0
Thursday 13 Aug 2020 19:58

پاکستان کی معاشی ترقی، کیا اچھا دور آنے والا ہے؟

پاکستان کی معاشی ترقی، کیا اچھا دور آنے والا ہے؟
رپورٹ: ایم رضا

ایک عرصہ بعد معاشی محاذ پر خوش کن خبریں سامنے آرہی ہیں، تازہ ترین درجہ بندی میں موڈیز پاکستان کی ریٹنگ میں بہتری آئی ہے، نہایت مشکل معاشی صورتحال کے باوجود پاکستان کی برآمدات بڑھ رہی ہیں، اقتصادی منصوبہ بندی کے باعث تجارتی خسارے میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ صائب بات ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کے رویئے میں مثبت تبدیلی پاکستان کے حوالے سے رونما ہوئی ہے۔ معیشت کے حوالے سے یہ انتہائی مثبت اشارے ہیں۔ زرِمبادلہ کے ذخائر 19.56 ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج بہتری میں دنیا میں دوسرے نمبر پر آگئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ این آر او والوں نے دو سال تک روکا ہے، اب آگے بڑھانا ہے، یعنی وہ گڈگورننس کے ذریعے پاکستان کو ترقی کی منازل طے کروانا چاہتے ہیں، جو کہ خوش آئند امر ہے۔

اس ساری صورتحال کو ہم حکومتی نقطہ نظر کے مطابق اطمینان بخش قرار دے سکتے ہیں، لیکن دوسری جانب عوام میں بے چینی کا عنصر کسی اور معاملے کی عکاسی کر رہا ہے۔ اشیائے ضروریہ سمیت ہر چیز کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھنے سے عام آدمی کی قوت خرید جواب دے رہی ہے، ملبوسات، ادویات سمیت تمام اشیاء کی قیمتوں میں عدم استحکام کے منفی اثرات زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ گذشتہ روز نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، جس کے تحت گذشتہ 8 ماہ کے لئے بجلی کی قیمتوں میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں پانچ ماہ کے لئے اضافہ اور تین ماہ کے لئے کمی کر دی گئی ہے۔

مرے کو ماریں شاہ مدار کے مصداق مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ کے بعد بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ناقابل فہم ہے۔ آسان الفاظ میں سمجھ لیجئے کہ بجلی کا نرخ نامہ پیچیدہ ہونے کے باعث عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتا، جب بجلی کے بل عوام کے ہاتھوں میں آتا ہے تو انہیں زور کا جھٹکا لگتا ہے، وہ بجلی کمپنیوں کے دفاتر پہنچتے ہیں تو وہاں ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، کیونکہ یونٹ بلنگ کا نظام انتہائی پیچیدہ اور سمجھ سے بالاتر ہے، اس کے مختلف سلیب ہیں، جو کسی کی سمجھ میں نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی کمپنیوں اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی فضاء برقرار رہنے سے بسا اوقات صارفین اور عملے کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔ اس مسئلے کا ایک آسان حل یہ بھی ہے کہ سلیب سسٹم ختم کرکے یکساں ریٹ لاگو کئے جائیں، تاکہ پہلے کی طرح ایک عام شہری میٹر ریڈنگ کی بنیاد پر اپنے بل کا تخمینہ خود لگا سکے۔

ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس وقت ملک کی معاشی نمو گذشتہ نو سال کی کم ترین سطح پر ہونے کے سبب رینگ رہی ہے، جس سے لامحالہ مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ ملکی معیشت کی کارکردگی پر اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ اقتصادی حالات کی سنگینی اور مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں اور گذشتہ سال معیشت کے پیداواری شعبوں، خاص طور پر زراعت اور صنعت کے لئے بھاری ثابت ہوا ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، زراعت کی نمو جون 2018ء میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران 3.9 فیصد تھی، تاہم جون 2019ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران زراعت کی نمو صرف 0.8 فیصد رہ گئی۔

اسی طرح صنعت کی نمو 4.9 فیصد سے گر کر محض 1.4 فیصد پر آگئی ہے۔ چنانچہ معیشت کے زوال پر قابو پانے کے لئے حکومت کو سب سے زیادہ توجہ زراعت اور صنعت کو دینا ہوگی، تاکہ خسارے پر قابو پایا جاسکے۔ یہ اس لئے بھی اہم ہے کہ یہی دو شعبے ہیں، جو افرادی قوت کو ملازمت کے زیادہ مواقع مہیا کرنے کے علاوہ دیگر کئی شعبوں کے لئے انجن کا کام کرتے ہیں۔ اگر زراعت اچھی ہوگی تو خوراک، ٹیکسٹائل، تیل، بیج، کھاد، ادویات، بینکوں کے قرض، مشینری کی فروخت، غرض لاتعداد شعبوں کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ اسی طرح صنعت کی ترقی روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے، برآمدات میں اضافے اور قومی معیشت کا سہارا دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے بھی یہی توقع ظاہر کی گئی ہے کہ مالی سال 2020ء میں زرعی معیشت کی ترقی سے خسارے میں کمی آسکتی ہے۔

غرضیکہ حکومت کے معاشی ماہرین اور پالیسی ساز ادارے اگر اقدامات کرنا چاہیں تو معیشت کے لئے ڈراؤنا خواب ثابت ہونے والے اس سال کو کیس اسٹڈی کے طور پر لے سکتے ہیں اور گذشتہ برسوں کے دوران قومی معیشت کے اہم ترین شعبوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر خرابیوں کے اسباب تک پہنچ سکتے ہیں اور یہ سب کچھ قومی معیشت کے بہتر مستقبل کے لئے لازم ہے، کیونکہ جی ڈی پی کی کم ترین شرح نمو نے پاکستانی معیشت کو ایک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ روپے کی قدر گرنے سے درآمدی اشیا کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس معاشی صورتحال سے پورے پاکستان کے تاجر، صنعتکار، امپورٹر، ایکسپورٹر سب پریشان ہیں، چھوٹا دکاندار بھی پریشان ہے، حتیٰ کہ خریدار بھی۔ درحقیقت ملک میں منافع خور مافیا طاقتور ہے اور ملک کے انتظامی ادارے ان کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا انتظامی ڈھانچہ کمزور ہوگیا ہے۔

پرائس کنٹرول کمیٹیاں کہیں بھی فعال کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں، چینی مارکیٹ میں ایک سو روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔ شوگر کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا بلکہ الٹا عوام ہی نہ صرف پریشان ہوئے بلکہ مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔ عید قرباں کے موقعے پر آلو، پیاز، ٹماٹر، لہسن اور پیاز سمیت سبزیوں کی قیمتیں جس طرح بڑھیں وہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ دوسری جانب کھاد کی قیمتیں زائد ہونے کی وجہ سے زراعت کا شعبہ متاثر ہو رہا ہے۔ مہنگائی کی ایسی صورتحال کے باعث معاشرے سماجی اور اخلاقی تنزلی کا شکار ہو جاتے ہیں، اخبارات اور ٹی وی چینل پر تواتر سے ایسی خبریں آرہی ہیں، جن کے مطابق خودکشی کا رجحان ملک میں پروان چڑھ رہا ہے، خبروں کے مطابق لوگ مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں پریشان ہوکر اپنے بچوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں۔

ملک میں جرائم کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، ایک بے یقینی کی فضاء قائم ہوچکی ہے، ہم حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ مہنگائی کے تدارک کے لئے موثر اقدامات کرے، خوراک کی قیمتوں میں عدم توازن کے مسائل سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ضروریات اور پیداوار کے فرق کو ختم کیا جائے، مارکیٹ پر نظر رکھنے سے قیمتوں میں توازن قائم کیا جاسکتا ہے۔ حکومت نے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنا ہے تو زبانی کلامی باتوں کو چھوڑ کر عملی طور پر اسے ثابت کرنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ بہترین طرز حکمرانی قائم کرکے قوم کو ریلیف فراہم کیا جائے، کیونکہ ہماری مہنگائی کی ستائی اور بحرانوں کی ماری قوم مزید کسی نئے بحران کو جھیلنے کی ہمت وسکت نہیں رکھتی۔

ملک میں باران رحمت کھل کر برس رہی ہے، مون سون اسپیل کے تحت تیسرے روز بھی سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے بیشتر شہروں میں گرج چمک کے ساتھ شدید بارش ہوئی، کرنٹ لگنے اور دیگر حادثات میں مزید پندرہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں طوفانی بارشوں سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ کوئٹہ، مستونگ، قلات، ڈھاڈر، نوشکی، جھل مگسی، مچھ اور بولان میں تیزبارشوں سے نشیبی علاقے زیرآب، متعدد علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع جب کہ کوہلو، سبی شاہراہ ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کردی گئی ہے۔

بارشوں کے بعد کراچی میں جو بھیانک صورتحال سامنے آئی ہے، اس کے بعد پاک فوج سے عملاً مدد لینی پڑی ہے۔ یہاں ایک اہم ترین سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخرکار شہر کے متعدد انتظامی ادارے کہاں غائب ہیں۔ کیا پورا انتظامی ڈھانچہ کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔ عروس البلاد کہلانے والا شہر گندگی اور غلاظت کا ڈھیر بن چکا ہے۔ وفاقی، صوبائی اور شہری انتظامیہ کے متعلقہ ادارے شہر میں موجود ہیں، ان کے افسران و ملازمین ماہانہ لاکھوں، کروڑوں کی تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں، لیکن ان کا کام کہیں نظر نہیں آرہا، انتظامی مشینری جو کروڑوں اربوں کی خریدی گئی تھی، وہ کہاں ہے۔ ضلع اور یونین کونسل کی سطح پر جو سرکاری ادارے اور افراد ہیں ان کی کارکردگی کیا ہے۔

تنقید تو سیاسی جماعتوں کے قائدین پر خوب کی جاتی ہے، لیکن عملی طور پر متعلقہ اداروں کے ہزاروں سرکاری ملازمین سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ہے، حقیقت میں جن کا فرض شہر کو تباہی سے بچانا ہے، وہ غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ حرف آخر جب تک ہم اختیارات گراس روٹ لیول پر منتقل نہیں کریں گے، مسائل کا دیرپا حل نہیں نکلے گا اور کوئی بھی معاشی حکمت عملی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گی۔
خبر کا کوڈ : 879730
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش