0
Thursday 28 Jan 2021 11:43

لال قلعہ پر لہراتے سِکھوں کے پرچم

لال قلعہ پر لہراتے سِکھوں کے پرچم
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

یہ شان بہت کم عمارات کو نصیب ہوتی ہے کہ وہ کسی شہر کی پہچان بن جاتی ہیں، اس شہر کا نام لیتے ہیں، اس عمارت کا نقشہ ذہن میں ابھرتا ہے۔ جیسے کراچی کے نام کے ساتھ ہی مزار قائد، اسلام آباد کے نام کے ساتھ ہی فیصل مسجد اور لاہور  آتے ہی مینار پاکستان کی تصویر ذہن میں آجاتی ہے۔ یہ سب عمارات ہماری تہذیب اور شناخت کو  بتاتی ہیں کہ بطور پاکستانی یہ عمارات ہمارے لیے نہایت ہی اہم ہیں۔ کچھ چیزیں بین الاقوامی شناخت اختیار کر لیتی ہیں، تہران کا آزادی ٹاور نظر آتے ہی ایران، پیرس کا ایفل ٹاور دکھتے ہی فرانس اور وائٹ ہاوس دکھتے ہی امریکہ ذہن میں آجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح دلی کا لال قلعہ بھی ہے، اس پر نظر پڑتے ہی ہندوستان ذہن میں آتا ہے۔ لال قلعہ ان تمام عمارات سے قدیم اور طاقت کا مرکز ہے، اس قلعے میں ہندوستان کے مستقبل کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔ سینکڑوں سالوں سے ہندوستان کی طاقت کی علامت ہے۔ مغل طرز تعمیر کا یہ شاہکار اس بات کا گواہ ہے کہ یہاں ایک بڑی مسلم سلطنت قائم تھی، جس نے صدیوں اس علاقے پر حکومت کی۔ اس حکومت نے اس خطے کی تہذیب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

کہا جاتا ہے کہ اردو زبان کی بنیادیں اسی دلی میں ٹھہرے لشکریوں اور اسی لال قلعے میں پڑیں۔ نسل در نسل دلی پر حکومت کرنے والے مسلم بادشاہ دلی سے عشق کرتے تھے، اسی لیے انہوں نے دلی میں عالی شان عمارات بنوائیں، جو ان کے اعلیٰ ذوق اور مسلمان ماہرین تعمیر کی مہارت کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ شاہ جہاں نے لال قلعہ کی تعمیر کرائی، اسی لیے شروع میں اسے شاہ جہاں قلعہ کہا گیا، ادب و احترام کی وجہ سے اسے قلعہ معلیٰ بھی کہا جاتا رہا، جس کی وجہ ظاہراً یہ تھی کہ یہاں بادشاہ رہائش پذیر ہوتا ہے۔ وقت نے اسے فقط لال قلعے تک محدود کر دیا اور ہندوستان کا آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر یہیں سے رنگون بھیجا گیا، جو آخری دم تک اس قلعے و شہر کے عشق میں گرفتار رہا اور آخر میں اپنی بدقستمی کا نوحہ کچھ یوں لکھا:
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں


جدید ہندوستان میں جس عمارت کو قومی نشان کے طور پر تمام مذاہب و خطوں کے لوگ، تمام تر اختلافات کے باوجود قبول کرتے ہیں، وہ یہی عمارت ہے۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریاستی ڈھانچے کے نشان کے طور پر یہ کسی استعمار کی بنائی عمارت نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستان کے بادشاہ کی ہدایت پر، ہندوستان کے پیسے سے اور ہندوستان کے کاریگروں کی مہارت سے بنا شاہکار ہے، جس کے چرچے ہر سو تھے۔ اسی لیے جب ملکہ برطانیہ بطور ملکہ ہند دلی آئی تو عوام کو اسی جگہ درشن کرایا۔ اب تو خیر حالات تبدیل ہو رہے ہیں، ہندوستان کی موجودہ ہندتوا سرکار ہر اس عمارت اور شہر کا نام و نشان مٹانے کے درپے ہے، جس کا کسی بھی طرح سے مسلم شناخت سے کوئی تعلق ہے، دیکھتے ہیں لال قلعہ کب تک مسلمان رہ پاتا ہے۔

ہندوستان میں تعصب اور عدم برداشت کی ہوا چل نکلی ہے، فیض آباد ایودھیا ہوچکا ہے،حیدرآباد کو بھاگ نگر کیے جانے کے سندیشے ہیں، الہ آباد کب کا پریا گراج ہوچکا ہے اور شہروں کے ساتھ ساتھ روڈوں تک کے نام تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ انڈین آرمی کے ہیرو جنرل عثمان کی قبر تک کو صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے توہین آمیز رویئے کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر وہ چیز نشانہ پر ہے، جس کا تعلق ہندتوا کی فکر سے مختلف ہے۔ مجھے تو حیرت ہوئی کہ اب انڈیا میں ٹیپو سلطان بھی متفقہ ہیرو نہیں رہا، یعنی وہ شخص جس نے پوری زندگی برطانوی استعمار سے لڑتے اور ہندو مسلم بھائی چارے کو پروان چڑھاتے گزار دی، اب وہ بھی ہندتوا کے پیمانہ حب الوطنی پر پورا نہیں اترتا، کیونکہ وہ اسلام کے ماننے والا تھا۔

لال قلعہ نے اٹھارہ سو ستاون میں بڑا معرکہ دیکھا، جب آزادی کے متوالے اپنی جان سے گزر گئے اور بہت سوں کو بعد میں توپوں سے اڑا دیا گیا۔ پھر طاقت کا مرکز رہا اور آزادی کے طلبگار اسی لال قلعے کے تہہ خانوں میں اپنی ہڈیوں کا گوشت کم کرتے رہے۔ آزادی کے بعد بھی یہ ایک اہم مقام کے طور پر موجود رہا اور ہندوستان میں اس کی ایک اہمیت رہی۔ ہندوستان کو چھوڑیں، یہاں وطن عزیز میں بھی اس کی اپنی اہمیت رہی۔ ہمارے یہاں کچھ گروہ ہمیشہ لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کی مسحور کن تقریر کرتے ہیں۔ اس پر اتنے نعرے لگتے ہیں، کبھی کبھی یقین ہونے لگتا ہے کہ عنقریب ہم بھی گھوڑے پر سوار ہو کر لاہور سے براستہ امرتسر دلی پہنچیں گے اور لال قلعے پر پرچم لہرائیں گے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لال قلعہ برصغیر کے لوگوں کے دلوں میں بستا ہے، جس سے ہر کوئی تعلق رکھنا چاہتا ہے۔

بھارت کا کسان پچھلے کئی ماہ سے احتجاج پر ہے، شدید سردی میں زیر آسمان  موسم کی شدت کا مقابلہ کر رہا ہے۔ کسان صدیوں سے اپنی زمین کا مالک ہے اور اسی شعور نے ایک روایتی منڈی کے نظام کو قائم کیا ہے، جس میں کسان اپنی اجناس فروخت کرتا ہے۔ مودی کی شکل میں قابض استعمار اس طرح کے کسان قوانین لایا ہے، جس میں اس بات کا خطرہ میں موجود ہے کہ کسان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا اور کسان ایک دن مجبور ہو کر زمین بیچ دے اور ایک ملازم کی طرح زندگی بسر کرے گا۔ کسان کی نفسیات یہ ہے کہ وہ اپنی زمین کی طرف کسی بھی خطرے کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرتا۔ اسی لیے عدالتوں میں مقدمات کی ایک بڑی تعداد زمین اور اس سے متعلقہ معاملات کی ہے۔

انسانی ہمدردی اور بنیادی جمہوری روایات سے عاری مودی حکومت نے کسانوں سے ریاستی جبر سے نمٹا ہے۔ ان پر دلی کے راستے بند کر دیئے گئے، ان کے مطالبات کو منظور نہیں کیا گیا اور انہیں تھکا دینے کی حکمت عملی پر عمل کیا گیا۔ کسان نے  خود کو ہندوستانی ریاست سے بیگانہ محسوس کیا ہے، جو ان کے دکھ درد کو محسوس نہیں کرتی۔ ان کسانوں نے یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر ریلی دلی لے جانے کا اعلان کیا۔ پولیس نے ریاستی جبر سے روکنے کی کوشش کی، مگر کسان دلی میں داخل ہوگئے، کسانوں نے کہا تھا کہ ہم لال قلعے پر اپنا پرچم لہرائیں گے۔ جب کسان دلی میں پہنچے تو یہ لوگ لال قلعہ کی طرف بڑھے اور اس پر سکھوں کا مذہبی پرچم لہرا دیا۔

یہاں ہونے والی دھکم پیل اور مودی استعمار  کے جبر سے آزادی کے نعروں نے لال قلعہ کو دوبارہ جبر کے خلاف تحریک میں اہم مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ لال قلعہ جو سرکاری تقریبات اور سیاحوں کی جگہ بن گیا، اب انقلاب اور ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا مرکز بن گیا ہے اور اس کا مزاحمتی کردار جو پس منظر میں چلا گیا تھا، اب کھل کر سامنے آگیا ہے۔ کچھ گھس پیٹھیوں نے توڑ پھوڑ کی، جس کا الزام کسانوں پر لگایا، مگر کسانوں نے تشدد کرنے والے کئی لوگوں کو پکڑ لیا اور ہندتوا کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ لال قلعہ پر جب سِکھی جھنڈے لہرائے گئے، یقیناً لال قلعہ نے سکون محسوس کیا ہوگا کہ اب بھی وہ آزادی کے جیالوں کے لیے نشان منزل ہے اور یہی لال قلعہ کا برصغیر میں مٹتا ہوا مقام تھا، جسے اس تحریک نے زندہ کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 912854
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش