1
Saturday 25 Jul 2020 02:39

جے یو آئی نے فرینڈلی اپوزیشن کا فیصلہ کر لیا؟

جے یو آئی نے فرینڈلی اپوزیشن کا فیصلہ کر لیا؟
رپورٹ: سید عدیل زیدی

مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام کو ایک طویل عرصہ بعد اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا موقع میسر آیا ہے، تحریک انصاف کی حکومت وجود میں آنے سے قبل مولانا کسی نہ کسی صورت لگ بھگ ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ عمران خان کی انتخابی مہم کے دوران نواز شریف اور آصف زرداری کیساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمان وہ تیسری سیاسی شخصیت تھے، جن پر موجودہ وزیراعظم بھرپور تنقید کیا کرتے تھے۔ اسی طرح جمعیت کی جانب سے بھی عمران خان کو اسی انداز میں جواب دیا جاتا تھا۔ اپنی انتخابی تقریروں کے دوران پی ٹی آئی کے سربراہ یہ واضح کرچکے تھے کہ اگر ہماری حکومت آئی تو مولانا پہلی مرتبہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے، دیکھا جائے تو درحقیقت ہوا بھی یونہی۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کے مقدمات میں پھنسنے کے بعد مولانا وہ واحد اپوزیشن رہنماء نظر آرہے تھے، جو حکومت کیخلاف زیرو ٹالرنس پر کھڑے تھے۔ انہوں نے گذشتہ عام انتخابات کو بھی جعلی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور حزب اختلاف رہنماوں کو اکٹھا کرنے کی کوششیں بھی کیں، تاہم کوئی مثبت ردعمل نہ ملنے پر مولانا نے ’’آزادی مارچ‘‘ کے نام پر اسلام آباد میں چند روز دھرنا بھی دیا۔ 

آخر مولانا کو اسلام آباد سے خالی ہاتھ ڈیرہ اسماعیل خان جانا پڑا، لیکن سیاسی داو پیچ کے ماہر مولانا نے ہمت نہیں ہاری اور حکومت کو کسی نہ کسی طرح تنگ کرتے رہے۔ ذرائع نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا کہ حکومت اور مولانا کے درمیان بعض شخصیات ’’دوستی‘‘ کرانے کی کوششیں بھی کرچکی ہیں، تاہم بات بن نہیں رہی تھی، کیونکہ مولانا عمران خان کو بھی باقی سابقہ وزرائے اعظم کی طرح ہی ‘‘ٹریٹ‘‘ کرنا چاہتے تھے، جبکہ دوسری جانب مولانا کیساتھ سرعام ہاتھ ملانا خان صاحب کی سیاسی ساکھ کو بری طرح متاثر کرتا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس تمام تر صورتحال میں صوبہ خیبر پختونخوا کی حد تک جمعیت اور پی ٹی آئی کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی گئی، اس کوشش میں پی ٹی آئی کی ایک اہم شخصیت نے کردار ادا کیا۔ ذرائع نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا کہ پشاور میں اس سلسلے میں کچھ خفیہ ملاقاتیں بھی ہوئیں اور طے پایا کہ سب کام خاموشی سے ہوگا، صوبائی حکومت ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے جمعیت کا خیال رکھے گی اور اس کے مقابلہ میں جمعیت پہلے مرحلے میں صوبائی بجٹ کے موقع پر کسی بھی قسم کے شور شرابے سے گریز کرے گی۔

صوبائی بجٹ کے موقع پر سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا، ذرائع کے مطابق جمیعت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر اکرم درانی نے وزیراعلیٰ محمود خان سے کچھ خفیہ ملاقاتیں بھی کیں، ان ملاقاتوں کا مقصد مختلف صوبائی محکموں کا ترقیاتی بجٹ کاٹ کر کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لگائے جانے والے اربوں روپے کے معاملہ پر اپوزیشن کو خاموش کرنا تھا۔ اسی لیے وزیراعلیٰ محمود خان نے انتہائی ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر اکرم درانی سے خفیہ مذاکرات شروع کیے اور صوبائی بجٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے اہم ارکان کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے خطیر رقم دینے پر اتفاق ہوا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی وزیراعلیٰ محمود خان نے اپوزیشن کے کئی ارکان کو ترقیاتی منصوبوں کی مد میں کروڑوں روپے دیئے ہیں، خیبر پختونخوا حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کھیلتے ہوئے جہاں اپوزیشن کیساتھ اسمبلی اجلاسوں سے احتجاج ختم کرنے کا معاہدہ کیا، وہیں ایک اور خفیہ معاہدہ خطیر رقم دینے کا کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے سب سے زیادہ رقم خیبر پختونخوا اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اکرم درانی کو دیئے جانے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے مابین درپردہ یہ ڈیل یقیناً دونوں جماعتوں کے کارکنان کیلئے بہت بڑا دھچکہ ثابت ہوگی، کیونکہ دونوں جماعتیں عرصہ دراز سے ایک دوسرے کے سب سے بڑے سیاسی حریف سمجھے جاتے تھے اور دونوں جماعتوں کی سیاسی سمت مخالف تھی۔ جمعیت علماء پاکستان و ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کا مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے چند روز قبل ایک بیان سامنے آیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’’حکومت اپنی حرکتوں کے باعث جب بھی گرنے کے قریب ہوتی ہے، مولانا فضل الرحمان کے اقدامات اس کو گرنے سے بچا لیتے ہیں اور اس کی تقویت کا باعث بن جاتے ہیں، پہلے بھی حکومت کیخلاف اپوزیشن کے متحد ہونے کا تاثر دیکر تن تنہاء تحریک چلا کر اور دھرنے دیکر اس کو ناکامی سے دوچار کرکے حکومت کو مضبوط کیا، اب پھر حکومت ڈگمگا رہی تھی کہ مولانا نے ایک ناکام اے پی سی کے ذریعہ حکومت کو پھر سہارا دیدیا۔

صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کا بیان اپنی جگہ، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعیت اور پی ٹی آئی کے مابین ہونے والی یہ ہم آہنگی فی الوقت صرف صوبہ خیبر پختونخوا کی سطح تک ہی ہے، بحران میں گھرے عمران خان نے قدرے سیاسی ریلیف کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی سطح پر اس قسم کی ڈیل کی اجازت دی، تاہم وہ مرکزی سطح پر اس حوالے سے فی الحال کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ یہاں یہ واضح ہو کہ مولانا فضل الرحمان اپنے آخری بیانات تک عمران خان کو ‘‘یہودی ایجنٹ‘‘ قرار دیتے آئے ہیں اور اسی طرح وزیراعظم عمران خان بھی مولانا فضل الرحمان کے بارے میں بے باک بیانات سے گریز اب بھی نہیں کرتے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے مابین قائم ہونے والی یہ ہم آہنگی کیا وسعت پاتی ہے، یا پھر دونوں جماعتوں نے فقط وقتی ریلیف کے طور پر یہ اقدام اٹھایا۔؟ بلاشبہ ملک میں سیاسی استحکام کے ذریعے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے، تاہم قومی اور عوامی ایشوز پر ایک بہترین اپوزیشن ہی حکومت کی درست رہنمائی کرسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 876352
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش