0
Monday 21 Dec 2020 13:18

غير الله سے مدد طلب کرنا (2)

غير الله سے مدد طلب کرنا (2)
تحریر: انجنئیر سید حسین موسوی

دلیل:
یہی توحید افعالی ہے جو قرآن مجید میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ پہلے ہم قرآن مجید سے اس اصول کو بیان کرنے والی ایک آیت پیش کریں گے اور بعد میں اس اصول کی بنا بر توحید افعالی کی قرآنی مثالیں دیکھیں گے۔
توحید افعالی کا بنیادی قرآنی اصول:
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، "فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلٰكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّهَ رَمَىٰ"۔ (الأنفال/17) پھر حقیقت یہ ہے کہ (جنگ بدر میں) تم نے ان کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا، اور (اے نبی!) تم نے (وہ پتھریاں) نہیں پھینکیں، جب تم نے پھینکیں، بلکہ اللہ نے پھینکیں۔ جنگ بدر میں مسلمان مجاہدین نے جن کفار کو قتل کیا تھا ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ انہیں تم نے نہیں اللہ نے قتل کیا ہے جبکہ معلوم ہے کہ وہ مجاہدین ہی کی تلواروں سے مارے گئے تھے۔ پھر مجاہدین سے اس فعل کی نفی کس رخ سے کی جا رہی ہے؟ اس کا جواب آیت کے اگلے حصہ میں وضاحت سے دیا گیا ہے۔

آیت کے اس حصہ میں پہلے فعل "رمیٰ" کی نبی اکرم سے عمل میں آنے کی نفی کی گئی اور فرمایا، "وَمَا رَمَيْتَ" تم نے پتھر نہیں پھینکے، پھر اسی "رمیٰ" کے فعل کی نبی اکرم سے عمل میں آنے کی تصدیق کی گئی ہے، إِذْ رَمَيْتَ۔ جب تم نے پھینکے اور اسی فعل کی نسبت اللہ سے دی گئی ہے، "وَلٰكِنَّ اللّهَ رَمَىٰ"۔ بلکہ اللہ نے پھینکے۔ ارشاد ہو رہا ہے، وَمَا رَمَيْتَ تم نے نہیں پھینکے۔ اور پھر کہا جارہا ہے إِذْ رَمَيْتَ جب تم نے پھینکے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے جس چیز کا انکار ہے بعد میں اسی چیز کا اقرار ہے کیونکہ یہ کھلی تضاد بیانی ہو گی جو اس پاک ذات سے بعید ہے۔ بلکہ اقرار فاعل قریبی کی حیثیت سے ہے اور انکار فاعل حقیقی کی حیثیت سے ہے۔ یعنی یہ کام آپ نے اپنے قوت سے انجام نہیں دیا اس لیے آپ فاعل حقیقی نہیں ہیں بلکہ آپ فاعل قریبی ہیں یعنی اللہ کی دی ہوئی قوت سے فعل انجام دیتے ہیں۔

آسان زبان میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کا فعل مالک کی حیثیت سے ہے اور انسان کا فعل اس کے بندے ہونے کی حیثیت سے ہے اور یہ بات واضح ہے کہ بندے کا اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا اس کی ہر چیز اس کے مالک کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس آیت میں رمیٰ کا فعل نبی سے بھی منسوب ہے، إِذْ رَمَيْتَ جب تم نے پھینکیں اور اللہ تعالیٰ سے بھی اللّه رَمَى اللہ نے پھینکیں۔ قرآنی توحید افعالی یہی ہے کہ کائنات میں جو بھی فعل کسی مخلوق سے ظاہر ہو رہا ہے جیسے سورج روشنی دیتا ہے اور نبی ہدایت کرتا ہے تو یہ فعل سورج یا نبی سے بھی منسوب ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے بھی منسوب ہوگا لیکن اس فعل میں مخلوق فاعل قریبی ہے اور اللہ فاعل حقیقی ہے لیکن یہ بھی واضح ہونا چاہیئے کہ کوئی فعل اللہ تبارک و تعالیٰ اور مخلوق مل کر انجام نہیں دیتے ورنہ شرک ہو جائیگا بلکہ مخلوق اللہ تبارک و تعالیٰ کے طول میں ہے۔ مخلوق اللہ تبارک و تعالیٰ سے وجود و قوت حاصل کرکے فعل انجام دیتی ہے، جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ مخلوق کو وجود و قوت عطا کرکے اس فعل کا فاعل بنتا ہے۔

سورج اللہ تبارک و تعالیٰ سے فیض حاصل کرکے روشنی دیتا ہے اور نبی اللہ سے ہدایت حاصل کرکے امت تک پہنچاتا ہے لیکن روشنی اور ہدایت کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے اس لیے ہم کہیں گے کہ ہمیں اللہ روشنی دیتا ہے اور اللہ ہدایت دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ" ۔۔۔ (الأنفال/17)۔ تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے قتل کیا ہے جبکہ جنگ احد میں ان ہی مجاہدین کے لیے سوره نساء میں فرماتا ہے، "وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ" ۔۔۔(آل عمران/152) اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا جب تم اللہ کے اذن سے انہیں قتل کر رہے تھے۔ کیوںکہ مسلمان مجاہد اللہ کے ہی اذن سے کافرین کو قتل کرتا ہے اسلئے اس قتل کی نسبت اللہ کی طرف بھی ہے اور یہ نسبت حقیقی ہے جبکہ اسی قتل کی نسبت مجاہد کی طرف بھی ہے جو قریبی نسبت ہے۔

دوسری مثال:
قوت اور طاقت کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، "أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً وَ أَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ"۔ (البقرة/165) بیشک تمام قوت اللہ کی ہی ملکیت ہے اور وہ سخت سزا دینے والا ہے۔ اور ہم کہتے ہیں، "بِحَولِ اللّٰهِ وَ قُوَّتِہ اَقُومُ وَ اَقۡعُد" میں اللہ کی دی ہوئی قوت و طاقت سے اٹھتا اور بیٹھتا ہوں۔ اللہ کی قوت اور مخلوق کی قوت میں صرف یہ فرق نہیں ہے کہ اللہ کی قوت لامحدود ہے اور مخلوق کی قوت محدود ہے! بلکہ مخلوق کے پاس جو بھی قوت ہے وہ اسے اللہ نے ہی دی ہے اسلیے مخلوق کی قوت کا بھی اصل مالک اللہ ہی ہے۔ اس بنیاد پر اگر قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ کوئی فعل اپنی ذات سے منسوب کرے تو اس کا یہ لازمی مطلب نہیں ہے کہ اب یہ فعل کسی اور سے منسوب نہیں ہوگا اور کوئی اگر اس فعل کی نسبت کسی مخلوق سے دے گا تو وہ شرک کرے گا!

قرآنی مثالیں:
اس مادی کائنات کا نظام اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ اس میں اللہ تبارک و تعالی کا کوئی بھی فعل بغیر وسیلے کے وجود میں نہیں آتا۔ بلکہ ہر فعل کے لیے اس نے وسیلے منتخب کیے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ وسیلہ مادی ہو اور ہمیں دکھائی دے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ غیر مادی ہو اور ہمیں اس کا احساس نہ ہو ۔ قرآن مجید میں اس اصول کو واضح کرنے والی آیات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں کچھ مثال پیش کی جاتی ہیں:
1۔ موت:
موت کے وقت نفس کو قبض کرنے کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی طرف بھی دیتا ہے اور اپنے بندوں کی طرف بھی، "اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا" (الزمر/42) موت کے وقت اللہ نفوس کو وفات دیتا ہے۔ پھر اسی فعل کی نسبت ملک الموت کی طرف بھی دیتا ہے، "قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ" (السجدة/11) کہو! تمہیں ملک الموت وفات دے گا۔ آگے چل کر اسی فعل کی نسبت اپنے دوسرے فرشتوں کی طرف دیتا ہے، "إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلآئِكَةُ" (النساء/97) بے شک جن لوگوں کو ملائکہ وفات دیتے ہیں۔

یہاں تک کہ وفات کی نسبت خود موت کی طرف بھی دی گئی ہے، "حَتَّىَ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً " (النساء/15) جب تک انہیں موت وفات دے یا ان کے لیے اللہ کوئی دوسرا راستہ نکالے۔ اس سے معلوم ہوا کہ موت کا حقیقی فاعل اللہ تبارک و تعالیٰ ہے جبکہ اللہ کا یہ فعل ملک الموت کے ذریعہ جاری ہوتا ہے اور کئی صورتوں میں ملک الموت کا یہ فعل اس کے ماتحت فرشتوں سے جاری ہوتا ہے۔ پھر بھی وفات کا حقیقی فاعل اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے جبکہ قریبی و مجاری فاعل ملک الموت اور دیگر فرشتے ہیں۔ اس لیے وفات کے فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ سے بھی ہے تو مخلوق سے بھی ہے۔ اسی بنیاد پر موت کے فعل کے نسبت ملک الموت اور فرشتوں کی طرف دینا کسی بھی صورت ‏ شرک نہیں ہے۔

2. حیات:
اللہ تبارک تعالیٰ ہی ہر چیز کو حیات عطا کرنے والا ہے۔ "وَهُوَ يُحْيِي المَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"۔(الشورى/9) وہی مردے کو حیات دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ زمین کو بھی وہی زندہ کرتا ہے، "وَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَكَذَلِكَ تُخْرَجُونَ" (الروم/19) اور وہ زمین کو مردہ ہونے کے بعد اسے زندہ کرتا ہے۔ تمہیں بھی اسی طرح نکالے گا، لیکن قرآن مجید بتاتا ہے کہ اللہ کے اس حیات عطا کرنے والے فعل کے بھی وسیلے ہیں۔ زمین کو زندگی عطا کرنے کے وسیلے کے طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ پانی کا تعارف کراتا ہے، "وَ يُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاء مَاء فَيُحْيِي بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ" (الروم/24) وہ آسمان سے پانی نازل کرتا ہے اور اس کے ذریعے زمین کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ بیشک عقل والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔ قرآن مجید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اسی فعل حیات کا وسیلہ بتاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ خود فرماتے ہیں، "وَ أُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ" (آل عمران/49) میں اللہ کے اذن (قوت) سے مردے کو حیات دونگا۔

اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کو مخاطب کرکے کہتا ہے، "وَ إِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي" (المائدة/110) جب تم میرے اذن سے مردے کو (قبر سے) نکال کر کھڑا کرتے تھے۔
اولاد دینے والا اللہ تعالیٰ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے اس فعل کے جاری ہونے کا بھی وسیلہ والدين ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو بغیر باپ کے ہیں جن کے متعلق فرمایا، "إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَ رُوحٌ مِّنْهُ" ...(النساء/171) حضرت مسیح جو عیسیٰ بن مریم ہیں، اللہ کے رسول اور اسکا کلمہ ہیں جو اس نے مریم کو دیا تھا اور اس کی طرف سے روح ہیں۔ لیکن ان کے بھی عطا ہونے کا وسیلہ ہے۔ فرمایا، "وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا (مريم/16) "فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا (مريم/17) قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا (مريم/18) قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا (مريم/19)

اور اس کتاب میں آپ مریم کا ذکر بھی کیجئے جبکہ وہ اپنے گھر والوں سے کنارہ کر کے ایک ایسے مکان میں جا بیٹھی جو مشرق کی جانب تھا پھر ان لوگوں کے سامنے انہوں نے پردہ ڈال لیا۔ پھر ہم نے ان کے پاس اپنا فرشتہ بھیجا سو وہ ان کے سامنے ایک پورا آدمی بن کر ظاہر ہوا (مریم نے) کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو پرہیزگار ہے اس نے کہا کہ میں تو تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ تمہیں پاکیزہ لڑکا دوں۔ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے حضرت مریم کو حضرت عیسیٰ عطا کیے جانے کے ذریعہ کو "روح" کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زمین کو زندہ کرنے کا حقیقی فاعل اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ جبکہ اس کا مجاری فاعل پانی ہے۔ بندوں کو زندگی دینے والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہے یعنی اس فعل کا حقیقی فاعل اللہ تبارک و تعالیٰ ہے لیکن حضرت عیسیٰ کو اللہ نے اپنے اس فعل کے لیے واسطہ بنایا تھا۔ اسی طرح حضرت مریم کو بیٹا عطا کرنے والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے لیکن ذریعہ روح ہے۔ حیات دینے کے فعل کی نسبت اللہ سے بھی ہے اور مخلوق سے بھی ہے۔ اسی بنیاد پر اگر ہم کہیں کہ اسے حضرت عیسی علیہ السلام نے زندگی دی ہے کسی بھی طرح شرک نہیں ہوگا۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 903644
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش