0
Monday 23 May 2022 12:32

لبنان میں استعمار کی شکست

لبنان میں استعمار کی شکست
تحریر: محمد بشیر دولتی

استعمار اب ایسٹ انڈیا کمپنی نہیں بناتا۔ اپنے ملک سے اپنا نماٸندہ بھی نہیں  بھیجتا۔ استعمار اب جدید طریقے سے مختلف ملکوں میں اپنا تسلط جماتا ہے۔ وہ کسی بھی تاجر یا کمپنی مالک یا سیاست دان پر دست شفقت رکھتا ہے پھر اسے ملک کی اعلٰی قیادت پر پہنچا دیتا ہے۔ کسی میں تاجر اور سیاست دان دونوں اعلٰی صفات موجود ہوں تو وہ استعمار کا نور نظر بن جاتا ہے۔ ڈالر کے تھیلوں اور میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے محب وطن افراد کو غدار اور غدار کو محب وطن کے طور پر پہچانواتا ہے۔ مسیحاٶں کو قاتل، محافظوں کو لٹیرے اور لٹیروں و ظالموں کو مسیحا و مشکل کشاء کے طور پر معرفی کرتا ہے۔ جمہوری اکثریت کے باوجود یمن میں انصاراللہ کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا اور انہیں باغی گروہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

جمہوری طریقے سے آنے کے باوجود عراق میں حشد شعبی کے مراکز پر امریکہ حملہ آور ہوتا ہے۔ شام میں بشار الاسد کے ساتھ عوامی لگاٶ و حمایت کے باوجود انہیں ہٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاچکا ہے۔ کچھ ایسا ہی لبنان میں کیا جا رہا تھا۔ امریکہ سے سعودیہ تک فرانس سے اسراٸیل تک کی طاقتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھیں کہ اس بار حزب اللہ پارلیمانی الیکشن میں کوٸی بھی سیٹ نہ جیت سکے۔ استعمار کی امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں، جب حزب اللہ کے اتحاد نے 128 میں سے 68 سیٹیں حاصل کیں۔ مقابل میں سعد حریری اتحاد 47 سیٹیں جیت سکا، جبکہ امریکہ کے بنائے گئے سول سوساٸٹی اور این جی اوز کے نماٸندوں پر مشتمل تیسرا اور نیا اتحاد چند سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوا۔

حزب اللہ کو دیوار سے لگانے کے لئے اس بار اندرونی و بیرونی دشمن باہمی گٹھ جوڑ سے مسلسل جدوجہد کرتے رہے، جن میں عوامی پروپیگنڈہ اور ڈالر کے تھیلوں کا بڑا کردار رہا۔ سعودی سفیر نے کھل کر کہا کہ ”اس بار حزب اللہ کو ایک سیٹ بھی نہ دی جائے۔“ یہ فقط ایک بیان نہیں تھا بلکہ اسے عملی کرنے کے لئے بقول سید حسن نصراللہ کے ”ہم نے امریکی سفارتخانہ اور انتخابی فھرستیں دیکھیں، جو وہاں بنی تھیں“ بلکہ سید حسن نصراللہ جیسے معتدل و حق گو رہنماء نے بتایا کہ ”ہم نے سعودی سفیر اور پیسے کے تھیلے دیکھے جو خرچ ہوئے تھے۔“

دجالی میڈیا کے غلط پروپیگنڈے اور ڈالر و ریال کی ریل پیل کے باوجود لبنان کے باشعور عوام نے حزب اللہ سے اپنے قلبی و نظریاتی لگاٶ کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ایک تاریخ رقم کردی گئی۔ اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ حزب اللہ کا ایک شیعہ نماٸندہ تاریخ میں پہلی بار عیساٸی اکثریتی علاقے سے جیت گیا ہے، جو کہ حزب اللہ کا عیساٸی برادری میں بھی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حزب اللہ کے ایک اور امیدوار نے اسراٸیلی جاسوس و طرف دار سمیر ججعع کو ان کے گڑھ میں شکست فاش دے کر لبنان کے دوسرے غداروں اور آلہ کاروں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجاٸی ہے۔

یوں اس دفعہ حزب اللہ کے پاس دو اضافی سیٹیں آٸی ہیں۔ یہ دونوں سیٹیں امریکہ، سعودیہ اور اسراٸیل تینوں کے لئے انتہاٸی پریشانی کا باعث ہیں۔ مختلف پروپیگنڈوں سے حزب اللہ کو شیعہ جوانوں سے دور اور امل ملیشیا کے ساتھ اختلافات کو ہوا دے کر محدود کرنے کا خواب دیکھنے والے اب عیساٸی آبادی میں بھی اس کی مقبولیت سے خاٸف ہیں۔ اگرچہ حزب اللہ کی اتحادی اہل سنت و عیساٸی جماعتیں اپنی چند سیٹیں کھو چکی ہیں، مگر اس کے باوجود حزب اللہ اور اتحادی جماعتیں بہترین پوزیشن میں ہیں۔ حزب اللہ اب حکومت میں رہے یا اپوزیشن میں، مگر استعمار اور اس کے آلہ کاروں کو چین سے بیٹھنے نہیں دے گی۔ جب تک حزب اللہ جمہوری الیکشن میں حصہ دار ہے، استعماری طاقتیں لبنان کے اندر اپنے مذموم مقاصد میں ناکام و نامراد ہونگیں، ان شاء اللہ۔
خبر کا کوڈ : 995697
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش