1
Monday 28 Dec 2020 19:31

غیر اللہ سے مدد مانگنا (4)

غیر اللہ سے مدد مانگنا (4)
تحریر: انجنئیر سید حسین موسوی

وسیلہ کی اقسام:
معلوم ہونا چاہیئے کہ وسیلہ کا عقیدہ سلفی حضرات سمیت تمام مسلمانوں کا ہے کیونکہ یہ تو حکم خدا ہے، "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَ جَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" (المائدة/35) اے ایمان والو! تقوای الٰھی حصل کرو اور اس (اللہ) تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تمہیں نجات مل سکے۔ اختلاف وسیلہ کی وسعت میں ہے۔ اس حوالے سے وسیلہ کی بنیادی طور پر چار اقسام ہیں جو جائز ہیں جبکہ پانچویں قسم نہ صرف جائز نہیں بلکہ شرک ہے۔ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

۱۔نیک اعمال:
انسان اللہ تبارک و تعالٰی کی بارگاہ میں اپنے کسی نیک عمل کو واسطہ قرار دے جیسے اللہ، رسول اور قیامت پر ایمان، تقویٰ، نماز، روزہ اور صدقہ وغیرہ۔ یہ وسیلہ بالاتفاق جائز ہے۔ سلفی حضرات آیت وسیلہ "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ" کو اسی معنی میں محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ
الف:
اللہ تبارک و تعالی نے تقوی ٰکے بعد وسیلہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ وسیلہ اختیار کرنے کے بعد پھر جہاد کا حکم دیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے یہاں وسیلہ سے مراد نیک اعمال نہیں ہیں کیونکہ تمام نیک اعمال تقویٰ میں شامل ہیں۔
ب: نیک اعمال بھی غیراللہ ہیں۔ اگر اصول یہ ہے کہ غیراللہ کا وسیلہ شرک ہے تو پھر نیک اعمال کا وسیلہ بھی شرک ہونا چاہیئے۔

۲۔ کسی کی دعا ء کو واسطہ بنانا:
جیسے ہم کسی مومن کو کہتے ہیں کہ میرے لیے دعا کرے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے پاس بھی لوگ آتے تھے اور دعا کی درخواست کرتے تھے اور انبیاء علیہم السلام انکے لیے دعا کرتے تھے۔ اس قسم کا وسیلہ سلفی اور وہابی حضرات کی نظر میں بھی جائز ہے البتہ صرف انکی زندگی میں اور انکی موت کے بعد نہ صرف جائز نہیں سمجھتے بلکہ اسے شرک بھی سمجھتے ہیں۔ جبکہ آخرت اور قیامت میں پھر نبی کی دعا اور شفاعت کو جائز جانتے ہیں۔ باقی اسلامی فرقے اسے زندگی، موت، دنیا اور آخرت دونوں میں جائز جانتے ہیں۔

۳۔ خدا کو کسی کے حق کا واسطہ دینا:
انسان خود اللہ تبارک و تعالی سے دعا مانگے لیکن کسی اللہ کے ولی کے حق کا واسطہ دے اور اس سے توسل کرے، جیسے کہے یا اللہ تجھے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حق کا واسطہ میری دعا قبول فرما۔ سلفی حضرات اس کو جائز نہیں جانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ کے اوپر کسی کا بھی حق نہیں ہے۔ جبکہ قرآن مجید فرماتا ہے، "ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُواْ كَذَلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِينَ"(يونس /103) پھر ہم اپنے رسولوں کو اور جو لوگ ایمان لائے انکو نجات دینگے مؤمنین کو نجات دینا ہمارے اوپر (انکا) حق ہے۔ "وَ كَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ" (الروم/47) اور ہم پر حق ہے کہ ہم مؤمنین کی نصرت کریں۔ لیکن یاد رہے کہ یہ حق ہم نے خدا پر قرار نہیں دیا بلکہ اس نے خود اپنے اوپر قرار دیا ہے۔

۴۔ کسی کی شخصیت کو اللہ کے فیض کا وسیلہ قرار دے کر اس سے مانگنا:
البتہ اس شخصیت کو اللہ کا بندہ اور محتاج قرار دینا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ باذن اللہ ہماری مدد کریگا۔ اس طرح کے وسیلے کو سلفی حضرات نہیں مانتے اور اسے شرک قرار دیتے ہیں جبکہ باقی اسلامی فرقے اس کو قبول کرتے ہیں۔

۵۔ کسی کی شخصیت کو وسیلہ قرار دینا:
اس عقیدے کے ساتھ کہ وہ شخصیت اللہ تبارک و تعالی سے بے نیاز (مستقل) ہوکر ہماری مدد کریگی۔ مشرکین مکہ کا وسیلہ بتوں اور شخصیات سے اسی قسم سے تھا۔ اس طرح کا وسیلہ بالاتفاق شرک ہے۔ برصغیر کے معروف دیوبندی عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم اپنی کتاب بوادر النوادر میں اسی مدد کو شرک قرار دیتے ہیں، باقی ارواح سے مدد طلب کرنے کو جائز کہتے ہیں۔ لکھتے ہیں، "چونواں غریبہ
در احکام اقسام استعانت بالمخلوق"

سوال:
طریق اربعین یعنی چلہ میں حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ ضیاء القلوب صفحہ ۵۵ میں تحریر فرماتے ہیں، "استعانت و استمداد از ارواحِ مشائخ طریقت بواسطۂ مرشد خود کردہ الخ۔۔۔۔"، استعانت و استمداد کے الفاظ ذرا کھٹکتے ہیں غیر اللہ سے استعانت و استمداد بطریقِ جائز کس طرح کرتے ہیں خالی الذہن ہونے کی تاویل و توجیہ بالکل جی کو نہیں لگتی ایسی بات ارشاد ہو جس سے قلب کو تشویش نہ رہے۔

جواب:
1۔ جو استعانت و استمداد بالمخلوق باعتقاد علم و قدرت مستقل مستمد منہ ہو شرک ہے۔
2۔ اور جو باعتقادِ علم و قدرت غیر مستقل ہو مگر وہ علم و قدرت کسی دلیل صحیح سے ثابت نہ ہو معصیت ہے۔
3۔ اور جو باعتقادِ علم و قدرت غیر مستقل ہو اور وہ علم و قدرت کسی دلیل سے ثابت ہو جائز ہے خواہ وہ مستمد منہ حیّ ہو یا میّت۔
4۔ اور جو استمداد بلا اعتقاد علم و قدرت ہو نہ مستقل نہ غیر مستقل پس اگر طریق استمداد مفید ہو تب بھی جائز ہے، جیسے استمداد بالنار والماء والواقعات التاریخیہ،
5۔ ورنہ لغو ہے۔

یہ کل پانچ قسمیں ہیں پس استمداد ارواح مشائخ سے صاحبِ کشف بالارواح کے لئے قسم ثالث ہے اور غیر صاحبِ کشف کے لئے محض ان حضرات کے تصور اور تذکرہ سے قسم رابع ہے کیونکہ اچھے لوگوں کے خیال کرنے سے ان کو اتباع کی ہمت ہوتی ہے اور طریق مفید بھی ہے اور غیر صاحبِ کشف کے لئے بدون قصد نفع تذکر و تصور قسم خامس ہے۔ ۱۸ ذیقعدہ ۱۳۲۰؁ھ۔ (بوادر النوادر طبع ادارہ اسلامیات لاہور۔2: صفحہ:83) ہم یہاں پر وسیلہ کے جواز میں ایک کلی بحث کرتے ہیں جبکہ تفصیلی چیزیں سوالات کے جوابات میں بیان کریں گے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 903647
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش