0
Tuesday 16 Nov 2021 17:34

ہے تم سے کربلا زندہ شہیدوں زندہ باد!!!

ہے تم سے کربلا زندہ شہیدوں زندہ باد!!!
تحریر: سویرا بتول

جیسے جیسے شہید علی ناصر صفوی کی برسی قریب آتی جا رہی ہے، مکتب کے گمنام شہداء پر لکھنے کی تڑپ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ شہید علی ناصر صفوی کی مزاحمتی تحریک میں بہت سارے اسرار و رموز پوشیدہ ہیں، جن کا تذکرہ ہم اپنی گذشتہ تحریر میں کرچکے ہیں(ملاحظہ کیجیے شہید گمنام۔۔۔ علی ناصر صفوی)۔ احباب کے بےحد اصرار پر طبعیت کی ناسازی کے باوجود ہم مجبور ہوٸے کہ شہید کی عظمت پر چند حرف قلمبند کیے جاٸیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ شخصيت جس قدر عمیق ہو، اُس پر قلم اٹھانے سے پہلے اُتنا تفکر کیا جاتا ہے۔ شہید علی ناصر صفوی قرآن مجید کی اس آیت جس میں مرد مومنین کا ذکر کیا گیا *مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوااللَّهَ* کے حقیقی مصداق تھے، کیونکہ آپ نے راہ سید الشہداء پر عملی طور پر چل کر خدا سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرکے دکھایا اور پاکستان کے نوجوانوں کے لیے مشعلِ رہ بنے۔

آپ حقیقی معنیٰ میں ایک دیندار انقلابی اور شب زندہ دار با تقویٰ مرد مومن تھے۔ آپ نے گورنمنٹ کالج جھنگ میں داخلہ کے بعد آئی ایس او پاک میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں اسی یونٹ کے یونٹ صدر بھی بنے۔ پھر آپ فیصل آباد ڈویژن کے اے سی ایس بھی رہے۔ آپ شہید نواب صفوی سے بہت متاثر تھے۔ اگر ایران میں انقلاب اسلامی رونماء نہ ہوتا تو شاید نواب صفوی کی خدمات ہمیشہ پوشیدہ رہتیں۔ ٹھیک اسی طرح پاکستان کی سرزمین پر شہید علی ناصر صفوی اور ڈاکٹر محمد علی نقوی وہ شخصیات ہیں، جن کی خدمات کو ظاہر کرنے کے لیے بھی انقلاب اسلامی جیسے ماحول کی ضرورت ہے۔

شہادت کے دو پہلو ہیں، یعنی اول شہید مقصد اور ہدف کو بچانے کے لیے خدا کی راہ میں، صرف خدا کے لیے اپنی جان فدا کرے اور دوم شہید کو اس بات کا علم ہو کہ وہ اس عمل میں اپنی جان کھو بیٹھے گا۔ شہادت میں چونکہ شہید اچھی طرح جانتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہوٸے اپنی جان کو مقصد اور ہدف کے لیے قربان کر دے گا، اس لیے شہادت کو ایک عمل شجاعانہ اور مردانہ تصور کیا جاتا ہے اور ایسی موت زندگی سے بہتر اور محترم و مقدس سمجھی جاتی ہے۔ شہید علی ناصر صفوی اور محرم علی اس بات سے آگاہ تھے کہ اس راہ میں شہادت حتمی ہے۔ گویا معلوم ہوا کہ شہادت ایک بلند و باوقار درجہ ہے، جسے شہید آگاہانہ طور پر مقصد کو بچانے کے لیے تمام زندگی و ہستی کو مٹا کر حاصل کرتا ہے۔

ہمیں کیونکہ اس موضوع پر لکھتے ہوٸے کافی عرصہ گزر گیا ہے، اس لیے ہم ان ابحاث پر اکثر و بیشتر تفکر کرتے رہتے ہیں۔ مردوں کے معاشرے میں ایک خاتون کا کم وقت میں اپنا مقام بنانا شاید معاشرے کی چند شخصیات پر گراں گزارا اور جب دیکھا کہ ہم تمام تر تہمتوں کے باوجود مدافعینِ حرم اور گمنام شہداء پر قلم اٹھانے سے باز نہیں آ رہے تو کردار کشی جیسا پست حربہ استعمال کیا گیا۔ اِن مشکل حالات میں میرے والد صاحب ہر لحظہ میرے ساتھ کھڑے رہے اور ہمیشہ مدافعین حرم پر قلم اٹھانے پر ہمت و حوصلہ دیتے رہے۔ ہم نے از راہ مزاح میں والد صاحب سے کہا کہ آپ جس کام کی اجازت دے رہے ہیں، آپ کو علم ہے کہ اُس کے آخر میں ہماری خون بھری میت بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے؟ کیونکہ ہمارا کامل یقین ہے کہ شہادت اتفاق نہیں انتخاب ہے، ایک آگاہانہ انتخاب۔

میرے والد صاحب کا جواب ہم جیسے مصلحت پسندوں کے لیے قابل فکر بھی ہے اور قابل تذکر بھی۔ انہوں نے ہم سے فقط ایک ہی سوال پوچھا کہ کیا ہماری اولاد حسین ابنِ علی علیہ السلام کے شش ماہے علی اصغر سے زیادہ حسین اور دینِ الہیٰ سے زیادہ اہم ہے؟ اگر راہِ خدا میں حق بات بیان کرتے ہم لقاٸے الہیٰ کا جام پیتے ہیں تو یہ باعثِ سعادت ہے۔ ہم خود سے سوال پوچھیں کہ کیا ہماری مصلحانہ روش شہید علی ناصر صفوی کی مزاحمتی تحریک سے زیادہ اہم ہے؟ کہیں ہم مصلحت کے نام پر مکتب اور اپنے بنیادی عقائد کو قربان تو نہیں کر رہے؟ ہم جس حسین ابن علی علیہ السلام کو پوری دنیا کے سامنے امام حریت و انسانیت کے طور پر پیش کرتے ہیں، کہیں خود مصلحت کی بیڑیاں تو نہیں پہنے ہوٸے؟ اگر محرم علی یا علی ناصر صفوی کسی مصلحت کا شکار ہوتے تو کیا شہید ہوتے؟ (گمنام سپاہی کی قبر پر تحریر کا ضرور مطالعہ کریں، ایک درد ہے قوم کی بیٹی کا)

شہید علی ناصر صفوی اور ان جیسے شہداء نہ صرف مکتبِ اہل بیت بلکہ ہر عاشقِ اہل بیت کا افتخار ہیں۔ یہ وہ شہداء ہیں، جن پر زیادہ سے زیادہ لکھا جانا چاہیئے اور اِن کے افکار کو عام کیا جانا چاہیئے۔ ان کی خدمات پر کئی کتب مرتب کی جانی چاہیئے۔ ریاست کے ڈر سے اِن شہداء کو اتنا بھی گمنام نہیں ہونا چاہیئے کہ آٸندہ نسلیں ہم سے اِن کے بارے میں استفسار کریں۔ بخدا علی ناصر صفوی کی جگہ خالی ہے، کہاں ہیں اِس کو پُر کرنے والے؟ آج اِن شہداء کے مرقد گمنامی کا استعارہ کیوں بنتے جا رہے ہیں؟ کیا شہداء کا حق فقط اتنا ہے کہ اُن کی برسی پر چھوٹا سا پروگرام منعقد کرکے چار انقلابی ترانے لگا کر دامن جھاڑ کر گھر پلٹ جاٸیں؟ کیا شہداء ہم پر فقط اتنا حق رکھتے ہیں یا ہم سے کچھ تقاضا بھی کرتے ہیں۔؟
نگاہِ صبر سے توڑی ستم کی زنجیریں
لہو سے تُم سے بناٸی وفا کی تصویریں
دعائيں دیتی ہیں زہراء سلام علہیا
شہیدو زندہ باد
شہیدو زندہ باد
ہے تم سے کربلا زندہ
شہیدو زندہ باد!!!
خبر کا کوڈ : 963919
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش