1
0
Sunday 6 Dec 2020 11:33

بابری مسجد، تعمیر سے تغیر تک

بابری مسجد، تعمیر سے تغیر تک
تحریر: جاوید عباس رضوی

1528ء میں مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے وزیر میر باقی نے بابری مسجد بنوائی تھی۔ اس کے بعد سے مسلسل تقریباً ساڑھے تین سو سال 1857ء تک اس مسجد میں باقاعدہ طور پر پابندی سے پانچ وقت کی نماز ادا ہوتی رہی۔ 1857ء میں بھارت کی پہلی جنگ آزادی ہوئی، جسے کچلنے کے لئے انگریزوں نے ہزاروں مسلم، ہندو جیالوں کا خاتمہ کیا۔ ہندو مسلم اتحاد کو توڑنے کے لئے انگریزوں نے اپنے چند مخبروں و ایجنٹوں کا سہارا لیا اور نفرت کا بیج بونے کے لئے اس مسجد کو رام کی جائے پیدائش بتانا شروع کر دیا۔ 1856ء میں ہی مسجد کے باہر چبوترے کی دعویداری کرتے ہوئے وہاں پوجا شروع کر دی گئی، اس کے 30 سال بعد 1886ء میں چبوترے پر ہی مندر بنانے کی درخواست کی گئی جسے اس وقت کے مجسٹریٹ نے رد کیا۔ اس دوران 1949ء تک بابری مسجد میں نماز جاری رہی جسے خود بھارتی سپریم کورٹ نے بھی قبول کیا تھا۔ پھر شب کی تاریکی میں چند شرپسند عناصر مسجد میں مورتیاں رکھتے ہیں۔ مورتیاں رکھنے والوں کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر درج کی اور سپریم کورٹ نے مورتیاں رکھنے کو غیر قانونی قرار دیا اور تو اور اس وقت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے مسجد سے مورتی ہٹانے کا حکم بھی دیا تھا جسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

معاملہ بڑھتے دیکھ کر سپریم کورٹ نے مسجد کو تالا لگانے اور نمازیوں کو مسجد سے 200 میٹر دور رہنے کی ہدایت جاری کی۔ 1986ء میں عدالت میں ایک عرضی دائر ہوتی ہے کہ پوجا کے لئے عام لوگوں کو مورتیوں کے پاس جانے کی اجازت دی جائے۔ اس عرضی پر عدالت مسجد کا دروازہ کھولنے اور وہاں ہندوؤں کو پوجا کی اجازت دے دیتی ہے۔ اس درمیان کانگریسی لیڈروں کی پشت پناہی سے 1989ء میں آر ایس ایس، بجرنگ دل، وی ایچ پی اور شیو سینا ایل کے اڈوانی کی سربراہی میں ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ ان فسادات میں سینکڑوں ہندو اور مسلم اپنی جان گنوا بیٹھے۔ 6 دسمبر 1992ء کو آر ایس ایس کے اہم لیڈران و کارکنان بابری مسجد کے قریب جمع ہوتے ہیں۔ ملک بھر سے آئے ہوئے ہندوؤں کو اکسایا جاتا ہے اور وہ ساڑھے چار سو سال پرانی اس مسجد کو شہید کر دیتے ہیں۔

بالکل دن کی روشنی میں مقامی و عالمی میڈیا کے سامنے بابری مسجد گرائی جاتی ہے۔ ویڈیوز بنتی ہیں، تصاویر بنتی ہیں اور رام کے نام پر بھارت میں سیاسی پارٹیاں فسادات کرواتی ہیں، مسلمانوں اور ہندوؤں کے اس خون سے لیڈران اپنی دکانیں سجاتے ہیں۔ مسجد توڑنے والے لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوتی ہے، پھر الٰہ آباد ہائی کورٹ میں زمین کی ملکیت سے مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ الٰہ آباد ہائیکورٹ کے تین جج 30 ستمبر 2010ء کو مساوات کو بنیاد بتاتے ہوئے اپنے فیصلہ میں مسجد کی 2.77 ایکڑ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرکے تیسرا حصہ سنی وقف بورڈ کو دینے کا حکم دیتے ہیں۔ مسجد شہید کئے جانے کے 28 سال بعد ستمبر 2020ء میں سبھی 32 ملزموں کو عدالت ثبوتوں کے فقدان پر بری کر دیتی ہے جبکہ عدالت کے باہر وہی ملزم کہتے ہیں کہ انہوں نے مسجد توڑی تھی، اگر عدالت سے سزا ملتی تو وہ اسے خوشی سے قبول کر لیتے۔

عدالت کے فیصلے کے بعد تجزیہ کاروں نے اسے سیکولرزم کو منہدم کرنے کا دوسرا دن بتایا۔ بعض افراد نے کہا کہ فیصلہ تو ہوا لیکن انصاف نہیں۔ بہرحال شروع سے آخر تک بابری مسجد کا معاملہ جو بھی رہا، اس میں مسلم طبقہ کی جانب سے ہر بار پوری طرح عدالت پر بھروسہ جتایا گیا، ہر بار امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی گئی۔ بھارتی مسلمان اب بھی چاہتے ہیں کہ مسجد کی جگہ مسجد ہی بنائی جائے لیکن اس دیو نما جمہوریت سے اسے اب کوئی امید باقی نہیں رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ یہ فیصلہ عقیدے کی بنیاد پر نہیں دیا گیا ہے، مسلمانوں نے بھی پہلے ہی دن سے ملک کی عدلیہ پر غیر متزلزل یقین کا اظہار کیا تھا، اس سے بھی مسلمانوں کو امید تھی کہ فیصلہ ثبوتوں کی روشنی میں سنایا جائے گا، لیکن ملک کی عدالت عظمٰی نے جو فیصلہ سنایا، وہ ملک کی اکثریت کو تو خوش کرسکتا ہے، لیکن اسے مبنی بر انصاف نہیں کہا جا سکتا۔

جب بابری مسجد کی حقیقت کو تسلیم کیا گیا تو ثبوتوں کی روشنی میں ملکیت کا دعوٰی کرنے والوں کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیئے تھا، لیکن افسوس ایسا نہیں ہوسکا۔ عدالت عظمٰی کے فیصلے کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ نے پانچ ایکڑ زمین کی خیرات ٹھکرا دی اور ریو پٹیشن دائر کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ عجیب و غریب فیصلہ ہے، کیونکہ عدالت اپنی ہی تحقیقات کی بنیاد پر منصفانہ فیصلہ دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم ماہر قانون نے بھی اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔ سپریم کورٹ سے 2012ء میں سبکدوش ہوئے جسٹس گنگولی نے کہا کہ اگر بابری مسجد شہید نہیں ہوتی اور ہندو سپریم کورٹ سے رجوع کرتے اور کہتے کہ رام کی جائے پیدائش مسجد کے اندر ہے تو کیا عدالت مسجد کو شہید کرنے کا حکم دیتی۔؟ غرض کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے تمام ذی شعور  افراد کو ذہنی کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج کا دن یعنی 6 دسمبر بھارتی تاریخ کا ایسا دن ہے، جسے تا قیامت یاد رکھا جائے گا۔ 6 دسمبر کو بھارت کے مسلمان بابری مسجد کی شہادت کو لیکر احتجاج کرتے ہیں اور اسے یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 901865
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نورسید
Pakistan
(بابری مسجد، تعمیر سے تغیر تک
اسلام ٹائمز: مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم ماہر قانون نے بھی اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔ سپریم کورٹ سے 2012ء میں سبکدوش ہونیوالے جسٹس گنگولی نے کہا کہ اگر بابری مسجد شہید نہیں ہوتی اور ہندو سپریم کورٹ سے رجوع کرتے اور کہتے کے رام کی جائے پیدائش مسجد کے اندر ہے تو کیا عدالت مسجد کو شہید کرنیکا حکم دیتی۔؟ غرضیکہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے تمام ذی شعور افراد کو ذہنی کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج کا دن یعنی 6 دسمبر بھارتی تاریخ کا ایسا دن ہے جسے تا قیامت یاد رکھا جائیگا۔ 6 دسمبر کو بھارت کے مسلمان بابری مسجد کی شہادت کو لیکر احتجاج کرتے ہیں اور اسے یوم سیاہ کو طور پر مناتے ہیں۔)

افسوس یہ کہ ایک بابری مسجد اور دوسرا بیت المقدس ہے جو دشمن کے قبضہ میں ہے۔!
بھارتی مسلمانوں کا حال بھی فلسطینیوں جیسا ہے
اور فلسطینی یہودیوں اور کشمیر و ہند کے مسلمان ہندؤؤں کے مظالم کا شکار ہیں۔
ہماری پیشکش