0
Thursday 19 Mar 2020 18:18

مولانا ناصر مدنی پر تشدد اور مسلکی پراکسی وار

مولانا ناصر مدنی پر تشدد اور مسلکی پراکسی وار
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

مشال خان تو آپ کو یاد ہوگا، سانحہ ساہیوال بھی کوئی پرانی بات نہیں، ذہنی معذور صلاح الدین پر تشدد کسے بھول سکتا ہے، اسلام آباد ائیر پورٹ پر خواتین پر تشدد اور خواتین کی چیخیں آج بھی ہر غیرت مند پاکستان کے دل و دماغ میں گونج رہی ہیں،  آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارا معاشرہ شدت پسند ٹولوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ یہاں شدت پسندی اور تشدد کو ملکی اداروں، وڈیروں، نوابوں، زرداریوں، چودھریوں اور سرداروں کی سرپرستی حاصل ہے، لہذا ایسے میں مولانا ناصر مدنی جیسے شخص پر تشدد کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ میرے مطابق مولانا ناصر مدنی پر تشدد ہونا چاہیئے تھا اور ضرور ہونا چاہیئے تھا، چونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ حق بات کریں اور آپ کی زبان نہ کھینچی جائے اور آپ کی گردن نہ کاٹی جائے۔ حق بات کہنے پر سولی پر لٹکا دینا، کشتوں کے پشتے لگا دینا، زندانوں میں ڈال دینا اور اغوا کر لینا یہ حق، اصلاح اور سچائی کی ازلی تاریخ ہے۔ جب آپ حقائق بیان کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا سر کٹوانے اور اپنی زبان کھنچوانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جناب میثم تمار ؓ کو سولی پر لٹکا کر ان کی زبان گُدی سے کیوں کھینچی گئی؟ حجر ابن عدی کا کیا جرم تھا؟ حضرت ابوزرؓ کا کیا مسئلہ تھا۔؟

واضح رہے کہ مولانا ناصر مدنی میرے ہم مسلک نہیں ہیں اور نہ ہی میرا ان کے فرقے سے کوئی تعلق ہے، لیکن میرے نزدیک حق گوئی، بیباکی، جرات اور سچائی خود ایک مسلک اور فرقہ ہے۔ میں سچائی، اصلاح طلبی اور حق گوئی میں ان کا ہم مسلک ہوں۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ، ہماری کم علمی کا نتیجہ اور عدم تحقیق کا ثمر ہے کہ ہم سارے مسائل کو فرقوں کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے مکار دشمنوں نے جو باتیں ہمارے دماغوں میں ڈال دی ہیں، ان کی وجہ سے ہم لکیر کے فقیر بن کر انہی کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں، حتی کہ ملکی اور بین الاقوامی مسائل کو بھی سعودی اور ایرانی پراکسی وار ہی سمجھتے ہیں۔ ہمیں کہیں پر بھی حق اور باطل  نیز اسلام اور کفر کی پراکسی وار نظر نہیں آتی۔ ہم نے کرونا وائرس کو بھی مسلکی پراکسی وار میں تبدیل کر لیا ہے، مولانا ناصر مدنی نے کرونا وائرس کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں ایک خوبصورت سوال اٹھایا تھا، ان کا کہنا تھا کہ پھونکوں والی سرکار کو چاہیئے کہ چین میں جا کر کرونا وائرس کے مریضوں کو پھونکیں ماریں۔ یہ ایک معقول اور منطقی بات ہے اور اس کا جواب استدلالی طریقے سے دیا جانا چاہیئے تھا۔ خیر اب تو پھونکیں مارنے کیلئے چین جانے کی بھی ضرورت نہیں، خود پاکستان میں کرونا وائرس پہنچ چکا ہے، لہذا پھونکیں مارنے والے حضرات کو خدمت کا موقع دیا جانا چاہیئے۔

اب یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں خود قرآن و سنت کے مطابق دعاوں اور سورتوں کے خواص، دعاوں کے دم کرنے، نیز بزرگانِ دین اور اولیائے کرام کا معتقد ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سلسلے میں مجھے بالکل گونگا، بہرہ اور اندھا بن جانا چاہیئے۔ مجھے قرآنی و اسلامی طریقہ علاج اور ڈرامہ بازی و فراڈ نیز شعبدہ بازی میں فرق کو سمجھنا چاہیئے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شفا کی تاثیر رکھی ہے، اسی طرح اس نے جڑی بوٹیوں اور میڈیکل ادویات میں بھی شفا رکھی ہے۔ اگر صرف قرآن مجید کی آیات سے ہی امراض ختم ہو جائیں تو پھر جڑی بوٹیوں کی خلقت اور میڈیکل سائنس کی حکمت کب کام آئے گی! وہ قرآن مجید کی آیات ہوں، جڑی بوٹیاں ہوں یا میڈیکل سائنس، ان میں شفا رکھنے والا خالق کائنات ہے۔ اگر کوئی مستند عالم اور جاننے والا قرآن مجید، جڑی بوٹیوں یا میڈیکل سائنس سے علاج کرے تو یقیناً اس کی تاثیر مسلمہ ہے۔ لیکن اگر علاج کرنے والا اناڑی اور ڈرامہ باز ہو تو وہ پیسے تو بٹور سکتا ہے لیکن علاج نہیں کرسکتا۔

 جس طرح مولانا ناصر مدنی کی ایک معقول بات کو  مسلکی پراکسی وار میں تبدیل کیا گیا، اسی طرح بعض جیالوں نے حسبِ عادت کرونا وائرس کے حوالے سے ایران اور سعودی عرب کے حفاظتی اقدامات کو بھی مسلکی بغض نکالنے کا بہانہ بنا لیا ہے۔ حالانکہ انسانی ہلاکتوں کے بچاو  کیلئے مقامات مقدسہ کو اینٹی وائرس ادویات سے دھونا، ان مقامات کو عارضی طور پر بند کرنا اور زائرین سے معذرت کرنا یہ سب دین، شرع اور عقل و منطق کے عین مطابق ہیں۔ بعض تو اس وقت مسلکی مغالطوں میں مصروف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر اولیائے کرام کسی کو شفا دیتے ہیں تو پھر ان کے مزارات کیوں بند کر دیئے گئے ہیں؟ ایسے مغالطہ گروں سے یہ پوچھا جانا چاہیئے کہ خدا تو شفا دیتا ہی ہے، پھر اس کا گھر خانہ کعبہ کیوں بند کیا گیا ہے!؟ بہرحال ہمارے ہاں کے عقب ماندہ لوگ ہر ایشو کو مسلکی رنگ میں دیکھتے ہیں، اس کے لئے جھوٹ بھی بولتے ہیں، جھوٹی پوسٹیں بھی گھڑتے ہیں،  مسلکی اختلافات کو بھی ہوا دیتے ہیں اور حسبِ ضرورت مخالفین کو تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ عقل و منطق کا یہ تقاضا ہے کہ ہمیں مسلکی تابوتوں سے نکل کر مولانا ناصر مدنی پر ہونے والے تشدد کی مذمت کرنی چاہیئے اور کرونا وائرس کے بہانے سے مسلکی منافرت  پھیلانے والوں کا راستہ روکنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 851360
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش