0
Tuesday 19 Oct 2021 21:25

وحدت۔۔۔۔ نعمت الہیٰ

وحدت۔۔۔۔ نعمت الہیٰ
 تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس نقوی

آج کے سائنسی دور میں ٹیکنالوجی کی معاونت سے آنیوالے حالات و واقعات کا کافی حدّ تک علم ہو جاتا ہے۔ یعنی انسان آنیوالے خطرات سے آگاہ ہو جاتا ہے، جیسے موسمی حالات وغیرہ۔ مثال کے طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ سیلاب آسکتا ہے اور کس نوعیت کا ہوسکتا ہے؟ اگر سیلاب کا خطرہ ہے تو ایسے میں اس کے سدباب کیلئے انفرادی و اجتماعی کوششیں کی جا سکتی ہیں، تاکہ اس کی تباہی سے بچا جاسکے۔ ایسے ہی انسان کیلئے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلام کی راہنمائی موجود ہے۔ یعنی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ مکمل ضابطہ حیات ہونے کی حیثیت سے  ایک "جامع لائحہ عمل" انسان کیلئے پیش کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اسلام میں انفرادی قوانین پائے جاتے ہیں، وہاں اجتماعی اور معاشرتی قوانین بھی تفصیل کیساتھ ہمیں نظر آتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں یہاں یہ نکتہ قابل اہمیت ہے کہ انسان کی دو حیثیتیں ہیں، ایک انفرادی اور دوسری اجتماعی حیثیت ہے۔ ان دو حیثیتوں میں اسلام نے انسان کی راہنمائی کی ہے اور آنیوالے خظرات سے اس کو آگاہ کیا ہے اور معاشرے کو مضبوط کرنے کے لیے اصول وضع کیے ہیں۔ انہی معاشرہ ساز اصولوں میں سے ایک انتہائی بنیادی اصول ’’وحدت اور اتحاد‘‘ کا ہے۔ قرآن کریم کی نگاہ میں ایک دوسرے سے اتحاد کا ایک خاص مقام ہے۔ خداوند عالم قرآن کریم میں اتحاد کو بلندی و رفعت کا اور تفرقے کو انحطاط اور پستی کا سبب قرار دیتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم میں تقریباً ۵۰ آیات اتحاد اور مسلمانوں کے درمیان وحدت و  انسجام کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ لہذا قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق اتحاد ایک اہم ترین واجب فریضہ ہے۔

اللہ سبحانہ سورہ آل عمران / ۱۰۳ فرماتا ہے: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ "اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔"

تفسیر آیات
اللہ کی رسی سے مراد اس کی کتاب اور اس کے رسول (ص) ہیں۔ "وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا" گویا اللہ کی طرف سے خطرے کا اعلان ہو رہا ہے اور لگتا ہے کہ کوئی سیلاب آنیوالا ہے اور غرق آب ہونے کا خطرہ ہے یا کوئی طوفان آنیوالا ہے، جس سے اس امت کی کشتی کا شیرازہ بکھرنے والا ہے، یا کوئی آندھی آنیوالی ہے، لہٰذا بچنا ہے تو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا: اس جملے سے مذکورہ خطرے کی نوعیت کا پتہ چلتا ہے کہ یہ کس قسم کا سیلاب، کس قدر خطرناک طوفان اور کتنی مہلک آندھی ہے کہ اگر یہ امت اس خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے اور حَبْل اللہ سے متمسک بھی نہیں ہوتی تو اس کا شیرازہ کس طرح بکھر سکتا ہے اور اس کی عظمت کس طرح مذلت میں بدل سکتی ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ امت مسلمہ قرآن و رسول ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے دستور حیات کو چھوڑ کر جزئیات اور فروعات میں منہمک نہ ہو جائے۔ دین سے زیادہ مسلک عزیز نہ ہو جائے۔ ایمان پر قومی عصبیت غالب نہ آجائے۔ قرآن پر نسلی و لسانی رجحانات کا غلبہ نہ ہو جائے اور سنت رسول (ص) پر گروہی مفادات غالب نہ آجائیں۔

وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اس امت کے حال کو ماضی سے مربوط کرکے یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ تم اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی۔ پس اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ ایک قیمتی تجربہ ہے کہ اللہ کی مضبوط رسی کو تھامنے سے پہلے آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے اور کفر و گمراہی اور دشمنی کے شعلوں کی لپیٹ میں تھے۔ اسلام کے زیر سایہ آنے کے بعد، امن و محبت اور سکون و اطمینان کی فضا اور اسلامی اخوت و برادری کے پرکیف ماحول میں تمہاری یہ سرگزشت تمہارے سامنے ہے۔ اسی کی روشنی میں اپنے مستقبل کا حال بھی متعین کرو اور خبردار رہو کہ کہیں لاعلمی کی وجہ سے آگ کے گڑھے کے کنارے کی طرف دوبارہ پلٹ نہ جاؤ۔ اتحاد و وحدت اور انسجام امت کی افادیت کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ فرقہ پرستی سے لاحق ہے اور قرآن مسلمانوں کو مسلک پرستی، گروہی مفادات اور نسلی تعصبات کو چھوڑ کر قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں دستور حیات اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔

اسی لیے خدا فرماتا ہے کہ اور تاکیداً کہتا ہے: و اعتصَموا بِحَبل الله جَميعاً ولاتَفرّقوا۔۔ سب خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور پراگندہ نہ ہو۔ اس آیت میں مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دی ہے اور تفرقے سے دور رہنے کو کہا ہے اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کو خدا نے ایک امر مطلوب اور الطاف الہیٰ میں سے قرار دیا ہے۔ سب سے بڑی معصیت ہے، سب سے بدتر گناہ کسی سے سرزد ہوتا ہے، وہ تفرقہ ہے۔ لیکن تفرقے اور دشمنی کو ایک گناہ شمار کیا ہے کہ مسلمان اس کی جانب پھٹکے بھی نہیں۔ اسی طرح آیت کا مفہوم تمام مسلمانوں کو بھائی چارے کی دعوت دے رہا کہ جو ناقابل انکار ہے اور اس بات کو بیان کر رہا ہے کہ بھائی چارہ و اخوت خدا کی عنایات میں سے ایک عنایت ہے۔

پس وحدت۔۔۔ حکم قرآن کریم ہے، فرمان رسول اللہﷺ ہے اور رکن دین ہے۔ اگر ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔ اگر خدا، نبیﷺ اور قرآن و اہلبیت علیہم السلام کے حضور سرخرو ہونا چاہتے ہیں، تو ہمیں اللہ کی رسی کو تھامے رسول اللہﷺ کی تعیین کردہ راہ پر گامزن ہونا ہوگا اور اتحاد اُمت کو اپنا شعار بنا کر تفرقہ بازی کی آگ سے بچنا ہوگا اور رحمت الٰہی یعنی وحدت کے چشمہ سے سیراب ہو کر ہی دنیا و آخرت میں سرفراز ہوا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 959538
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش