0
Wednesday 15 Jul 2020 21:38

سرحدوں پر کشیدگی ختم کی جائے

سرحدوں پر کشیدگی ختم کی جائے
رپورٹ: جے اے رضوی

مقبوضہ کشمیر کے جموں صوبہ میں لائن آف کنٹرول سے لیکر بین الاقوامی سرحد اور کشمیر کی حد متارکہ کے مختلف سیکٹروں میں گذشتہ کئی روز سے مسلسل گولہ باری ہو رہی ہے۔ دونوں جانب سے آتشی گولہ باری تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق گذشتہ دس روز کے دوران سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں سرحد کے دونوں جانب کم از کم 5 کے قریب اموات واقع ہوئی ہیں، جبکہ ایک وسیع سرحدی آبادی جان کی امان پانے کے لئے نقل مکانی کرچکی ہے۔ جانکار حلقوں کے مطابق سرحدی گولہ باری کے اس نہ تھمنے والے سلسلہ کی وجہ سے درجنوں دیہات متاثر ہوچکے ہیں اور اشتعال انگیزی کا یہ عالم ہے کہ دونوں جانب سے ہلکے ہتھیاروں کے علاوہ 120 ایم ایم اور 180 ایم ایم مارٹر گولے بھی داغے جا رہے ہیں۔

ایک طرف امن اور مفاہمت کی باتیں کی جا رہی ہیں جبکہ دوسری جانب فلیگ میٹنگوں اور ہاٹ لائن روابط کے باوجود سرحدوں پر لگی توپیں آگ اگلنا بند نہیں کر رہی ہیں اور اوڑی سے کٹھوعہ تک وقفہ وقفہ سے سرحدی گولہ باری جاری ہے۔ سرحدوں پر کشیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی دعوؤں کے مطابق پاکستانی افواج نے سال رفتہ میں 2936 دفعہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، جن میں 61 افراد ہلاک جبکہ 250 کے قریب زخمی ہوگئے جبکہ پاکستانی حکام کے مطابق اسی عرصہ کے دوران بھارت کی جانب سے 5 ہزار سے زائد بار ایسی خلاف ورزیاں کی جاچکی ہیں، جس کے نتیجہ میں 27 افراد ہلاک جبکہ 163 سے زیادہ لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ 2003ء کے سیز فائر معاہدے کے بعد رواں سال کو اس معاہدہ کی خلاف ورزیوں کے لئے سب سے بدترین سال قرار دیا جارہا ہے اور سال رفتہ کی اس مدت کی نسبت امسال اب تک سیز فائر معاہدہ کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں تین گنا اضافہ ہوا جبکہ گذ شتہ تین برسوں کے دوران اس میں مجموعی طور 6 گنا اضافہ ہوا ہے۔

اعداد و شمار خود بتا رہے ہیں کہ سرحدوں کی صورتحال قطعی صحیح نہیں ہے اور ایک غیر اعلانیہ جنگ کی صورتحال ہے، جس کے لئے دونوں فریق ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ بہرحال دونوں جانب سے زور آزمائی ہو رہی ہے۔ سرحدوں پر اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سرد جنگ کا ہی حصہ ہے، جو برسہا برس سے دونوں ممالک کے درمیاں معمولات کا حصہ بن چکا ہے۔ ایک زمانہ ایسا تھا، جب سرحدوں پر سیز فائر معاہدہ کی خلاف ورزی کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آتا تھا۔ 26 نومبر 2003ء کو سیز فائر معاہدے عمل میں آیا تو اس کے بعد مسلسل تین برسوں پر سرحدوں پر بندوقیں خاموش رہیں اور 2004ء، 2005ء اور 2006ء میں ایک بھی خلاف ورزی کا واقعہ پیش نہ آیا۔ یہ وہ دور تھا جب اٹل بہاری واجپائی اور پرویز مشرف کے درمیان مذاکراتی عمل اپنی انتہا پر تھا اور یہی وہ دور ہے، جب بھارت حد متارکہ پر تار بندی کرنے میں کامیاب بھی ہوا۔

تاہم 2006ء سے حالات بدلنا شروع ہوگئے اور سرحدوں کا سکون قائم نہ رہ سکا۔ 2006ء میں تین دفعہ جبکہ 2007ء میں 21 اور 2008ء میں 77 دفعہ اس معاہدہ کی دھجیاں بکھر گئیں، تاہم بعد ازاں اس میں پھر قدرے کمی ہوئی اور 2009ء میں یہ تعداد 28 تک پہنچ گئی، لیکن پھر گراف بڑھنے لگا اور 2010ء میں 44 جبکہ 2011ء میں 62، 2012ء میں 114 اور 2013ء میں 347 دفعہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ بھارت و پاک تعلقات میں کشیدگی کا گراف جوں جوں بڑھتا گیا، سرحدی کشیدگی بھی بڑھتی گئی اور 2014ء میں سرحدی جنگ بندی خلاف ورزیوں کی تعداد 583 اور 2015ء میں 405 تک پہنچ گئی۔ 2014ء کے بعد سے سرحدیں وقفے وقفے سے عملی طور آگ برسا رہی ہیں اور آہنی گولہ باری ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ بھلے ہی امن و مفاہمت کی باتیں ہو رہی ہوں، تاہم سرحدوں پر خوف و دہشت کی حکمرانی ہے اور ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ بھارت و پاکستان کی اس کشیدگی کا خمیازہ آر پار جموں و کشمیر کے عوام کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دونوں جانب کے عام لوگ بھارت و پاک کشیدگی میں توپ کی رسد بن رہے ہیں اور یوں اگر کسی کو امن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عوام سب سے زیادہ امن کی وکالت کر رہے ہیں، لیکن اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ سرحدی سکوت بھارت و پاک تعلقات میں گرمجوشی سے مشروط ہے۔ اس لئے کم از کم عوام پر ترس کھا کر بھارت و پاکستان کی قیادت کو چاہیئے کہ وہ امن کی طرف لوٹ آئیں، تاکہ عوام کو راحت کے چند پل میسر آسکیں اور اگر امن لوٹ آتا ہے تو مسائل کے حل کی راہ بھی خود بخود نکل آئے گی۔
خبر کا کوڈ : 874444
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش