0
Tuesday 5 May 2020 15:31

کرونا وائرس کو شکست دینے میں رمضان المبارک کا کردار

کرونا وائرس کو شکست دینے میں رمضان المبارک کا کردار
تحریر: محمد علی جوہری

آج کل کرونا وائرس نے ہماری زندگیوں کو پٹری سے اتار دیا ہے، ہمارے روز و شب کو بدل کر رکھ دیا ہے، ہمیں ہمارے گھروں میں بند کر دیا ہے، ہماری روٹین کو بدل دیا ہے، ہمارے سونے جاگنے اور کام کرنے کے اوقات پر بھی اثر انداز ہوگیا ہے۔ ہمارے سکول اور مدارس بند ہوچکے ہیں، قرنطینہ  کے نام سے گوشہ نشینی کا بازار گرم ہے۔ لوگوں میں نفسیاتی بیماریاں زیادہ عام ہوگئی ہیں۔ خودکشی کا رسک بڑھتا جا رتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اسی کے ساتھ عدم تحفظ کا احساس، خواتین اور بچوں کے خلاف گھریلو تشدد میں اضافہ، لوگوں کے باہمی روابط میں خلل، بے روزگاری کے نتیجے میں متعدد اقتصادی اور معاشرتی مسائل، طلاق کی شرح میں اضافہ، خاندانی نظام میں تزلزل، اخلاقی انحطاط اور معنویت میں گراوٹ وغیرہ وہ مسائل ہیں، جو کرونا وائرس سے جنم پانے عالمی وباء COVID-19 نے دنیا کے سامنے چیلنج کے طور پر سامنے رکھا ہے اور بہت سے میدانوں میں دنیا کے مستقبل کو بہت سے خطرات  سے دوچار کر دیا ہے۔ چنانچہ ایسی صورت حال میں ہمیں اس بحران سے نمٹنے کیلئے معنویت کو تقویت دیتے ہوئے عالمی سطح پر یکجہتی اور ہمدردی کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ اس وباء کے نتیجے میں مرتب ہونے والے منفی اثرات اور نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔

موجودہ شرائط میں دنیا میں معنویت کے گہرے اثرات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے، جب ہیومینیزم (Humanism) پر مبنی انسانی عقل، کورونا جیسے مہلک وائرس کی لہر کی روک تھام میں بے بس نظر آتی ہے، چنانچہ  ہیومینیزم (Humanism) کی اسی بے بسی نے انسان کو عملی طور پر ہیومینیزم (Humanism) سے انسان کی توجہ ہٹا کر خدا پرستی کی طرف راغب کر دیا ہے، یہاں تک کہ مغربی معاشرے میں زندگی گزارنے والے لوگ بھی کرونا کے تباہ کن نتائج سے نجات پانے اور معنوی سکون حاصل کرنے کیلئے مسلم سماج کی طرح خدا سے راز و نیاز اور مومنانہ انداز میں زندگی گزارنے کیلئے گوشہ نشینی اور عزلت گزینی کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں، جس کے بہت سے نمونے اور مثالیں حالیہ مہینوں میں دنیا کے میڈیا میں ہمیں دیکھنے کو ملیں۔

بلاشبہ آج کے دور میں ماڈرنیزم سے منہ موڑ کر خدا پرستی کی جانب میلان پر مبنی لوگوں کے زاویہ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات اور معارف کو دنیا کے گوشہ و کنار تک پہنچانے میں امت مسلمہ کی ذمہ داری میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان حالات میں اسلامی سماج سمیت دینا کی مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف معاشروں میں معنویت کو فروغ دینے میں رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ایک گولڈن چانس کی حیثیت رکھتا ہے، تاکہ کرونا وائرس سے مبہوت  دنیا کے لوگ، دین اور فطرت کے مابین باہمی ارتباط اور تعلق کے نتیجے میں اپنے اصل یعنی خدا پرستی کی طرف لوٹ آئیں، جس کے نتیجے میں معنویت اور قلبی سکون  کو  فروغ دیا جاسکے۔ رمضان المبارک کا مبارک مہینہ خالص انسانی فطرت کی طرف لوٹنے کے لئے انتہائی موزون اور زمینہ ساز مہینہ ہے، جس میں انسان، روزہ اور دیگر عبادات کے ذریعے رضائے الہیٰ کے حصول کے ساتھ دنیا کے سامنے مومنانہ طرز زندگی کی بہترین تصویر پیش کرسکتا ہے، جو کرونا وائرس سے متاثر دنیا کیلئے سکون اور اطمینان کے اسباب کی فراہمی کا موجب ٹھہر سکتی ہے۔

ماہ مبارک رمضان میں روزه‌ داری کا نیک عمل، خدا کی جانب میلان کے ساتھ ہیومینیزم (Humanism) سے بے رخی کا عظیم مظہر ہے، جو روزہ داری کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، اب ایسی صورت میں جہاں ہیومینیزم (Humanism) سے بے رخی اختیار کرتے ہوئے خدا محوری کو ترجیح دی جاتی ہو تو وہاں عموماً لوگوں کی کوشش اپنی انانیت کو فراموش کرتے ہوئے اعلیٰ پیمانے پر خدا کی رضا کے حصول کیلئے سعی اور تلاش  میں صرف ہوتی ہے اور اس زاویئے سے اگر دیکھا جائے تو ماہ مبارک رمضان کی معنویت، الہیٰ حدود کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے ساتھ خدائے واحد کی اطاعت کیلئے انسانی معاشروں کی مذہبی حیات کو کرونا کے بعد کی دنیا کیلئے روشن اور واضح کرتی دکھائی دیتی ہے۔

حقیقت حال یہ ہے کہ کرونا وائرس جہاں ایک طرف بعض منفی پہلووں کا حامل ہے، وہیں دوسری جانب بہت سے مثبت پہلووں پر بھی مشتمل ہے، جس میں سے ایک  معنویت کی جانب ترغیب ہے، جو قرنطینہ کی صورت میں دنیا کے گوشہ و کنار میں ہمیں دکھائی دیتی ہے اور لوگوں کے لئے ہیومینیزم (Humanism) کو چھوڑ کر خدا سے راز و نیاز کرنے کا سنہرا موقع فراہم کیا ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس کے بحران کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے نفسیاتی نتائج نے مغربی مشینری منظومے پر مبتنی ماڈرنیزم کی کھوکھلی حقیقت کو بھی دنیا کے سامنے ظاہر کر دیا ہے۔ جو لوگوں کی معنوی ضروریات کو فراہم کرنے میں بری طرح ناکام اور بے بس نظر آتی ہے، جبکہ اس وقت انسان مادی اور مشینری لائف کی ہلچل سے آزاد ہوکر اپنی روح اور جسم کی سلامتی کیلئے ایسے سکوت کا محتاج ہے، جو اس کی روح اور جسم دونوں کیلئے سکون و آرامش فراہم کرسکے اور یہ چیز مغرب کی مشینری لائف پر مشتمل تہذیب میں کہیں نظر نہیں آتی ہے۔

تاہم اس اہم حیاتی عنصر کو سحر خیزی، راز و نیاز اور عبادت و ریاضت کی صورت میں   رمضان المبارک کے عظیم اور بابرکت مہینے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں معنویت کے فروغ کیلئے ماہ مبارک رمضان کی ظرفیتوں سے استفادہ کرنے کی اہمیت میں اضافہ اس وقت ہوتا ہے، جب ہمیں کرونا جیسی عالمی وباء سے نمٹنے کیلئے  عالمی سطح پر یکجہتی اور ہمدردی کا فروغ، ایثار و فداکاری کا جذبہ، تہذیب نفس کیلئے وسیع پیمانے پر شرائط کی فراہمی جیسے عوامل کا دار و مدار معنویت کی تقویت پر موقوف نظر آتا ہے، جو ماہ مبارک رمضان میں نیازمندوں اور فقراء کی ضرورتوں کو لمس اور درک کرنے کے ساتھ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے اقدام کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے اور رمضان المبارک کا یہ عظیم مہینہ اس عمل کیلئے بہتریں زمینہ ہموار کرتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ ماہ مبارک رمضان میں انجام پانے والے معنوی اعمال و عبادات  اور لوگوں کے معیارِ زندگی کے درمیان گہرا رابطہ پایا جاتا ہے، جس میں لوگوں کی جسمانی سلامتی کے ساتھ معنویت کے اعتبار سے بھی انسان کی زندگی میں  کافی تبدیلی رونما ہوتی ہے، جو کرونا جیسی عالمی وباء سے جنم پانے والی بیماری COVID-19 کے خلاف جنگ میں جہاں ایک طرف امید کے چراغ کو انسان کے قلب و نظر میں روشن کرتے ہوئے اسے شکست دینے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے، وہی دوسری طرف اسلامی احکام اور عقائد کے خلاف پائے جانے والے شکوک و شبہات کا سدباب کرتے ہوئے دین مبین اسلام کی حقانیت کو دنیا کے سامنے واضح کرنے میں   بھی معاون و مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 860848
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش