1
4
Sunday 22 May 2022 23:32

لبنان الیکشن، غیر ملکی فنڈز سے امریکی سعودی مداخلت تک

لبنان الیکشن، غیر ملکی فنڈز سے امریکی سعودی مداخلت تک
تحریر: علی احمدی
 
اتوار 15 مئی کے دن لبنان میں پارلیمانی الیکشن اپنے مقررہ وقت پر منعقد تو ہو گئے لیکن ان پر بیرونی مداخلت کا سنگین سایہ منڈلاتا رہا۔ بیروت میں جو سفارت خانے ان الیکشن کے نتائج تبدیل کرنے اور اپنے اتحادی رہنماوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے سب سے زیادہ تگ و دو کا شکار رہے ان میں سے امریکہ اور سعودی عرب سرفہرست ہیں۔ بیروت میں واشنگٹن اور ریاض کے سفارت خانوں نے اس الیکشن میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے دو قسم کے ہتھکنڈے اختیار کئے۔ ایک لبنانی عوام کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات اور دوسرا اپنے حمایت یافتہ سیاسی گروہوں کو بھاری فنڈز فراہم کرنے پر مشتمل تھا۔ اسی طرح انہوں نے میڈیا پر اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کے خلاف بھرپور جنگ کا آغاز بھی کیا اور حزب اللہ کی مسیحی اتحادی جماعتوں کو اس سے دور کرنے کی کوشش کی۔
 
لبنان میں منعقد ہونے والے پارلیمانی الیکشن پر اثرانداز ہونے کی امریکی عربی کوششیں واشنگٹن اور ریاض کی سربراہی میں انجام پائیں۔ ان دونوں کے مطلوبہ اہداف کا مشترکہ نقطہ قوم پرست سیاسی گروہوں (جیسے آزاد وطن تحریک) اور اسلامی مزاحمت سے وابستہ تنظیموں (حزب اللہ اور امل) کو کمزور کرنے پر مشتمل تھا۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان کے ووٹ بینک کو کم کر کے عربی صہیونی پالیسیوں کی ہمسو شدت پسند جماعتوں کو مضبوط بنانا بھی ریاض اور واشنگٹن کے اصل مقاصد میں شامل تھا۔ انہوں نے سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے لبنان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے اپنی اتحادی قوتوں کو امدادی فنڈز فراہم کئے جانے کو بہترین حکمت عملی جانا۔ امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے ان فنڈز کی فراہمی کے اثرات مختلف مواقع پر ظاہر ہوئے جن میں سے ایک موقع ووٹنگ انجام پانے سے پہلے تھا۔
 
لبنان فورسز اور لبنان بٹالینز نامی سیاسی جماعتوں کی الیکشن کمپین دیگر جماعتوں سے بہت مختلف تھی اور ان کے پیشہ پھینک اقدامات حتی عام لوگوں کی نگاہوں میں بھی واضح دکھائی دے رہے تھے۔ امریکی اور سعودی فنڈز کے اثرات ظاہر ہونے کا دوسرا موقع الیکشن کا دن تھا۔ اس دن سمیر جعجع کی سربراہی میں لبنان فورسز اور لبنان بٹالینز (14 مارچ اتحاد میں شامل دو اسلامی مزاحمت کی مخالف جماعتیں) کو تقریباً پورا دن لبنان کے معروف ترین نیوز چینلز پر بھرپور کوریج حاصل رہی۔ یہ نیوز چینلز دن کے بعض حصوں میں تو واشنگٹن اور ریاض کے حمایت یافتہ ان سیاسی گروہوں کی سرگرمیوں کو حتی لائیو کوریج بھی فراہم کرتے رہے۔ اس قسم کے اقدامات پر لبنان کے اندرونی اور بیرونی حلقوں کی جانب سے وسیع ردعمل سامنے آیا اور تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔
 
مثال کے طور پر آزاد وطن تحریک کے سربراہ جبران باسیل نے پریس کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں لبنان کے حالیہ الیکشن پر خرچ ہونے والی بیرونی رقوم کس ملک کی جانب سے فراہم کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبنان کے الیکشن صرف اندرونی مسئلہ نہیں ہے۔ جبران باسیل نے سمیر جعجع پر الزام عائد کیا کہ وہ پیسہ خرچ کر کے لبنانی عوام کو دھوکہ دینا چاہتے تھے۔ اسی طرح عرب دنیا کے معروف تجزیہ نگار اور آن لائن اخبار رای الیوم کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ جن ممالک نے لبنان میں حالیہ الیکشن پر پیسہ خرچ کیا ہے وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر پائے۔ انہوں نے نمونے کے طور پر سمیر جعجع کی پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد کی جانب بھی اشارہ کیا۔
 
دوسری طرف لبنان میں امریکی سفارت خانے کی سرگرمیاں زیادہ تر سیاسی اور شدت پسندانہ اقدامات پر مرکوز رہی ہیں۔ لبنان امریکہ اور خطے میں اس کے اصلی ترین اتحادی یعنی اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کیلئے انتہائی درجہ اہمیت کا حامل ہے۔ لبنان کے حالیہ الیکشن پر اثرانداز ہو کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی امریکی کوششوں کا آغاز اکتوبر 2019ء میں رونما ہونے والے ہنگاموں سے ہوتا ہے۔ امریکیوں نے ان ہنگاموں سے اپنے حق میں بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے ایک طرف لبنانی قوم کے خلاف معیشتی گھیراو کیا اور یوں لبنانی عوام کو اقتصادی دباو کا شکار کیا جبکہ دوسری طرف لبنانی حکام پر سیاسی دباو کے ذریعے اپنے کٹھ پتلی سیاسی گروہوں کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ امریکی حکام نے "تبدیلی" کا نعرہ لگا کر لبنانی عوام کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی۔
 
جب پارلیمانی الیکشن کے حتمی نتائج کا اعلان کیا گیا تو امریکہ اور سعودی عرب دونوں کی سٹی گم ہو گئی۔ یہ نتائج لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیموں حزب اللہ لبنان اور امل اور ان کی اتحادی جماعتوں کی فتح اور کامیابی کی نوید دلا رہے تھے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور سعودی عرب لبنان میں فتنہ انگیزی ترک نہیں کریں گے۔ اس فتنہ انگیزی سے مقابلہ کرنے کا بہترین راستہ جلد از جلد ایک مضبوط حکومت کا قیام ہے۔ اگر مختصر مدت میں اکثریت کی حامل حکومت ابھر کر سامے آتی ہے اور اپنے کام کا آغاز کر دیتی ہے تو دشمن قوتوں کو نئی فتنہ انگیزی کا موقع میسر نہیں آئے گا۔ الیکشن میں فتح حاصل کرنے کے بعد اسلامی مزاحمتی گروہوں نے حریف جماعتوں کو بھی حکومت میں شریک کرنے کا عندیہ دیا ہے جو انتہائی خوش آیند ہے۔
خبر کا کوڈ : 995567
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہادی
France
بہت خوبصورت تحریر ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ طاقت کے زور پر ہر ملک میں سیاسی و عسکری مداخلت کی ہے۔ آج پاکستان میں بھی اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی کچھ خاص لوگ جو خود کو پاکستان کا محافظ اور محب وطن سمجھتے ہیں، امریکہ کے گن گاتے ہیں۔۔ افسوس ہے اس غلامی پر، امریکہ کی خونی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔۔۔ مگر پھر بھی وہی۔۔۔
ہماری پیشکش