1
Tuesday 24 Mar 2020 20:53

کرونا وائرس، امریکہ مورد الزام کیوں؟

کرونا وائرس، امریکہ مورد الزام کیوں؟
تحریر: محسن پاک آئین

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں عید مبعث کی مناسبت سے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی جانب سے ایران کو ڈاکٹرز اور ادویہ جات مہیا کرنے کی پیشکش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "آپ مورد الزام ہیں اور آپ پر الزام ہے کہ یہ وائرس آپ کا ایجاد کردہ ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ الزام کس قدر حقیقت پر مبنی ہے لیکن ایسے میں کوئی عقل مند انسان آپ پر اعتماد نہیں کر سکتا۔ اگر یہ الزام حقیقت پر مبنی ہو تو عین ممکن ہے آپ ایسی ادویہ جات ہمیں بھیجیں جن سے وائرس کا اثر ہمیشہ کیلئے باقی رہ جائے یا ایسے افراد کو ڈاکٹرز کے روپ میں ایران بھیجیں جو کرونا وائرس کے اثرات سے متعلق رپورٹس اور معلومات آپ کو فراہم کرتے رہیں۔" آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے ان وضاحت آمیز اور چونکا دینے والے بیانات سے حیاتیاتی جنگ کے موضوع اور حیاتیاتی ہتھیار تیار کرنے سے متعلق امریکہ کے ماضی پر توجہ دینے کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔ اس میدان میں امریکی سرگرمیوں کا مقصد دنیا بھر میں اپنے استعماری اہداف کا حصول ہے۔

روایتی جنگوں میں دشمن کو کمزور کرنے کیلئے حیاتیاتی ہتھیاروں جیسے بیکٹیریاز، وائرسز یا مشرومز کا استعمال حیاتیاتی جنگ کہلاتا ہے۔ تاریخ میں اس قسم کے ہتھیاروں کو بروئے کار لایا جا چکا ہے اور موجودہ شواہد کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ چنگیز خان کے دور اور پہلی عالمی جنگ کے دوران حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ 1925ء میں حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر بین الاقوامی سطح پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس بارے میں جنیوا میں پوری دنیا کے ممالک نے ایک پروٹوکول پر دستخط بھی کئے تھے۔ امریکہ نے پہلی بار حیاتیاتی ہتھیاروں کا پروگرام 1943ء میں شروع کیا جو 1969ء تک جاری رہا۔ 1969ء میں امریکی صدر رچرڈ نیکسن نے عالمی برادری کے دباو پر یہ پروگرام روک دیا تھا۔ 1972ء میں دنیا کے ممالک نے حیاتیاتی ہتھیار کی عدم ساخت، ترقی اور پھیلاو پر مبنی کنونشن پر بھی دستخط کر دیے۔ اسی طرح 2011ء میں دنیا کے 165 ممالک نے عہد کیا کہ حیاتیاتی ہتھیاروں کو اپنی دفاعی پالیسی سے خارج کر دیں گے۔ عالمی سطح پر موجود رکاوٹوں کے باوجود آج بھی دنیا میں تقریباً 17 ممالک ایسے ہیں جو حیاتیاتی ہتھیاروں کی ساخت اور پھیلاو پر کام کر رہے ہیں۔

نائن الیون کے واقعے نے امریکہ کو حیاتیاتی ہتھیاروں کے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کا بہانہ فراہم کر دیا۔ 11 ستمبر 2001ء کے بعد جرج بش کی حکومت نے اپنے بقول بائیوٹیروریزم خطرات سے مقابلہ کرنے کیلئے کئی تحقیقاتی مراکز قائم کئے اور ان کیلئے وسیع بجٹ مخصوص کر دیا۔ نائن الیون سے پہلے امریکہ میں حیاتیاتی ہتھیاروں پر تحقیق میں مصروف 5 لیبارٹریز موجود تھیں۔ لیکن 2009ء میں ان کی تعداد بڑھ کر 15 ہو گئی اور آج امریکہ میں ایسی 400 لیبارٹریز موجود ہیں۔ یہ لیبارٹریز مختلف قسم کے بیماری زا حیاتیاتی عوامل جیسے سیاہ زخم نامی بیکٹیریا پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح ان لیبارٹریز میں کام کرنے والے افراد کی تعداد 14 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ امریکہ حیاتیاتی ہتھیار بنانے والے بانی ممالک میں شمار ہوتا ہے لہذا کرونا وائرس کے پھیلاو میں پہلے درجے کا ملزم ہے۔ دوسری وائٹ ہاوس یہ شور مچاتا دکھائی دیتا ہے کہ ممکن ہے القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہ حیاتیاتی ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر لیں اور انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کر بیٹھیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد گروہ ایسے ہتھیار بنانے کیلئے درکار جدید ٹیکنالوجی سے محروم ہیں البتہ ایک امکان پایا جاتا ہے کہ خود امریکہ ان گروہوں کو ایسے ہتھیاروں سے لیس کر دے۔

تاریخ گواہ ہے کہ سرد جنگ کے دوران بھی ہزاروں امریکی شہری امریکہ کے جوہری توانائی کے مرکز اور دیگر حکومتی مراکز میں ریڈیالوجی سے متعلق تحقیقات کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ 2001ء میں پینٹاگون سے شائع ہونے والی ایک خفیہ دستاویز میں کہا گیا تھا کہ 1962ء سے 1973ء کے درمیان ہزاروں امریکی فوجیوں کو جان بوجھ کر حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں جیسے سیرین گیس، نروس گیس، سیاہ زخم بیکٹیریا اور طاعون وغیرہ میں مبتلا کیا گیا تھا۔ ایسی ہی دسیوں اور سینکڑوں دیگر دستاویزات موجود ہیں جن کی روشنی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر کی وارننگ پر توجہ دینے کی ضرورت اور اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ خاص طور پر اس کے نیو کنزرویٹو حکام جو اپنے نظریاتی اور مذہبی افکار کی بنیاد پر دنیا کو تہذیبوں میں جنگ کا میدان سمجھتے ہیں، کی جانب سے اپنے اہداف کے حصول کیلئے حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال عین ممکن ہے۔ دوسری طرف جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور دیکھ بھال بھاری اخراجات کے ہمراہ ہے جس کی نسبت حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری بہت کم اخراجات رکھتی ہے۔ ایسا ملک جو جنون آمیز مقاصد کی خاطر اپنے شہریوں پر حیاتیاتی، کیمیائی اور جوہری ہتھیاروں کے تجربات کر سکتا ہے اس سے دیگر اقوام اور ممالک کے شہریوں کے بارے میں کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟
خبر کا کوڈ : 852356
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش