0
Friday 10 Dec 2021 01:30
شدت پسندی اور تکفیریت

اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
تحریر: ارشاد حسین ناصر

یہ ملک ہے یا جنگل؟ مجھے ایک دوست نے جنگلی درندوں کے ہاتھوں سیالکوٹ کی فیکٹری میں ایک انسان کی جلائے جانے کی ویڈیو بھیج کر سوال کیا، یہ جنگل ہے یا ایک جمہوری ریاست، جس میں پارلیمنٹ ہے، آئین و دستور ہے، توہین مذہب و مقدسات کے تحفظ کیلئے سخت سے سخت قوانین ہیں، ایسے قوانین جو اسلام کے مراکز سمجھے جانے والے ممالک کہ جہاں انبیاء و آئمہ کرام تشریف لائے، وہاں بھی نہیں ہیں۔ جب قوانین بنوائے گئے ہیں اور ان قوانین کو بھی تقدس حاصل ہے تو ان قوانین کو بروئے کار نہ لانا بھی تو توہین ہے۔ اگر ان قوانین پر کوئی معترض ہو اور انہیں ناقص قرار دے تو اس پہ کفر کے فتوے لگ جاتے ہیں، پھر وہ گورنر بھی ہو تو اسے موت کی نیند سلانے ولے قاتل کو ہیرو بنا دیا جائے، کیا اس کو توہین نہیں سمجھا جائے گا؟ کیا یہ توہین نہیں کہ کسی پر جھوٹا الزام لگا دیا جائے اور اسے قانون کے حوالے کرنے کے بجائے خود ہی عدالت لگا کر وحشیانی و سفاکانہ انداز میں موت کی نیند سلا دیا جائے۔؟ کیا یہ عمل اسلام اور پاکستان کے مقدس آئین کی اسلامی شقوں کی توہین نہیں۔؟

یہ سارے سوالات تھے، جو اس دوست نے مجھ سے کئے تھے۔ میرے پاس تو ایک ہی جواب تھا کہ بھائی! ہم تو پہلے دن سے اس کے مخالف ہیں، نہ صرف مخالف بلکہ اس کے متاثر فریق ہیں، سب سے زیادہ توہین کے جھوٹے الزامات کے تحت ہماری قوم کے لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہماری قوم کا جتنا خون بہایا گیا ہے، اس کے پس پردہ اور علی الظاہر ایسے ہی گھٹیا اور بے ہودہ الزامات و سازشیں کارفرما چلی آرہی ہیں۔ پاکستانی معاشرہ میں شدت پسندی اور تکفیریت کی فصل افغان جہاد کی آڑ میں بوئی گئی تھی، جس کا مقصد امریکہ یعنی سی آئی اے کی ڈیزائن کردہ نام نہاد روس کے خلاف جہاد کیلئے نرسریاں قائم کرنا تھا، تاکہ ان نرسریوں سے اس جہاد کیلئے ایندھن فراہم ہوتا رہے۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ اس شدت پسندی اور تکفیریت کی شروعات افغان جہاد سے ہوئی تھیں اور آج تک ہمارا پیارا ملک ناصرف یہ کہ اس دلدل سے نکل نہیں پایا بلکہ ہر گذرتے دن کیساتھ اس میں غرق ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

ہم بطور شیعہ اس شدت پسندی و تکفیریت اور جھوٹے و گمراہ کن الزامات کا سب سے زیادہ شکار ہوئے، ہمیں چن چن کر مارا گیا۔ ہمیں اس مملکت خداداد کے ہر شہر اور علاقے میں نشانہ بنایا گیا اور ہم ہر طرح کی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ کہیں ہمیں بسوں سے اتار کر مارا گیا تو کہیں ہمیں گولیوں سے نشانہ بنایا گیا۔ کہیں ہم بم دھماکوں کا نشانہ بنائے گئے تو کہیں ہمیں خودکش حملوں کا شکار کیا گیا۔ ہمیں مسجدوں میں مصروف عبادت، خدا کے حضور حاضری کے وقت خون میں لت پت کیا گیا۔ ہمیں درباروں پر برگزیدہ ہستیوں کو سلام پیش کرتے چیتھڑوں میں بدلا گیا۔ ہمیں ماتم کی صداؤں اور اور نوحوں کی آوازوں میں شکار کیا گیا۔ ہمیں کورٹ، کچہریوں، بازاروں اور شاہراہوں پر چن چن کر مارا گیا۔ ہم نے اس مملکت خداداد میں قیمتی ترین ڈاکٹرز دیئے، اساتذہ قربان کئے۔ پروفیسرز سے محروم ہوئے، شاعروں، ادیبوں کو گنوایا۔، علمائے کرام کی جدائی کا دکھ اور غم سہا۔

اس مملکت میں ہمیں آروں سے چیرا گیا، ہمارے گلے کاٹے گئے اور ویڈیوز ریلیز کی گئیں۔ ہمارے قیمتی ترین افراد ہم سے چھین لئے گئے۔ ہمیں بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ چیک کرکے گولیوں سے بھونا جاتا رہا اور حکمرانوں و مقتدر حلقوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ہمیں چاروں صوبوں میں نشانہ بنایا گیا، ہمیں بلوچستان میں ہجرتوں پر مجبور کر دیا گیا۔ ہمارا راستہ روکا گیا، ہمیں گھروں میں دبک جانے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ ہمارے بنیادی ترین حقوق کو پائمال کیا جاتا رہا اور کسی نے خبر بھی نہ لی۔ ہمیں سرحد، کے پی کے، ڈیرہ اسماعیل خان اور کئی ایک شہروں میں میں گھر بار چھوڑنے اور خاندانی جائیدادوں کو اونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ہم چیخے چلائے، اپنے حقوق کی پائمالی پر حکمرانوں کے در پر دستک دی، مگر بے سود رہا۔ ہم نے ایوانوں کے در ہلائے مگر کوئی ہمارا درد آشنا سامنے نہ آیا۔ کوئی مسیحائی کرنے نہیں پہنچا، ہمیں کراچی اور اندرون سندھ میں روز ٹارگٹ کیا جاتا رہا۔

سیالکوٹ کا سانحہ اپنی جگہ غم ناک، المناک اور شرمناک ہے، مگر ہم یہ بھولے نہیں کہ اس شدت پسندی و تکفیریت اور جھوٹے الزامات کو بنیاد بنا کر ہمارا خون سڑکوں پر بہایا جاتا رہا، مگر کسی نے اس کا تدارک نہ کیا۔ ہمیں پنجاب میں چن چن کر مارا گیا، ہر ضلع ہماری مقتل گاہ بن گیا۔ ہمارے قاتلوں کو جیلوں میں کوٹھیوں جیسی سہولیات بہم پہنچائی جاتی رہیں اور ان کے گھروں کے اخراجات سرکاری خزانوں سے ادا ہوتے رہے، ہم نے مملکت کے حساس جغرافیائی ایریاز میں اپنی خوشی سے الحاق کیا تو ہمیں گلگت بلتستان میں اس سرزمین پاک سے وفاداری کی سزا دی گئی، ہمارے بنیادی آئینی حقوق پر چوہتر برسوں سے ڈاکہ مارا گیا ہے۔ ہماری زمینوں، کھیت کھلیانوں اور چراگاہوں کو ہم سے چھینا جا رہا ہے۔ ایک وقت میں ہم نے دیکھا کہ ہمارا لہو اس قدر ارزاں کر دیا گیا کہ ملک کے غداروں کو چھوٹ دے دی گئی کہ جو چاہے ان کے ساتھ کرو۔

دکھ اور غم کی یہ داستاں اس قدر طویل ہے کہ اس کا ہر صفحہ بے گناہوں کے پاک لہو سے سرخ ہے۔ ہمیں مسجدوں میں قتل کیا گیا، ہماری مسجدیں اور امام بارگاہیں اللہ کے مہمانوں کے خون سے رنگین ہوتی رہیں، ہم عبادت کیلئے گھر سے نکلتے تو ہماری لاشیں واپس آتیں۔ ہم کاروبار کیلئے بازار کا رخ کرتے تو ہمیں راستے میں گولیوں سے بھون دیا جاتا۔ ہم کارِ پیغمبری کیلئے کالج، اسکول، یونیورسٹیز جاتے تو ہمیں دن دیہاڑے خون میں لت پت کر دیا جاتا۔ ہم لوگوں کی مسیحائی کیلئے اسپتال پہنچتے تو سفاک گروہ ہمیں ادھر ہی مسیحائی کرنے کی سزا دینے پہنچ جاتے، ہم مسیحائی کرتے مارے جاتے رہے۔ ہم اعلیٰ تعلیمی اداروں میں علم کی خیرات بانٹتے مارے گئے۔ ہم ملکی سرحدوں کا دفاع کرتے مارے گئے۔ ہم مارشلاؤں میں ظلم کا شکار ہوتے رہے۔ ہمیں جمہوریت کے دعویداروں نے ایک ایک ووٹ کے بدلے میں سولیوں پر لٹکوایا۔ ہمیں ذبح کیا گیا، ہمیں جلایا گیا، ہمیں خون میں نہلایا گیا، ہمیں جیلوں میں مروایا گیا۔

ہم نے ہتھیار نہیں اٹھائے، ہم ریاست کے سامنے نہیں آئے، ہم نے فورسز پر اسلحہ نہیں تانا، ہم نے ملک کے خلاف کوئی سازش نہیں کی، ہمیں تعصب کی بدبو سے جواب دیا گیا، ہماری وطن سے محبت کو مشکوک دیکھا گیا۔ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری سمجھا گیا، ہماری اتحاد و وحدت کی پالیسی کو مجبوری گردانا گیا۔ ہم کیا کرتے، کسی ملک دشمن کے ہاتھ لگ جاتے، کسی دوسرے کے ایجنڈے پر چل پڑتے۔ کسی کی لگائی آگ میں کھیل کا حصہ بن جاتے۔ نہیں ہم نے ایسا نہیں کیا، ہم نے اپنے جوانوں سے طعنے سہے۔ ہمارے بزرگوں کو بزدلی کے الزامات گوارا رہے، مگر انہوں نے امن، استحکام، سلامتی، وحدت، اخوت، بھائی چارگی اور محبت کے گیت نہیں چھوڑے۔ اس کے باوجود کہ ہم اس ملک کا پچیس فی صد ہیں، مگر اپنے حقوق کی صریحاً پائمالی اور متعصب رویوں پہ تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا۔

نجانے سیالکوٹ میں وہ کونسی آفت آگئی تھی کہ ایک نہتے، بے قصور اور مہمان کے خلاف اتنے زیادہ لوگ اس ملک کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کیلئے جمع ہوگئے تھے اور ایک انسان کے بے گناہ قتل سے تسکین پا کر اس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ کہتے ہیں کہ کوئی بھی حادثہ ایک دم سے نہیں ہوتا۔ حالات، وقت اور رویئے اس کی پرورش کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی ترجیحات اور رویوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ بہت ہوگیا، اس ملک اور قوم کے ساتھ مذاق۔ اب ان متعصب رویوں کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ ہمیں اس ملک کی بقاء و سلامتی کی جنگ لڑنا ہوگی۔ ہمیں سی آئی اے کی جنگ یا عربوں کی پراکسیز سے جان چھڑوانا ہوگی۔ کل جس سے لڑنے کیلئے سی آئی اے اور سعودیہ کے تعاون سے جن (طالبان) کو میدان میں اتارا تھا، آج وہی افغان اسی کافر روس کے ساتھ مل کر اپنا اسلام نافذ کر رہے ہیں، کہاں گیا ہمارا وہ نام نہاد جہاد جس نے ہمارے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا اور گھر گھر اسلحہ، کلاشنکوف، بم، منشیات پہنچ گئیں، معاشرہ تباہ ہوگیا۔ شدت پسندی، تکفیریت اور قتل و غارت گری نے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر دیا۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہینگی، کیونکہ مقتدر حلقے اس ملک اور مملکت کو اپنی مرضی کی ڈگر پر رواں رکھیں گے اور یہ گھر یونہی جلتا رہیگا، جبکہ حالت کچھ یوں ہے کہ
دل کے پھپھولے جل اٹھے، سینے کے داغ سے
اس گھر کو  آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے


مقتدر حلقوں کو نجانے کب یہ سمجھ آئیگی کہ وہ جتنے بھی مہرے تیار کر لیں، گھوم پھر کر یہ آپ کی جڑوں میں بیٹھ جائیں گے کہ اس مٹی اور اس سرزمین سے ان کا اتنا ہی رشتہ ہے۔ کل تک آپ نے جنہیں پالا پوسا، وہی آپ کے قیمتی اثاثوں اور مراکز پر حملہ آور ہوئے۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، جو نئی پنیری لگائی تھی، اس نے آپ کے ملک کی اکانومی کا بیڑہ غرق کر دیا۔ آپ کی پولیس سے اس کا اعتماد چھین لیا، آپ نے انہیں کھلی چھوٹ دے دی، انہیں اپنے وجود کا حصہ قرار دے کر ان کے مقدمات کو ختم کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسئلہ ختم ہوگیا اور آپ جب چاہیں انہیں کنٹرول کر سکتے ہیں، ایسا ہرگز نہیں۔ سیالکوٹ کا سانحہ یہ متنبہ کر رہا ہے کہ زہر پھیل چکا ہے، اس کا تریاق کرنا ہوگا، وگرنہ اس ملک کے گلی کوچوں میں خدانخواستہ مقتل بنیں گے، ہم تو مقتلوں سے ہو کر گزر آئے ہیں، کاش ارباب اختیار کو اس کی سمجھ آجائے اور یہ مملکت خدا داد کا مستقبل تاریکی سے بچ جائے۔
خبر کا کوڈ : 967746
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش