1
Saturday 9 May 2020 10:30

یوم علیؑ کے جلوس نکالنا ضروری ہیں کیا؟

یوم علیؑ کے جلوس نکالنا ضروری ہیں کیا؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

مکتب تشیع کی ثقافت ہے کہ ہم ایام شہادت ائمہ معصومین ؑ کو جلوس ہائے عزا برپا کرتے ہیں اور ان کے ذریعے معاشرے میں اہلبیتؑ سے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ یہ جلوس روایتی انداز میں صدیوں سے نکل رہے ہیں۔ اگر صرف ہندوستان کی بات کی جائے تو یہاں تشیع سینکڑوں سالوں سے موجود ہے۔ مغل اور دیگر ادوار میں کسی بادشاہ کی مذہبی آزادی کے متعلق پالیسی جاننا ہو تو اس کے دور میں عزاداری کے حوالے سے اس کا رویہ دیکھ لیں۔ اگر اس نے عزاداری کو جاری رہنے دیا اور اس میں کوئی مداخلت نہیں کی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ نسبتاً اچھا بادشاہ تھا، جس کے دور میں مذہبی آزادی حاصل تھی۔ جلوس بھی ایسے نہیں تھے، جیسے آج بنا دیئے گئے ہیں۔ چھوٹے شہر تھے، جہاں بھی چند محبان اہلبیتؑ ہوتے، وہ وہاں سے جلوس نکال لیتے، جو کسی مرکزی جگہ پر جا کر اختتام پذیر ہو جاتا۔ انگریز دور میں جہاں اور بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں، وہاں ان جلوسوں کو فرقہ وارانہ رنگ دینا بھی شامل تھا۔

اس سے پہلے جہاں سے مرضی جلوس نکالا جا سکتا تھا اور اسی طرح نکالنے کے لیے خاص فرقے سے متعلق ہونا ضروری نہ تھا، مگر انگریزوں نے جلوسوں کے روٹ بنا دیئے کہ یہاں یہاں سے جلوس نکالے جائیں گے، اس کے علاوہ جلوس نہیں نکالا جا سکتا اور ان کے باقاعدہ لائنسنس جاری کیے گئے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کے درمیان اتنی ہم آہنگی تھی کہ میری معلومات کے مطابق جھنگ اور ملتان میں جلوسوں کے لائنسنسدار بڑی تعداد میں اہلسنت ہیں۔ جلوس ہائے عزاء اہلسنت گھروں سے نکلتے ہیں اور ان کے مقررہ راستے ہیں، جہاں سے وہ گزرتے ہیں۔ جب فرقہ واریت نے عروج پایا تو اسلام دشمن لوگوں کا سب سے بڑا حملہ جلوسوں پر ہوتا تھا کہ ہم جلوس نہیں نکلنے دیں گے۔ نئے جلوس نکالنا تو انتظامیہ نے محال ہی بنا دیا، حالانکہ بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے کہ ہر شخص کو اس کے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہوگی اور اسی طرح بنیادی انسانی حقوق کا چارٹر یہ کہتا ہے کہ ہر شخص کو اکٹھا ہونے اور اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی آزادی ہے۔ پاکستان کا آئین ان تمام حقوق کو تسلیم کرتا ہے اور ریاستی اداروں کو پابند کرتا ہے کہ تمام شہریوں کے لیے ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

دوسرا مرحلہ یہ کہ جو جلوس نکل رہے ہیں، ان کو بھی ختم کر دیا جائے۔ بہت سے لوگ جو بظاہر سیکولر نظر آئیں گے، مگر اندر سے پورے تکفیری ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں دیکھیں جی سڑکیں بند ہوتی ہیں، حملوں کا خطرہ ہے اور اسی طرح کی بظاہر خوش کن دلیلیں دیں گے۔ ویسے یہاں منطق ہے ہی عجیب ایک سکول پر حملہ ہوا تو کیا اب پورے ملک کے سکول بند کر دیئے جائیں؟ پورا شہر چل رہا ہوتا ایک دو کلومیٹر جلوس ہوتا ہے، چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر کہیں کوئی مین شاہراہ بلاک نہیں ہوتی۔ چند انتہا پسندوں کے کہنے پر اگر جلوس بند ہونے لگیں تو کل کو یہ کہیں گے کہ سانس بھی نہ لیں، کیا ان کی یہ بات بھی مان لی جائے گی؟ کچھ عجیب لطیفے ہوتے ہیں، جیسے کچھ لوگ جلوس نکال کر یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ جلوسوں سے روڈ بند ہوتے ہیں، اس لیے ان پر پابندی لگائی جائے۔

کرونا ایک عالمی وبا ہے، جس نے دنیا کی ایک بڑی آبادی کو متاثر کیا ہے، اس سے خود بچنا اور دوسروں کو بچانا لازم اور شرعی فریضہ ہے۔ بعض مراجع کے فتویٰ کے مطابق اگر کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتا اور اس کے ذریعے کرونا منتقل ہوتا ہے تو جس کو منتقل ہوگا، اس کے اخراجات وغیرہ کا یہ شخص ضامن ہے۔ مراجع نے اس وبا کی حساسیت کے پیش نظر یہ فتاویٰ دیئے کہ نماز ہائے جمعہ و جماعت کو انتہائی محدود کر دیا جائے۔ مذہبی حوالے سے ان فتاویٰ اور ماہرین طب کی آراء کی روشنی میں بڑے اجتماعات سے یہ وبا پھیلنے کا شدید خطرہ ہے۔ جلوس یقیناً بڑے اجتماعات ہوتے ہیں اور ان میں لوگوں کی شرکت بہت زیادہ ہوتی ہے، ایسے میں اگر خدا نخواستہ کسی ایک مومن کو یہ مرض ہے تو وہ اسے سینکڑوں یا خدا نہ کرے ہزاروں لوگوں تک منتقل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ وہ حقیقی خطرہ ہے، جس سے خود بچنا اور مومنین کو بچانا انتہائی ضروری ہے۔

اب ہمارے سامنے دو راستے ہیں یا تو جلوس ہائے عزاء کو مسنوخ کر دیا جائے، یہ یقیناً بہت بڑا فیصلہ ہے، جو کرنا شائد کسی کے بس میں ہی نہیں ہے۔ دوسری اور واحد صورت یہ ہے کہ جلوسوں کو نکالا جائے، لیکن اگر پہلے کی طرح نکالا جاتا ہے تو یہ یقیناً خودکشی کے مترادف ہوگا، جو خلاف عقل و شرع ہے۔ صرف ایک صورت بچتی ہے کہ جلوس ہائے عزاء کی ہیئت کو تبدیل کر دیا جائے۔ میڈیکل ماہرین کی آراء کی روشنی میں خواتین، بیمار، بچے اور بزرگ گھر میں ہی یوم علی ؑ منائیں۔ اسی طرح سوشل ڈسٹنس کا اہتمام کیا جائے۔ عام طور پر جلوس کا وقت کافی وسیع ہوتا اور روٹ بھی کافی وسیع ہوتا ہے، اس لیے جلوس میں داخل ہو کر فقط حاضری لگوا کر چلے جائیں ،نیاز وغیرہ سے اس کے پھیلنے کا خطرہ ہے، لہذا اس بار نیاز کا اہتمام نہ کریں، یہ پیسے غریب لوگوں کے گھروں میں دے دیئے جائیں، جو اس وبا سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

چھوٹے شہروں میں کسی حد تک یہ فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ عام شرکت کی بجائے شہر کی انجمنیں ملکر دس یا بیس بیس افراد مقررہ وقت پر لائیں اور ان کے علاوہ کوئی شریک جلوس نہ ہو، اس سے جلوس بھی ہو جائے گا اور ہر انجمن اپنے شرکاء کی تربیت بھی مناسب انداز میں کرسکے گی۔ سب سے اہم بات یہ کہ جلوس کا ہر شریک ماسک پہن کر آئے اور جلوس میں شریک ہوتے وقت ہر شخص کو سینٹائزر لگایا جائے اور جلوس کے راستے میں پہلے سے سپرے کیا جائے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ آج سے حکومت نے بھی لاک ڈاون میں نرمی کر دی ہے، ہر جگہ بازار کھل چکے ہیں، منڈیاں لوگوں سے بھری ہیں، ایسے میں کج فہموں کا فقط جلوسوں کو ٹارگٹ کرنا سوائے فرقہ واریت کے اور کچھ نہیں ہے۔ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم حکومت سے سنیٹائزر اور سپرے مانگنے کے مطالبے کر رہے ہیں، ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ جمع خاطر رکھیں، شیعہ فلاحی تنظیمیں اس موقع پر سب سے  زیادہ فعال ہیں، وہ معاشرے میں راشن فراہم کر رہی ہیں، سپرے کیے جا رہے ہیں۔

مختلف جگہوں پر شیعہ دینی مدارس نے از خود قرنطینہ سنٹرز قائم کیے ہیں، ہمیں کسی سے کچھ نہیں چاہیئے۔ آپ نے کسی عوامی جگہ پر کسی شیعہ مسجد یا امام بارگاہ کے لیے چندہ مانگتے کسی کو دیکھا ہے؟ یا کبھی دیکھا ہو کہ شیعہ مجلس کرانے یا جلوس کے اہتمام کے لیے سپیکر پر پیسے مانگ رہے ہیں؟ ایسا بالکل نہیں ،الحمد للہ ہمارا  ایک منظم نظام ہے، جس کے تحت چلتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب آپ نمازوں کو محدود کرنے کے حامی ہیں تو جلوسوں پر اصرار کیوں کر رہے ہیں؟ تو جناب ہم جلوسوں کو بھی سخت شرائط کے ساتھ  ہی نکالنے کی بات کر رہے ہیں۔ مسجد میں  لوگ دن میں پانچ بار ہر محلہ، ہر گلی میں جمع ہوتے ہیں، جبکہ یہاں صرف ایک دن کے لیے کھلی فضا میں آنا ہے اور ماہرین کی رائے میں کھلی فضا میں خطرہ بند جگہ کی نسبت انتہائی کم ہو جاتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے مسئلہ جلوس کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ اس تعصب کا ہے، جس نے بعض لوگوں کے ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے اس تعصب سے باہر آئیں اور کھلے دل سے دوسروں کے حقوق کو تسلیم کریں۔
خبر کا کوڈ : 861609
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش