0
Wednesday 11 Aug 2021 20:25

سعودی عرب کی ساکھ تباہ و برباد

سعودی عرب کی ساکھ تباہ و برباد
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

سعودی عرب کے غاصب صیہونی حکومت سے تعلقات اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تعلقات میں حالیہ قربتیں بن سلمان کی دین ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد کشنر نے بن سلمان سے ملکر علاقے میں اسرائیل کے لئے جو راستے ہموار کئے ہیں اور اسرائیل کو سیاسی تنہائی سے نکالنے کی کوشش کی ہے، اس کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ فلسطین کاز کے خلاف آل سعود کی کارروائیاں تو جاری ہی تھیں، اب اس فلسطین دشمن آل سعود نے حماس اور فلسطین کے حامیوں کو بھی اپنے مذموم اہداف کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق آل سعود کی درباری عدالت نے سعودی عرب میں مقیم تقریباً ساٹھ فلسطینیوں کو جن میں حماس کے سابق نمائندے ڈاکٹر محمد الخضری بھی شامل ہیں، طویل المیعاد قید کی سزائيں سنائی ہيں، تاکہ سعودی ولیعہد بن سلمان صیہونی حکومت کی زیادہ سے زیادہ خوشنودی حاصل کرکے غاصب ریاست کے ساتھ  ریاض کے تعلقات کی باقاعدہ برقراری کا راستہ ہموار اور اس کا اعلان کرسکے۔ بعض خبری ذرائع نے بتایا کہ فروری دو ہزار انیس میں یہ خبر منظر عام پر آئی تھی کہ ڈاکٹر محمد الخضری کو چند فلسطینیوں کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا، لیکن یہ فلسطینی کب سے جیل میں ہیں، کسی کو اس کی اطلاع نہيں تھی۔

سعودی عرب کے شاہی اہلکاروں اور سکیورٹی افسران نے فروری دو ہزار انیس میں سعودی عرب میں مقیم ساٹھ فلسطینیوں اور اردنی شہریوں کو جن کا تعلق استقامتی تحریکوں سے ہے، گرفتار کر لیا تھا، البتہ حماس کے سابق نمائندے محمد الخضری پر الزام ہے کہ وہ سعودی عرب میں رہ کر حماس کے لئے مالی فنڈ جمع کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے بیٹے کو بھی گرفتار کیا گيا تھا اور اب یہ خبر آئی ہے کہ ان سبھی فلسطینیوں کو آل سعود کی نمائشی عدالت نے پانچ سال سے بائیس سال تک کی قید کی سزا سنائی ہے۔ حماس نے ایک بیان جاری کرکے سعودی عدالت کے فیصلے کو ظالمانہ قرار دیا ہے اور اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ حماس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان افراد کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ فلسطین اور فلسطینی عوام کے حامی ہيں اور ان کی مدد کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ سعودی عدالت نے ان کے بارے میں ریمارکس دیئے ہیں۔ جہاد اسلامی فلسطین اور دیگر فلسطینیی تنظیموں نے سعودی عدالت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور ان فلسطینیوں کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بن سلمان کے ولی عہد بن جانے کے بعد آل سعود حکومت کی فلسطینیوں کے سلسلے میں بالخصوص اور مغربی ایشیاء کے بارے میں بالعموم پالیسیوں میں واضح تبدیلی آئی ہے اور اس نے صیہونی حکومت کو خوش کرنے کے لئے جہاں ایک عرصے سے فلسطینی کاز کو نقصان پہنچایا ہے، وہیں اب اس نے سعودی عرب میں سرگرم فلسطینیوں کو قید کرکے امریکا اور صیہونی حکام کی مزید خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کی باقاعدہ برقراری کا راستہ ہموار کیا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود مغربی ایشیاء کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت کے اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف یہ کہ فلسطینی کاز کمزور نہيں ہوگا بلکہ فلسطینی قوم میں اپنے طور پر جدوجہد اور غاصبوں کا مقابلہ کرنے کا عزم پہلے سے بھی زیادہ مستحکم ہوگا اور امت اسلامیہ کی نظر میں آل سعود پہلے سے بھی زیادہ حقیر و ذلیل ہو جائے گی، جو مسلسل مسلمانوں کے قبلہ اول کے ساتھ خیانت میں لگی ہوئی ہے۔

حماس نے ایک بیان میں سعودی عرب کی عدلیہ کی جانب سے فلسطین و اردن کے شہریوں کے خلاف ظالمانہ حکم کی شدید مذمت کی ہے۔ تحریک حماس نے ریاض کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعودی عرب میں قید فلسطین و اردن کے شہریوں کو فوری طور پر رہا کرے، جنھیں بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار اور پھر جھوٹے مقدمے میں سزا سنا دی گئی ہے. ادھر فلسطین کی اسلامی جہاد تنظیم نے سعودی عرب میں قید فلسطینی اور اردنی قیدیوں کے خلاف عدالتی فیصلوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ فلسطین اور اردن کے ان شہریوں کو فلسطینی استقامت کی حمایت کی وجہ سے عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔ اسلامی جہاد تنظیم نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ سعودی عرب میں رہنے والے کچھ فلسطینی شہریوں کے خلاف فلسطینی استقامت کی حمایت کے الزام میں سعودی عرب کی عدالت کے فیصلے کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہيں۔

 فلسطین کی اسلامی جہاد تنظیم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی عدالت کا ظالمانہ اور غیر منصفانہ فیصلہ نہ تو اسلامی شریعت کے قوانین سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی مسجد الاقصیٰ اور مظلوم فلسطینیوں کے دفاع کے فریضے کے مطابق ہے۔ یمن کی تحریک انصار اللہ نے بھی سعودی عرب کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کو سنائی گئیں سزاؤں کی مذمت کی ہے۔ ارنا نیوز کے مطابق انصار اللہ یمن کے سیاسی دفتر نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں سعودی عرب میں مقیم فلسطینی باشندوں کے خلاف آل سعود کے عدالتی فیصلوں اور سزاؤں کی مذمت کی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کے سعودی فیصلے درحقیقت فلسطینی کاز کے پیکر میں خنجر گھوپنے اور غاصب صیہونی ریاست کے ساتھ اعلان دوستی کے مترادف ہیں۔ بیان میں مزید آیا ہے کہ سعودی حکام اپنی حقیقت و ماہیت کے پیش نظر غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے مشتاق ہیں۔

انصاراللہِ یمن نے اسلامی اقوام سے اپیل کی کہ وہ سعودی عرب میں قید فلسطینی باشندوں سے اظہار یکجہتی و ہمدردی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آزادی کے لئے آل سعود حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ یمن کی استقامتی تنظیم نے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطینی باشندوں کی آزادی کے عوض سعودی قیدیوں کو آزاد کرنے کے لئے بھی آمادہ ہے۔ اس سے پہلے لبنانی ذرائع ایسی خفیہ دستاویز جاری کرچکے ہیں، جس میں سعودی شہزادوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے، فلسطینیوں کی واپسی کے حق کو ختم کرنے اور بیت المقدس کو عالمی شہر بنانے کی سازش کا انکشاف کیا گیا ہے۔ اس دستاویز سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ سعودی عرب، اسرائیل کے مفاد میں تحریک مزاحمت اور خاص طور سے حزب اللہ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ صیہونی حکومت کے ساتھ اسلامی ملکوں کا رابطہ مسلمانوں کے نقصان میں ہے اور ان روابط سے سعودی عرب کی ساکھ  بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سعودی عرب کو چاہیئے کہ ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے اسلامی رویہ اختیار کرے، اس لئے کہ علاقے میں وہ امریکہ و اسرائیل کے اکسانے پر ہی اس طرح کے اقدامات انجام دے رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 948071
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش