنوں سے جوڑنے کی ضرورت۔

اس نے فلک کے سورج کو دن کی روشن نشانی اور چاند کو رات کی دھندلی نشانی قرار دیا ہے اور انہیں ان کی منزلوں پر چلایا ہے اور ان کی گزرگاہوں میں ان کی رفتار  مقرر کر دی ہے، تاکہ ان کے ذریعے سے شب و روز کی تمیز ہوسکے اور انہی کے اعتبار سے برسوں کی گنتی اور دوسرے حساب جانے جا سکیں۔ ابو طفیل نے امام محمد باقرؑ سے نقل کیا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: خدا نے عرش کو چوکور بنایا ہے، عرش سے پہلے تین چیزیں ہوا، قلم اور نور کو پیدا کیا ہے، پھر اسکو مختلف انوار سے خلق کیا، پھر اس نور سے ایک سبز نور ہے، جس سے سبزی سرسبز ہوئی اور ایک زرد نور ہے، جس سے زردی سنیری بنی اور ایک سفید نور ہے اور وہی تمام انوار کا نور ہے اور اسی سے دن کی روشنی ہے۔ پھر اس کے ستر ہزار طبق بنائے۔ ان میں سے کوئی  ایسا طبق نہیں، جو اپنے پرودگار کی حمد و تقدیس مختلف آوازوں غیر مشتبہ زبانوں میں نہ کرتا ہو، اگر ان کی زبان کو اجازت دی جائے، پھر اس کے نیچے جو اشیاء ہیں، اس میں سے کچھ سن لیں تو وہ پہاڑوں اور قلعوں کو ڈھا دیں اور سمندر پھٹ جائیں  اور ان کے علاوہ اشیاء ہلاک ہو جائیں۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ خداوند  متعال نے بہترین مصنوعات کو بہترین طریقہ سے ایجاد کیا، پس خدا وہ ذات ہے کہ جس نے مخلوقات کو ایجاد کیا کہ جس کی پیدا کردہ چیزوں میں اس کی صنعت کے نقش و نگار اور حکمت کے آثار نمایاں اور واضح ہیں۔ چاہے وہ مخلوق خاموش ہو، مگر خدا کی تدبیر و کار سازی کی ایک بولتی ہوئی دلیل ہے اور ہستی صانع کی طرف اس کی رہنمائی ثابت و برقرار ہے۔ حضرت امام جعفر صادقؑ سے ایک بار پوچھا گیا کہ خداوند نے مخلوقات کو کس لئے پیدا کیا؟ تو  آپؑ نے فرمایا: خدا نے اپنی مخلوقات کو عبث پیدا نہیں کیا اور نہ انہیں ویسے ہی چھوڑ دیا، بلکہ اپنی قدرت کے اظہار کے لئے پیدا کیا، نیز اس لئے پیدا کیا کہ یہ سب خدا کی اطاعت کرکے خدا کی رضا و خوشنودی کے مستحق بن جائیں۔ خدا نے اپنی منفعت حاصل کرنے یا ان کے ذریعے (اپنے سے) کسی مضرت کو دور کرنے کے لئے نہیں بنایا بلکہ اس لئے کہ وہ ان لوگوں کو نفع پہنچائیں اور انہیں ابدی نعمتوں تک پہنچا دے۔

خلقت انسان میں حکمت الٰہی:
جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ خدا کی تمام خلق کردہ چیزوں میں حکمت پوشیدہ ہے، خدا کوئی عبث فعل انجام نہیں دیتا۔ اس کا ہر کام برحق ہے، اس کا فعل باطل یا کھیل نہیں ہے تو پس خدا کا انسان کی تخلیق میں کیا ہدف پیش نظر تھا؟ یہ مسئلہ کہ خلقت انسان کی غرض و غایت کیا ہے؟ چونکہ حکمت کا معنی بھی یہی ہے کہ کسی کام میں غرض و غایت کا ہونا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم حکمت کہہ لیں یا غرض و غایت۔ پس ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ خود قرآن نے جزوی طور پر مشخص عنوان سے انسان کی تخلیق کے ہدف و مقصد کے بارے میں کوئی وضاحت پیش کی ہے؟ کیا کہیں اس نے کہا ہے کہ انسان کس لئے خلق کیا ہے۔؟ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالٰی ہے: وَما خَلقتُ الجنَّ والانسَ الاّ لِیعبُدُون "اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا، مگر اس لئے کہ وہ ہماری عبادت کریں"

 بلا شک و شبہ ہر دانش مند اور عاقل جو بھی کوئی کام انجام دیتا ہے، کوئی نہ کوئی مقصد اس کے پیش نظر ہوتا ہے اور چونکہ خدا سب سے زیادہ حکیم اور عالم ہے، بلکہ کسی شخص کے ساتھ اس کا قیاس کیا ہی نہیں جا سکتا تو انسان کی زندگی کا سب سے اہم سوال کہ وہ کیوں پیدا کیا گیا؟ اس کی خلقت کا کیا  مقصد ہے؟ خدا نے انسان کے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف خدا کی عبادت ہے۔ کتاب علل اشرائع میں ہے کہ حضرت امام حسینؑ اپنے ساتھیوں کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "اے لوگو! خدا نے اپنے قرآن میں فرمایا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ اس کو جانیں، پس جب تم اسے پہچان لو تو اس کی عبادت کرو۔ جب صرف اس کی عبادت کرنے لگو تو اس کے غیر کی عبادت سے بے نیاز  ہو جاؤ۔" حدیث میں آیا ہے کہ لِیَعبُدُونَ سے مراد  لِیَعرِفُونَ ہے۔ حدیث کے مطابق آیت کا مطلب یہ بنتا ہے "اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا  مگر یہ کہ وہ میری معرفت حاصل کریں۔"

عبادت معرفت کے بعد ممکن ہے۔ خدا کے کمال و جمال کی معرفت کے بعد کمال کے سامنے جھکنا کمال ہے۔ لہذا عبد کا کمال و ارتقاء یہ ہے کہ وہ کمال کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کرے۔ لہذا خلقت انسانی کی غرض اسی صاحب کمال کی بندگی کرنے سے پوری ہوتی ہے، نہ کسی اور کی بندگی کرنے سے۔ بعض آیات میں قرآن آخرت کو ایک طفیلی امر قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر قیامت نہ ہوتی تو خلقت ہی عبث ہوتی، یعنی اسے منزلہ غرض و غایت قرار دیا ہے اور اس منطق کی قرآن نے تکرار کی ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ "کیا تم نے یہ سمجھ لیا کہ ہم نے تم کو بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹ کر نہیں آؤ گے۔" عبث اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس میں کوئی حقیقی غرض نہ ہو، یہ حکمت کے مقابل ہے، یعنی تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہاری خلقت میں کوئی حکمت نہیں؟ یعنی کوئی حکیمانہ غرض نہیں ہے، پس تمہاری خلقت فضول اور بے فائدہ ہے؟  اور عطف کے ذریعے یہ بیان کرنا "وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ" کیا تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے۔"

اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر خدا کی طرف لوٹ کر نہ جانا ہوتا تو خلقت عبث و فضول ہوتی! پس ایک دن پرودگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور درحقیقت یہ قیامت اور خدا  کی طرف لوٹ کر جانا ہی سبب ہے، جس کے باعث یہ عالم خلق ہوا اور قرآن کی تعبیر بھی اسی بنیاد پر ہے۔ امام علیؑ نے اپنے فرزند امام حسینؑ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: "تم آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ہو نہ کہ دنیا کے لئے، موت کے لئے خلق کئے گئے ہو کہ نہ حیات کے لئے۔ تم ایک ایسی منزل میں ہو، جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور ایک ایسے گھر میں ہو کہ جو آخرت کا ساز و سامان مہیا کرنے کے لئے اور صرف منزل  آخرت کی گزرگاہ ہے۔" خلاصہ بحث یہ ہے کہ خلقت بشر کا ہدف اصلی عبادت ہے، جس تک پہنچنے کے لئے خدا نے آزمائش کا میدان فراہم کیا ہے اور انسان کو علم و آگاہی عطا فرمائی ہے۔ جناب حبیب سجستانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام محمد باقرؑ سے سنا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: خدا نے حضرت آدم ؑسے فرمایا: "اے! آدمؑ دیکھو  کہ تم کیا دیکھتے ہو" حضرت آدمؑ نے اپنی ذریت کو دیکھا جو چونٹیوں کی مانند نظر آرہی تھی تو آپؑ نے دیکھا کہ سارا آسمان پر ہوچکا ہے تو حضرت آدمؑ  عرض کیا: "اے خدایا! میری ذریت کس قدر زیادہ ہے، ان کو تو نے کس لئے پیدا  فرمایا ہے ۔؟"

خداوند متعال نے فرمایا: "ان کو خلق کیا تاکہ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک قرار نہ دیں، میرے انبیاءؑ پر ایمان لائیں اور ان کی پیروی کریں۔" آدمؑ نے عرض کیا: "اے خدایا کیا وجہ ہے کہ ان میں سے بعض بعض سے بڑے اور بعض کا نور بعض سے زیادہ ہے اور بعض کا کم ہے اور بعض اس قدر بے نور ہیں۔" خداوند نے فرمایا: "میں نے ان کو اس انداز میں خلق کیا ہے، تاکہ میں ان کا تمام حالات میں امتحان لے سکوں۔" آدمؑ نے فرمایا: "اے کاش ان سب کو ایک جیسا خلق کیا جاتا اور سب کی طبیعت ایک اور خلقت ایک ہوتی اور ان کا رنگ و عمر ایک جیسی ہوتی اور رزق کے حساب سے بھی برابر ہوتے، تاکہ بعض پر ظلم و ستم نہ کریں، حسد و کینہ ان میں نہ ہوتا اور ان کے درمیان اختلاف پیدا نہ ہوتے۔" خدا نے فرمایا: "اے آدمؑ! علم میں دانش  رکھنے والا خالق میں ہوں۔ میں نے اپنے علم و حکمت کے تحت ایک دوسرے کو مخالف خلق کیا ہے اور ان کے درمیان جو میرا فرمان جاری ہوگا، وہ میری مشیت کے تحت جاری ہوگا اور میری تدبیر و تقدیر کی طرف رجوع ہوگا۔ پس خلقت میں تبدیلی نہیں آئے گی۔"

مزید فرمایا: اے آدمؑ ! میں نے تجھے اور تیری ذریت کو خلق اس لئے نہیں کیا کہ میں تمہارا محتاج ہوں بلکہ میں نے تجھے اور تیری ذریت کو اس لئے خلق کیا ہے، تاکہ تمہاری آزمائش کروں۔" پس واضح ہوا کہ انسان اس لئے خلق ہوا  ہے کہ خدا کی عبادت کرسکے اور خدا کی عبادت بذات خود ایک ہدف ہے۔ اسی طرح سے انسان کے وجود پر نگاہ کریں اور اس کے بدن کے مختلف کارخانوں میں سے ہر ایک کو مدنظر رکھیں تو اس میں سے ہر ایک کسی نہ کسی مقصد کے لئے خلق ہوا ہے، نیز اعضاء کے درمیان اس طرح مربوط نظام اور ہم آہنگی عطا کی گئی ہے کہ وہ سب بغیر استثناء کے یا تو ایک دوسرے پر  مؤثر ہوتے ہیں اور یا ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں، نیز انسان خداوند حکیم کی خلقت میں حکیمانہ ہدف اور حق پر مبنی مصلحتوں سے آشنا ہو جائے گا۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے: لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیم "اور ہم نے انسانوں کو خوب صورت اور بہترین انداز میں خلق کیا ہے۔"

نتیجہ:
خدا کی حکمت اس کے علم کی ہی ایک شاخ ہے، نیز افعال خدا تمام جہات میں حکمت خدا پر مبنی ہیں۔ کائنات کے ذرے ذرے سے حکمت خدا جھلکتی ہے اور اس کے ساتھ قرآن و احادیث بھی خدا کی حکمت کے تذکرے سے پر نظر  آتے ہیں۔ خداوند عالم نے تمام مخلوقات حتٰی اشرف المخلوقات انسان کو بھی حکمت کے ساتھ خلق فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ خدا کے حکیم ہونے کا نظریہ انسان میں کئی آثار اور انعکاسات رکھتا ہے۔ حکمت خدا کا نظریہ انسان کی علمی پیشرفت اور موجودات  جہان کے اسرار سے آگاہی میں گہرا اثر رکھتا ہے۔ یہ انسانی علم و دانش میں گہرائی اور سرعت کا موجب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 فہرست منابع:
1۔ قرآن مجید
2۔ نہج البلاغہ
3۔ الخبیر الشیخ عبد علی الحویزی،(مترجم: الطاف حسین کلاچی)، (نظرثانی: علامہ ریاض حسین جعفری):تفسیر نور ثقلین، پاکستان۔ لاہور، ادارہ منہاج الصالحین، چ؛ (نا معلوم)، مارچ2012ء
4۔ امام خمینی: عدل الٰہی امام خمینی کی نگاہ میں، پاکستان۔لاہور، معراج کمپنی، چ؛ (نا معلوم)، اکتوبر2013ء
5۔ سید حسین شیخ الاسلامی، (مترجم: علامہ نثار احمد زین پوری): اقوال امام علیؑ، پاکستان۔ لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ، چ؛ (نا معلوم)، 2014ء
6۔ شہید استاد مرتضیٰ مطہری، (مترجم: کوثر عباس حیدری): ہدف زندگی، پاکستان۔ لاہور، شہید مطہری فاؤنڈیشن، چ؛ (نا معلوم)، بیتا
7۔ شیخ الصدوق، (محقق: علی اکبر غفاری)، (مترجم: عطا محمد عابدی): التوحید، چ:4، جون 2015ء
8۔ شیخ الصدوق، (مترجم: سید حسین امداد (ممتاز الافاضل): علل اشرائع، چ:14، 2015ء
9۔ شیخ محمد یعقوب کلینی، (مترجم: مولانا سید منیر حسین رضوی): الشافی، پاکستان۔ کراچی، زہراء اکادمی، چ؛(نا معلوم)، بیتا
10۔ محسن علی نجفی: الکوثر فی تفسیر القرآن، پاکستان۔ لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ، چ:۱، محرم ۱۴۳۶ھ
11۔ محمدی ری شہری، (مترجم:مولانا محمد علی فاضل): میزان الحکمت، پاکستان۔ لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ، چ3، دسمبر2012ء
12۔ مفضل بن عمر، (مترجم: مولانا محمد ہارون زنگی پوری): توحید مفضل، پاکستان۔ اسلام آباد، محمد علی بک ایجنسی، چ:4، نومبر2010ء
13۔ ناصر مکارم شیرازی، (مترجم: حضرت مولانا سید صفدر حسین نجفی): تفسیر نمونہ، پاکستان۔ لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ، چ؛ (نا معلوم)، فروری 2012ء
14۔ وحید الزمان قاسمی کیرانوی: القاموس الوحید، لاہور۔ کراچی، ادارہ اسلامیات، چ:1، ربیع الاول۱۴۲۲ھ
15۔ .
islamquest.net/fa/archive/question/fa80533#,d:6feb.2020,t:9:16
خبر کا کوڈ : 851180
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش