1
Tuesday 21 Sep 2021 22:05

یورپ کی پشت میں امریکی خنجر

یورپ کی پشت میں امریکی خنجر
تحریر: سید رحیم نعمتی
 
5 ستمبر 1781ء کا واقعہ ہے جب چیساپیک خلیج کے قریب امریکہ کی ریاست میری لینڈ کے ساحل پر برطانوی اور فرانسیسی جنگی جہازوں کے درمیان خوفناک سمندری جنگ رونما ہوئی۔ یہ جنگ چیساپیک کا معرکہ (Battle of Chesapeake) کے نام سے معروف ہے۔ فرانس کی بحریہ درحقیقت امریکہ میں برپا ہونے والے انقلاب کے حامیوں کی مدد کیلئے وہاں آئی تھی۔ فرانسیسی بحریہ نے یہ معرکہ سر کر کے امریکہ میں برطانیہ کی شکست کو حتمی شکل دے دی اور یوں امریکہ میں انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا اور امریکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک بن کر دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا۔ اس معرکے کی یاد میں امریکہ کی ریاست ویرجینیا کے فورٹ اسٹوری نیوی بیس میں ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے۔
 
امریکی ریاست ویرجینیا کے فورٹ اسٹوری نیوی بیس میں ہر سال اس معرکے کی یاد میں تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ اس تقریب میں فرانسیسی حکام بھی شریک ہوتے آئے ہیں۔ لیکن اس سال چیساپیک معرکے کی 240 ویں سالگرہ کے موقع پر فرانس نے اس تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا۔ یہ تقریب اس سال دو حصوں میں منعقد ہونا تھی۔ ایک حصہ امریکہ میں فرانس کے سفارتخانے میں جبکہ دوسرا حصہ امریکی ریاست میری لینڈ کی بالٹیمور بندرگاہ میں لنگرانداز فرانسیسی بحری جہاز میں منعقد ہونا تھا۔ لیکن فرانسیسی حکومت نے ان دونوں حصوں کو کینسل کر دیا۔ اس اقدام کا مقصد امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان منعقد ہونے والے حالیہ فوجی معاہدے کے بارے میں ناراضگی کا اظہار تھا۔
 
حال ہی میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان آکس (AUKUS) نامی معاہدہ طے پایا ہے۔ یہ معاہدہ سفارتی، سکیورٹی اور فوجی شعبوں میں باہمی تعاون کیلئے انجام پایا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے تینوں ممالک نے بحر ہند اور بحر اوقیانوس کے تمام حصوں میں باہمی تعاون سے فوجی اور سکیورٹی سرگرمیاں انجام دینی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس معاہدے کا مقصد چین کے اثرورسوخ کو روکنا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کے تحت کئی پراجیکٹس پر کام شروع کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ پہلا پراجیکٹ امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان جوہری ایندھن والی آبدوزوں کی خرید و فروخت پر مشتمل ہے۔ جوہری ایندھن والی آبدوزیں تعمیر کرنے کی ٹیکنالوجی امریکہ اور برطانیہ کے پاس ہے جو آسٹریلیا کو بھی فراہم کی جائے گی۔
 
امریکہ کے ساتھ جوہری آبدوزیں خریدنے کا نیا معاہدہ طے پا جانے کے بعد آسٹریلیا نے فرانس سے وہ پرانا معاہدہ منسوخ کر دیا ہے جس کے تحت اس نے فرانس سے بجلی اور ڈیزل سے کام کرنے والی 12 آبدوزیں خریدنی تھیں۔ یہ معاہدہ 2016ء میں آسٹریلیا اور فرانس کے درمیان انجام پایا تھا۔ جب یہ معاہدہ انجام پایا تھا اس وقت اس کی لاگت تقریباً 31 ارب ڈالر تھی جو بعد میں مختلف وجوہات کی بنا پر بڑھ کر 56 ارب ڈالر تک جا پہنچی تھی۔ فرانس نے اس معاہدے کو اپنے صنعتی شعبے کیلئے "صدی کا معاہدہ" قرار دے رکھا تھا۔ لہذا آسٹریلیا کی جانب سے یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو منسوخ کئے جانے پر فرانس بہت زیادی سیخ پا ہو گیا۔ فرانس نے غصے میں امریکہ اور آسٹریلیا سے اپنے سفیر بھی واپس بلوا لئے ہیں۔
 
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ میں صدر جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد فرانسیسی حکام یہ سوچ رہے تھے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور والا امریکی یطرفہ رویہ ختم ہو چکا ہے اور نئے امریکی صدر یورپی ممالک کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں گے۔ لہذا تین ماہ پہلے ہی فرانس نے امریکہ کو دوسرا مجسمہ آزادی تحفے میں دیا جو دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات میں ایک نیا موڑ شروع ہونے کی علامت قرار دیا جا رہا تھا۔ لیکن اب فرانس کے وزیر خارجہ جان ایو لودریان امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان نئے معاہدے کو فرانس کی "پشت میں خنجر" قرار دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فرانس آسٹریلیا کی جانب سے یکطرفہ طور پر اپنے ساتھ معاہدے کو منسوخ کرنے پر خاموش نہیں بیٹھے گا۔
 
امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا میں آکس معاہدہ فرانس اور یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک کیلئے یہ واضح پیغام لئے ہوا ہے کہ امریکہ نے نہ صرف یکطرفہ پالیسی ترک نہیں کی بلکہ یورپ کے دو انگریزی زبان ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملانے کے بعد اس کے یکطرفہ رویے میں شدت آئی ہے۔ یہ معاہدہ محض چین کا اثرورسوخ روکنے کیلئے انجام نہیں پایا بلکہ یورپی یونین کے مقابلے کیلئے بھی ہے۔ جوزف بوریل نے اس بارے میں کہا: "آکس معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپی یونین کو اپنی دفاعی اور سکیورٹی اسٹریٹجی میں وسعت لانی چاہئے۔" انہوں نے کہا: "ہمیں دوسروں کی طرح اپنے پاوں پر کھڑا ہونا چاہئے۔" انہوں نے "اسٹریٹجک خودمختاری" کی بات کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 955034
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش