0
Monday 16 Aug 2021 01:32

افغانستان پر طالبان کا حملہ!

افغانستان پر طالبان کا حملہ!
رپورٹ: عدیل زیدی

افغانستان میں تیزی کے کیساتھ حالات تبدیل ہو رہے ہیں، گذشتہ 72 گھنٹوں کے دوران تو تاریخی واقعات دیکھنے کو ملے ہیں، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طالبان افغان دارالحکومت کابل میں داخل ہوچکے ہیں، تاہم طالبان قیادت کی جانب سے کسی قسم کے خون خرابے سے گریز کے احکامات جاری کئے گئے ہیں، اس کے علاوہ افغان صدر اپنے ساتھیوں کو بھی دھوکہ دیکر خاموشی کیساتھ تاجکستان روانہ ہوگئے ہیں، افغانستان کی قومی مصالحتی کمیشن کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ویڈیو پیغام میں صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ کر جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اللہ ان سے حساب لے گا۔‘‘ واضح رہے کہ اشرف غنی نے طالبان کیساتھ مذاکرات اور انتقال اقتدار کی پرامن منتقلی کی ذمہ داری عبداللہ عبداللہ کو دی تھی۔ آج صدارتی محل میں طالبان قائدین اور مصالحتی کمیشن کے اراکین کے درمیان طویل مذاکرات کا دور بھی ہوا، بعض اطلاعات کے مطابق بات چیت کا یہ سلسلہ ابھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا، تاہم قوی امید ہے کہ اقتدار طالبان قیادت کے ہاتھ میں آجائے گا۔

امریکی افواج کے افغانستان سے یکدم انخلاء کے بعد طالبان نے جس تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے افغان صوبوں کو فتح کیا اور آج کابل پہنچنے تک کا یہ مختصر سفر اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے، تاہم یہاں موضوع گفتگو طالبان کا افغانستان کا کنٹرول سنبھالنا ہے، آیا طالبان کا یہ اقدام اسلامی لحاظ سے درست ہے۔؟ کیا طالبان واقعی افغانستان میں انقلاب لانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔؟ طالبان کو افغان عوام کی کس حد تک حمایت حاصل ہے۔؟ کیا مسلح جدوجہد کے ذریعے کوئی بھی طبقہ اقتدار سنبھال سکتا ہے۔؟ ان سوالات کے جوابات ہی اس تحریر کا نچوڑ ہونگے، تاہم اس سے قبل طالبان کے وجود اور ان کی تحریک کے آغاز کا جائزہ لینا ضروری ہوگا۔ لفظ ’’طالبان‘‘ طالب یا طالب علم سے نکلا ہے، عام پشتو زبان میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے کو طالب کہا جاتا ہے، جبکہ طالبان جمع صیغہ کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی بنیادی طور پر طالبان دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو کہنا جاتا ہے۔ 1994ء میں افغانستان میں ڈاکٹر نجیب کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب وہاں خانہ جنگی کی سی صورتحال تھی، طالبان پہلی مرتبہ منظرعام پر آئے، اس وقت طالبان کے امیر ملا محمد عمر تھے۔

1996ء میں کمانڈر احمد شاہ مسعود نے اپنی افواج سمیت کابل سے انخلاء کیا، جس کے بعد طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا اور اپنی حکومت قائم کرلی۔ 1998ء میں عبدالرشید دوستم کے جنگجووں کیساتھ جھڑپ کے بعد طالبان مزار شریف پر بھی قابض ہوگئے۔ اس دوران اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کی اعلیٰ ترین قیادت بھی اعلانیہ طور پر افغانستان آگئی۔ نائن الیون واقعہ کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے افغانستان پر اکتوبر 2001ء کو عسکری حملہ کر دیا، جس میں نیٹو اتحاد میں شامل ممالک کی افواج بھی امریکہ کی اتحادی تھیں۔ اس حملہ کے بعد سے اب تک طالبان امریکہ اور اس کی اتحادی افواج بشمول افغان فورسز کیخلاف صف آراء تھے۔ اب یہاں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طالبان کی امریکہ کیخلاف لڑائی کے دوران اکثر ان کے ناقد بھی اسے جہاد سے تشبہہ دیتے تھے، کیونکہ امریکہ نے جارحیت کی تھی اور اپنے وطن یا مٹی کا دفاع کرنا طالبان کا فرض تھا۔ کئی مذہبی، سیاسی تحریکیں بھی نہ صرف طالبان کو سپورٹ کرتی تھیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بعض مذہبی، سیاسی جماعتیں افغان جہاد کے نام پر ہی سیاست کرتی تھیں تو غلط نہ ہوگا۔

طالبان کو افغانستان میں freedom fighters کی حیثیت حاصل تھی اور بعض ممالک طالبان کیساتھ اختلاف کے باوجود ان کی جدوجہد کو درست مانتے تھے۔ تاہم امریکہ کے جانے کے بعد جس طرح طالبان نے افغانستان کے پے در پے علاقوں پر مسلح قبضہ کرنا شروع کیا اور اب کابل کو فتح کرنا، طالبان کے اس بنیادی موقف کے برعکس نظر آتا ہے کہ ’’ہمارا مقصد غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلاء ہے، نہ کہ اقتدار کا حصول۔‘‘ اب یقینی طور پر اقتدار طالبان کے ہاتھوں میں جاتا نظر آرہا ہے، قوی امید ہے کہ آنے والے چند گھنٹوں کے دوران طالبان قیادت باقاعدہ طور پر افغانستان کی باگ دوڑ سنبھال لے گی۔ طالبان کے اس اقدام کو کسی مذہبی انقلاب کیساتھ بھی نہیں جوڑا جاسکتا، گو کہ طالبان افرادی قوت کے حوالے سے مضبوط ہیں اور افغانستان میں انہیں پشتونوں کی بڑی تعداد کی نمائندگی بھی حاصل ہے، تاہم انقلاب میں عوام کی ایک غالب اکثریت بے لوث انداز میں اصولوں اور نظریہ کی بنیاد پر قیادت کیساتھ ہوتی ہے اور خاص طور پر مذہبی انقلاب میں بہت باریکیوں کا خیال رکھا جاتا ہے، شرعی قواعد و ضوابط، ناحق خون خرابے سے گریز، دنیاوی مفادات سے بالاتر ہوکر جدوجہد کی جاتی ہے، جس کی واضح مثال امام خمینی (رہ) کی قیادت میں برپا ہونے والا انقلاب اسلامی ایران ہے۔

افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہاں مسئلہ بیرونی مداخلت اور جارحیت تھا، یہاں طالبان کے علاوہ بھی مختلف نظریات و افکار کے حامل متعدد گروہ اور طبقات ہیں، جو افغانستان کی غیر ملکیوں سے آزادی کے خواہاں تھے، لہذا اس صورتحال کو کسی صورت انقلاب قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کابل پر قبضہ جما لینا کوئی شرعی جدوجہد۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جب طالبان نے دوحہ میں مذاکراتی عمل کا آغاز کر دیا تھا اور امریکہ سمیت اس کے تمام اتحادی ممالک کی افواج کو افغانستان سے انخلاء پر مجبور کرچکے تھے تو فوری طور پر افغان حکومت کیساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھتے، تمام اہم افغان طبقات کو اکٹھا کرتے، بلاشبہ اشرف غنی کی حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی تھی، لہذا اس کے مقابلہ میں مشاورت کیساتھ عبوری یا قومی حکومت تشکیل دی جاتی، جس میں اہم افغان طبقات کی نمائندگی ہوتی، اس کے بعد حالات بہتر ہونے کے بعد انتخابات کا انعقاد کیا جاتا اور جس طبقہ یا جماعت کو افغان موزوں سمجھتے اقتدار اس کے حوالے کر دیا جاتا۔ تاہم طالبان کی حالیہ روش کو امریکہ کی طرح کے حملے سے تو ہرگز تعبیر نہیں کیا جاسکتا، تاہم کابل پر بزور طاقت قبضہ کرنا بھی افغانستان پر حملہ کرنے سے کم نہیں۔
خبر کا کوڈ : 948772
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش