1
3
Monday 23 Aug 2021 15:22

ایران کی افغانستان پالیسی اور پاکستانی خواص

ایران کی افغانستان پالیسی اور پاکستانی خواص
تحریر: محمد سلمان مہدی

تاحال افغانستان کے اندر اور اس کے پڑوسی ممالک میں عوام و خواص افغانستان کے حوالے سے منقسم رائے کے حامل ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان اور ایران میں بھی عوام و خواص کی یہی کیفیت ہے۔ بنیادی طور پر جو فرق پاکستان اور ایران کے خواص کے مابین ہے، وہ یہ ہے کہ ایران میں کافی حد تک عالمانہ، عاقلانہ و عادلانہ موقف سامنے آیا ہے۔ دلچسپ اور حیرت انگیز نکتہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کا وہ طبقہ جو یہ تاثر دیتا ہے، گویا وہ ایران کا حامی ہے اور بہت سے پاکستانی ان کے موقف کو ایران کا موقف سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں، ان کے موقف اور ایران کی افغانستان پالیسی میں اس وقت بھی ایک بہت واضح فرق ہے۔ ہم شروع سے یہ کہہ رہے ہیں کہ افغانستان سے متعلق پوری دنیا کے اہم اور طاقتور ممالک اور خطے کی بڑی طاقتوں کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کہنے کی حد تک امریکی بلاک اور اس کے اتحادیوں کا بھی وہی موقف ہے، جو روس اور چین کا ہے اور وہی ایران کا بھی موقف ہے۔

البتہ فرق یہ ہے کہ ایران نے شروع سے افغانستان پر امریکی یلغار اور جنگ کی آن ریکارڈ مخالفت کی تھی، دیگر نے یا تو امریکا کا ساتھ دیا یا پھر بڑی طاقت ہونے کے باوجود امریکا کو جنگ سے باز رکھنے کے لیے کوئی فعال کردار ادا نہیں کیا۔ اگر ایران کے اندر سے کوئی یہ کہتا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں شکست ہوئی تو وہ اس لیے کہتا ہے کہ امریکا نے آن ریکارڈ جو بہانے بنا کر افغانستان پر یلغار کی یا جنگ مسلط کی اور بیس سالوں سے افغانستان میں اس کی اور دیگر ممالک کی افواج موجود ہیں، تو امریکی سعودی اماراتی عربی غربی زایونسٹ بلاک ان اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا کہ جن اہداف کے حصول کو دنیا کے سامنے بیان کرکے وہ افغانستان میں گھسا تھا۔ کیونکہ وہ یہاں نہ تو امن قائم کرسکا، نہ یہاں اس کے زیر نظارت مستحکم سیاسی نظام چل پایا اور امریکی و اتحادی ممالک کی تربیت یافتہ افغانستانی سکیورٹی فورسز بھی ملک کو تحفظ فراہم کرنے میں امریکی و دیگر افواج جو یہاں موجود تھیں، انہی کی طرح ناکام رہیں تو ناکامی سے مراد یہ والی ناکامی ہے۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایران نے امریکی جنگ کی مخالفت کی تھی تو یہ حقیقت ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ مخالفت ماہ ستمبر 2001ء ہی میں امام خامنہ ای صاحب نے خود کی تھی۔ غالباً 16ستمبر2001ء کو ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کی انگریزی ویب سائٹ پر ان کا بیان آیا تھا۔ امام خامنہ ای صاحب کا وہ موقف نائن الیون ٹوئن ٹاورز نیویارک میں جو سانحہ ہوا، اس میں انسانی جانوں کے نقصان سے متعلق تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردی ہر جگہ، ہر صورت میں قابل مذمت ہے، خواہ وہ دہشت گردی فلسطین میں کی جائے یا دنیا کے کسی اور ملک میں۔ البتہ اسی مذمتی بیان میں انہوں نے نائن الیون 2001ء کے واقعات کے بہانے افغانستان میں امریکی جنگ کی مخالفت کی تھی۔ یہ اعلیٰ ترین سطح پر ایران کا رسمی موقف تھا، لیکن امریکی زایونسٹ بلاک نے اس موقف کے برعکس جنگ افغانستان پر مسلط کر دی۔ مفروضوں اور تہمتوں کے برعکس ایران نے امریکا کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، لیکن پاکستان نے امریکا کو اڈے استعمال کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

پاکستان اور ایران کی نائن الیون سے پہلے کی افغانستان پالیسی میں بھی بہت واضح فرق تھا، کیونکہ پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے طالبان حکومت کو رسمی طور پر جائز حکومت تسلیم کر لیا تھا۔ لیکن ایران، چین، روس اور کسی بھی پڑوسی ملک نے حتیٰ کہ امریکا اور ترکی نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ طالبان کی نائن الیون سے پہلے والی قندھاری ملا عمر حکومت کے دور میں ایران سے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے، معاملہ جنگ کی حد تک پہنچ گیا تھا کہ اقوام متحدہ کی کوششوں کی وجہ سے جنگ ٹل گئی۔ ایران کے سفارتکار بھی طالبان دور حکومت میں افغانستان میں شہید ہوئے تھے۔ تب طالبان کے افغانستان میں کنٹرول سے بہت پہلے، عراق ایران جنگ کے آخر میں یا اس کے فوری بعد لبنان کے ایک سنی عالم نے امام خامنہ ای صاحب کو بتایا تھا کہ ایران کی فلاں سرحد پر واقع ملک سے آپ کے خلاف کچھ کیا جانے والا ہے۔ یہ 1996ء تا 2001ء والی طالبان ملا عمر حکومت سے متعلق حقائق ہیں۔ باوجود این، ایران نے کسی بھی بہانے افغانستان پر جنگ کو مسترد کر دیا تھا۔

اب ایران کی افغانستان پالیسی کیا ہے؟ بہت واضح ہے کہ اقتدار میں افغانستان میں آباد مختلف اکائیوں کی نمائندگی، شراکت در اقتدار اور نمائندگی در حکومت۔ دوسرا سوال یہ کہ طالبان سے متعلق ایران کی پالیسی کیا ہے؟ یہ بھی واضح ہے کہ اس کا جواب وہی ہے، جو پچھلے جملے میں افغان پالیسی کے تحت بیان کیا جاچکا۔ لیکن پاکستانی خواص جس انداز میں طالبان کو پیش کر رہے ہیں، یہ ان کا اپنا موقف ہے، جو کہ ایران کے موقف سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ بالفرض اگر پاکستان کا وہ طبقہ جو خود کو انقلابی مقاومتی بلاک کا بزعم خویش ایک حصہ سمجھتا ہے یا ایسا تاثر جوانوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور وہ آجکل یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ طالبان کا آجانا اس مرتبہ ایران کی کامیابی ہے تو بھی اسے خود سے سوال کرنا چاہیئے کہ یہ اگر ایران کی کامیابی بھی ہے تو یہ اس صدر حسن روحانی حکومت کی کامیابی ہے، جس کا وزیر خارجہ محمد جواد ظریف ہے اور ان سے متعلق اس طبقہ خواص کی رائے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔

تو پاکستانی خواص کے اس طبقے کا ایران کو کریڈٹ دینا بھی ان کے اپنے کھاتے میں نہیں جا رہا بلکہ چٹ بھی میری پٹ بھی میری، سکہ میرے باپ کا، والا موقف کہلائے گا۔  یا پھر بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ وہاں کے سفارتی عمل، مذاکراتی عمل کا کریڈٹ جواد ظریف یا صدر روحانی ہی کو جائے گا۔ دوسرا نکتہ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ ایران کے موقف کو عالمانہ، عاقلانہ و عادلانہ کیوں مانا جائے، اس کی وجہ پر بھی غور فرمائیں۔ ایران افغانستان اور خاص طور پر طالبان سے متعلق درست رپورٹنگ کر رہا ہے۔ یعنی جو طالبان کر رہے ہیں، واقعیت کو ایران سے بیان کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ یاحسین ؑ لکھے علم اتارتے ہیں تو بھی ایران سے ہی رپورٹ آتی ہے اور اگر دوبارہ علم لگا دیتے ہیں یا شیعہ اسلامی مساجد و امام بارگاہوں میں جاکر خود کو کہتے ہیں کہ ہم داعشی نہیں ہیں تو یہ رپورٹ بھی ایران سے ہی آتی ہے۔ یعنی واقعیت کو بلا کم و کاست بیان کرنا۔ عادلانہ پالیسی اس لیے ہے کہ ایران افغانستانیوں کی نمائندہ حکومت کی حمایت کر رہا ہے نہ کہ افغانستان کے صرف ایک اسٹیک ہولڈر طالبان کی۔

لیکن پاکستانی خواص طالبان کی ہیرو سازی کر رہے ہیں اور یہی کام تکفیری و ناصبیوں کا یا ایران کے مخالفین کا ٹولہ بھی کر رہا ہے لیکن کسی اور طرح۔ یعنی یہاں لگتا ہے کہ اسائنمنٹ یہ ملی ہے کہ شیعہ گروپس میں طالبان کو شیعہ دوست، عزاداری کا دوست بنا کر پیش کریں جبکہ تکفیری ناصبی، طالبان کے اس روپ کو سنیوں کے درمیان چھپا رہے ہیں اور پاکستانی شیعہ خواص کا ایک بڑا طبقہ طالبان کے اس رخ کو چھپا رہا ہے جو تکفیری ناصبی اپنے گروپس میں بیان کر رہے ہیں اور مجموعی طور پر سبھی اس حقیقت کو بیان نہیں کر رہے کہ طالبان دیگر افغانستانی قومیتوں کو شریک اقتدار نہیں کرنا چاہتے، وہ ماضی کی طرح ہی کی امارت کا اعلان کر رہے ہیں، جس کی حمایت پاکستان حکومت بھی اس مرتبہ نہیں کر رہی ہے۔ ایران کا بھی موقف یہی ہے کہ دیگر افغانستانی اکائیوں (قومیتوں، مسالک) کی بھی نمائندگی ہو۔ جس طرح افغانستانی قومیتیں اور مسالک موجودہ طالبان کنٹرول پر منقسم رائے کے حامل ہیں، یہی صورتحال پاکستان اور ایران کے خواص کی بھی ہے۔

لیکن ایرانی خواص کی جو رائے ہمارے علم میں ہے، وہ ایسے خواص ہیں کہ ایران کے اندر داخلی صف بندی میں وہ ایک دوسرے کے مخالفین ہیں، ان سبھی کے موقف کا جائزہ لیا جائے تو وہ طالبان کو ہیرو نہیں مان رہے بلکہ زمینی حقائق کو بیان کر رہے ہیں۔ ان کا موقف عالمانہ ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ طالبان اس استعداد صلاحیت و لیاقت کی حامل نہیں کہ افغانستان ان کے زیر حکومت پیشرفت کرسکے گا، یعنی وہ افغانستان کو تعمیر و ترقی و پیشرفت کی سمت سفر کروانے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ محض اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ امن و امان قائم رکھ سکیں۔ یعنی جیسے ہمارے ہاں پولیس، رینجرز، ڈپٹی کمشنر، مقامی عدالت مل جل کر کسی حد تک نظم و نسق قائم رکھ پاتے ہیں، یہ والا کام۔ عاقلانہ اس لیے ہے کہ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ طالبان قابل اعتماد نہیں ہیں، اس موقف کی بنیاد ماضی کے تلخ ترین تجربات ہیں۔ عادلانہ اس لیے ہے کہ وہ طالبان کو پورے افغانستان کا حاکم قبول نہیں کرتے اور یہ بہت بڑا اختلاف ہے طالبان اور ایران کے مابین۔

قندھاری ملا عمر طالبان کے دور سے متعلق امام خامنہ ای صاحب کی رائے میری یادداشت میں محفوظ ہے کہ ایک جملے میں سمیٹیں تو اسلام کے نام پر مسخرہ پن کرنے والا کہا تھا۔ اس کے بعد کا موقف میرے علم میں نہیں کہ آیا ان سے متعلق رائے تبدیل ہوئی یا نہیں۔ جہاں تک تعلق ہے پاکستان کا تو میں اپنے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نائیجیریا میں ابراہیم زکزاکی نے جو کچھ کیا ہے،  سامراج مخالف مذہبی خواص کے لیے ماڈل یہی ایک ملک ہے، باقی سب قصے کہانی ہیں۔ یمن، لبنان، بحرین، عراق، ایران کے ڈیموگرافک حقائق پاکستان سے مختلف ہیں۔  زکزاکی ماڈل مائنس سے زیرو پر لانا، اور زیرو سے سو میں سے سو نمبر لینے کا کامیاب ماڈل ہے۔ علامہ اقبال کا  ایک شعر اس حقیقت کو منکشف کرتا ہے کہ ڈھونڈنے والے کو دنیا ہی نئی دیتے ہیں۔ چالیس برسوں میں پاکستانی خواص محض پندرہ سولہ برس ہی کسی درست سمت میں سفر کر رہے تھے اور بعد کے چوبیس پچیس برسوں سے تاحال ان کا کردار کسی طور لائق تحسین نہیں رہا۔ بڑے بڑے بجٹ کے ساتھ اس ملت کو محض زندہ باد، مردہ باد، نعرے بازی اور ایک ناکارہ پریشر گروپ میں تبدیل کرنے کا جو مشن انہوں نے کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے،  تاحال اس کا  ”اجر عظیم“  ان کو مل رہا ہے۔ اس صورتحال کو ہم ایک تحریر بعنوان اسلام کی عدم حاکمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے، میں پیش کرچکے ہیں۔ ہم تکفیری دہشت گردی کو بھگت چکے ہیں اور طالبان دور حکومت ہی میں بدترین نسل کشی، حتیٰ کہ پرویز مشرف کے دور میں بھی پاکستانی شیعوں کو امان حاصل نہ تھی۔ پہلے بندوق کی گولیاں کھا کر شہید ہوا کرتے تھے تو مشرف دور سے خودکش یا نصب کردہ بم دھماکوں سے شہید ہوئے۔ لیکن پاکستان ایک زکزاکی سامنے نہ لاسکا۔

میں اپنے تلخ ترین تجربات اور بار بار کے بدترین ناقابل تلافی ذاتی نقصانات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ گدھ سے بدتر انسان نما مخلوق نے ہم جیسوں کے لیے ان مع العسر عسرا بنا کر خود کے لیے ان مع الیسر یسرا کی مدیریت کرلی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مومن ایک ہی سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاسکتا، لیکن تجربہ یہ کہتا ہے کہ جو خود کو مومن کہتے ہوں، سمجھتے ہوں اور معاشرہ بھی انہیں مومن سمجھتا ہو، وہ خود ہی دیگر کو بار بار ڈستے ہیں۔ یا ڈسنے والوں کے سرپرست، مددگار اور حامی ہوتے ہیں، کبھی اعلانیہ تو کبھی خفیہ۔۔ کیا اس پر کوئی آیت یا حدیث ہے، ہے تو بتائیں۔ حرف آخر یہ کہ ایک مملکت، ایک ریاست تو بدلتی صورتحال کو اپنے حق میں پلٹانے کے لیے کامیاب مدیریت کرسکتی ہے، لیکن ایک ایسی آبادی جہاں عددی قلت میں ہو اور وہاں کنٹرول سامراجی بلاک اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھ میں ہو اور خواص کی اکثریت اور ان کے اندھے مقلدین ایسے ہوں، جیسے پاکستان میں تو وہ کمیونٹی کہاں سے مدیریت کی صلاحیت، لیاقت و استعداد رکھ سکتی ہے۔ ماضی نے تو ثابت کیا کہ نہیں کرسکتی۔ بس اتنا ضرور ہے کہ ہر مرحلے میں چند خواص دین سے اپنی دنیا بہت مختصر ترین عرصے میں سنوار لیتے ہیں، مال، مقام منصب، سماجی دینی حیثیت، سب وی وی آئی پی اسٹیٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہوتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ بہت سوں کی دنیا اجاڑنے کی قیمت پر حاصل ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 949972
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
کیا بات ہے سلمان بھائی، جیندے رہو، ہمارے دل کی بات آپ کے ٹوٹے دل سے نکل آئی۔۔۔۔ خدا قوت
ہماری پیشکش