0
Wednesday 23 Nov 2011 22:47

سیف الاسلام قذافی، لیبیائی یا برطانوی

سیف الاسلام قذافی، لیبیائی یا برطانوی
اسلام ٹائمز- سیف الاسلام قذافی ہفتے کے دن لیبیا کے جنوب مشرقی حصے سے گرفتار ہو گئے اور انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ اب اس قیمتی شکار کو برطانیہ کی پہنچ سے دور رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ برطانوی ایجنٹس کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائے۔ سیف الاسلام کے پاس ایسی قیمتی معلومات ہیں جو گذشتہ نصف صدی کے دوران لیبیا میں تمام برطانوی اقدامات کو فاش کرنے کیلئے کافی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ لیبیا اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کا سلسلہ گذشتہ صدی سے اب تک استوار ہے۔ درحقیقت السنوسی اور قذافی دونوں برطانیہ کی حمایت سے ہی لیبیا میں برسراقتدار آئے۔ جو چیز آج معمر قذافی کے سرنگون ہونے میں قابل توجہ ہے وہ برطانوی حکومت کی جانب سے سیاسی قلابازی ہے جسکے دوران 180 درجے گھوم کر برطانیہ نے قذافی سے منہ موڑ لیا اور انکے دشمنوں کے ساتھ دوستی کا رشتہ استوار کر لیا۔ لہذا لیبیا میں انجام پانے والی سیاسی تبدیلیوں میں برطانیہ اور یورپی ممالک کے کردار پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اکثر سیاسی ماہرین کی نظر میں برطانیہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لیبیا کے اندر معمر قذافی کے مخالفین کی اتنی بڑی تعداد موجود ہو سکتی ہے۔ لہذا برطانیہ نے قذافی کی حکومت سے اسٹریٹجک تعلقات قائم کر لئے اور اپنے گذشتہ اختلافات کو اپنے مفادات کی خاطر قربانی کر دیا۔ مختلف سروے رپورٹس کے مطابق گذشتہ دس سال اور خاص طور پر گذشتہ تین سالوں کے دوران لیبیا اور برطانیہ دو بڑے بزنس پارٹنر رہے ہیں۔ انکے تعلقات اس حد تک دوستانہ تھے کہ وزیر کی حد سے لے کر برطانیہ کے شاہی خاندان اور ملکہ کے دوسرے بیٹے شہزادہ انڈرو تک جا پہنچے تھے۔
برطانوی حکومت کے قریبی اخبار "انڈی پینڈنٹ" نے برطانیہ کیلئے لیبیا کی اہمیت سے متعلق 27 فروری 2011 کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے کچھ اہم نکار مندرجہ ذیل ہیں:
1. برطانوی حکومت لیبیا کو اپنی مارکیٹ میں تبدیل کر چکی ہے۔
2. سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے 2004 میں ایسے وقت لیبیا کے ساتھ خام تیل کی پیداوار سے متعلق 550 میلین پاونڈ کا معاہدہ کیا جب سیکورٹی کونسل میں لیبیا پر اقتصادی پابندیاں لگائے جانے کی گرما گرم بحث دنیا بھر کے میڈیا پر جاری تھی۔
3. ٹونی بلیئر نے 2007 میں دوبارہ قذافی سے ملاقات کی اور اس بار انکے ساتھ خام تیل کی پیداوار سے متعلق 900 میلین پاونڈ کا نیا معاہدہ انجام دیا۔
4. اسی سال ٹونی بلیئر اور قذافی کے درمیان دفاعی امور سے متعلق 350 میلین پاونڈ کا ایک اور معاہدہ بھی انجام پایا جسکے مطابق برطانیہ کو لیبیا کی دفاعی توانائی میں مزید اضافہ کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔
5. ٹونی بلیئر اس وقت بھی "جی پی مورگن" نامی بینک کے مشیر ہیں اور انکی ذمہ داری لیبیا میں امریکی سرمایہ کاری کو یقینی بنانا ہے جسکے تحت وہ ہر ماہ قذافی سے 10 ہزار ڈالر تنخواہ بھی وصول کرتے رہے ہیں۔
6. برطانیہ کی دس بڑی اور مشہور کمپنیاں لیبیائی حکومت کے ساتھ اربوں پاونڈ کے معاہدے انجام دے چکی ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان وسیع پیمانے پر موجود تجارتی تعلقات کو ظاہر کرتے ہیں۔
7. لیبیا کی حکومت برطانوی حکومت کو وہاں پر زیرتعلیم لیبیائی طلباء کے اسکالرشپ کی بابت 160 میلین پاونڈ بھی ادا کر چکی ہے۔
8. ملکہ برطانیہ کا دوسرا بیٹا "پرنس اینڈرو" کئی بار قذافی سے مل چکا ہے، انکی آخری ملاقات مارچ 2011 میں انجام پائی جو لیبیا میں عوامی انقلاب کے آغاز کے بعد تھی۔
9. رپورٹ کے مطابق لیبیا کے مرکز برائے سرمایہ کاری نے برطانیہ میں کئی میلین پاونڈ سرمایہ لگا رکھا ہے۔
10. برطانوی حکومت نے صرف 2010 میں لیبیا سے تقریبا 1٫29 ارب پاونڈ کا سامان درآمد کیا ہے جسکا بڑا حصہ تیل اور گیس کی صورت میں تھا۔
لیبیا اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کے بارے میں ہمیں قبول کرنا پڑے گا کہ دونوں ممالک کے درمیان روابط سوچ سے کہیں زیادہ تھے۔ برطانوی اخبار "ڈیلی میل" میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق:
"لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی کی دوسری بیوی سے ہونے والے بیٹے سیف الاسلام قذافی لیبیا اور برطانیہ کے درمیان تعلقات سے متعلق ایسی معلومات فاش کر سکتے ہیں جو برطانوی حکومت خاص طور پر لیبر پارٹی کے ذمہ دار افراد کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ مسئلہ اس حد تک سنجیدہ ہے کہ کہا جاتا تھا کہ قذافی کے بیٹے نے برطانوی افراد کو خرید رکھا تھا۔ اسی طرح لاکربی واقعے کے مجرم لیبیا کے شہری عبدالباسط المقری کی بظاہر انسانی حقوق کی بنیاد پر اچانک آزادی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت کہا جاتا تھا کہ المقرحی
پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا ہونے کے باعث کچھ ماہ سے زیادہ زندہ رہنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن یہ بات بڑے جھوٹ کے علاوہ کچھ نہ تھی کیونکہ اس وقت بھی قذافی مر چکے ہیں لیکن وہ ابھی تک زندہ ہے"۔
لیبیا کی وزارت خارجہ میں برطانیہ ڈیسک کے چیف جو سابق صدر معمر قذافی کے دوران حکومت سے اس عہدے پر فائز ہیں، نے پنڈل بری کو بتایا: "المقرحی سے مربوط مسائل برطانوی حکومت کیلئے انتہائی پریشان کن مسائل ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سیف الاسلام قذافی المقرحی کی آزادی کے بعد اسی دفتر میں آئے اور انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے: ہم انہیں خریدنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ وہ انتہائی خوش تھے"۔
ڈیلی میل کے اس رپورٹر کے مطابق سیف الاسلام قذافی معمر قذافی کا انتہائی محبوب فرزند تھا جو اس وقت اپنی جان بچانے کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ بعض باخبر ذرائع کا بھی یہی خیال ہے کہ وہ شدید زخمی ہو چکا ہے۔ سیف الاسلام، قذافی خاندان کا آخری فرد ہے جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
پنڈل بری مزید لکھتا ہے: "اگر سیف الاسلام قذافی کو عدالت میں اپنا دفاع کرنا پڑے تو انکے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ وہ بہت سے برطانوی وزراء، برطانوی سیکورٹی اداروں کے ذمہ دار افراد اور حتی شاہی خاندان کے کئی افراد کا نام لے سکتے ہیں۔ اگر سیف الاسلام قذافی گرفتار ہو جائے تو قوی امکان ہے کہ وہ عدالت میں سب کچھ کہ ڈالیں گے"۔
اس رپورٹ کے مطابق سیف الاسلام قذافی کے خلاف عدالتی کاروائی کے نتیجے میں جس ملک کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا وہ برطانیہ ہے۔ کیونکہ سیف الاسلام کو برطانوی خارجہ سیاست کی ناکامی کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی اور مغربی دنیا میں اپنے باپ معمر قذافی کے اہم مشیر کے طور پر کام کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیف الاسلام قذافی ایسے معاملات میں برطانوی حکومت کے ساتھ شریک رہے ہیں جن میں برطانیہ کے دو سابق وزراء اعظم ٹونی بلیئر اور گورڈن براون بھی شریک تھے۔
اکتوبر 2003 میں لیبیا لاکربی حادثے کا شکار ہونے والے افراد کے لواحقین کو ہرجانہ ادا کرنے پر راضی ہو گیا اور اس حادثے میں اپنی ذمہ داری کو قبول کر لیا۔ پانچ دن بعد ٹونی بلیئر نے سیکورٹی کونسل میں لیبیا پر اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کی قرارداد پیش کر دی۔ مارچ میں ٹونی بلیئر نے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس سے باہر ایک خیمے میں قذافی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں المقرحی کی رہائی کیلئے ضروری قانونی اقدامات طے پائے۔
اس ملاقات کے کچھ ہی عرصے بعد برطانوی کمپنی "برٹش پٹرولیم" نے لیبیا کے ساتھ خام تیل کی پیداوار سے متعلق 545 میلین پاونڈ کا معاہدہ انجام دیا۔ اس دوران کے ایک خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تمام واقعات میں سیف الاسلام قذافی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس خط کا ایک نسخہ طرابلس میں برطانوی سفارتخانے سے ملا ہے۔ اس خط میں ٹونی بلیئر نے سیف الاسلام کو "پیارے انجینئر" کے لقب سے یاد کیا ہے اور انہیں تعلیمی حوالے سے کچھ مشوروں سے نوازا ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹونی بلیئر کی حکومت کیلئے سیف الاسلام کے ساتھ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل تھے اور وہ کوشش کرتے تھے کہ سیف الاسلام کو اپنے تمام مذاکرات میں شامل کریں۔ ڈیلی میل کے رپورٹر نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ جو شخص اکیلے میں یہ کہ سکتا ہے کہ اس نے برطانوی افراد کو خرید لیا ہے وہ شاید عدالت میں یہ بھی بتا دے کہ انہیں کس قیمت پر خریدنے میں کامیاب ہوا ہے۔
البتہ اس نکتے کی جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ سیف الاسلام نے برطانیہ کو نہیں خریدا تھا بلکہ برطانیہ نے قذافی کو 1960 کی دہائی میں اپنے ملٹری کالج میں تعلیم دلوا کر اور پھر انہیں لیبیا میں واپس بھیج کر اور اسی طرح السنوسی جو ترکی میں زیر علاج تھے کو قربانی کر کے قذافی کے برسراقتدار آنے کا راستہ ہموار کیا۔ وہ سیف الاسلام کو قذافی کا حتمی جانشین خیال کرتے تھے لہذا قذافی کی جانب سے امریکہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے بعد سیف الاسلام قذافی کو برطانیہ لے گئے تاکہ اسکی وفاداری ثابت ہونے کے بعد ملت لیبیا پر اپنے استعماری تسلط کو برقرار رکھ سکیں۔ لیبیا میں عوام انقلاب کے آثار رونما ہونے کے بعد برطانیہ نے انکی حمایت کا ڈرامہ رچایا تاکہ وہ اسکی پس پردہ سازشوں سے آگاہ نہ ہو پائیں لیکن مومنین ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسے جاتے۔
نوٹ:
http//:Libya.blogfa.com/post- 302.aspx ؛ اس ایڈریس پر لیبیا اور برطانیہ کے درمیان موجود وسیع پیمانے پر تجارتی تعلقات پر مبنی تمام سروے رپورٹس موجود ہیں۔

خبر کا کوڈ : 116011
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش