0
Thursday 29 Dec 2011 15:24

پاکستان کے مسائل اور امریکہ کا جہاد

پاکستان کے مسائل اور امریکہ کا جہاد
تحریر:تصور حسین شہزاد
 
ایران میں انقلاب اسلامی کے بانی حضرت امام خمینی (رہ) نے ایک موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’مسلمانوں کی تمام تر مشکلات کا ذمہ دار امریکہ ہے، اگر گلی میں جاتے ہوئے کسی پتھر سے آپ کو ٹھوکر لگ جائے تو اس کے پیچھے بھی امریکہ کا ہاتھ ہو گا‘‘۔  امام کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسئلہ کے پیچھے امریکہ ہی ہوتا ہے۔ اب اگر پاکستان میں اس وقت جو جو بحران چل رہے ہیں ان پر نظر ڈالی جائے اور تحقیق کر کے اس کے تانے بانے ملائے جائیں تو ان کی کڑیاں واشنگٹن میں ہی جا کر ملیں گی۔
 
جب سے پاکستان ایٹمی قوت بنا ہے امریکہ و برطانیہ اور اسرائیل کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ اس سے بھی پہلے سے، بلکہ کہا جائے کہ 1947ء سے پاکستان کیخلاف سازشوں کا جال بنا جا رہا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک مسلسل مشکلات کا شکار چلا آ رہا ہے لیکن اس کے باوجود قائم ہے اور انشاء اللہ تاقیامت قائم رہے گا کیونکہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کی اساس کلمہ طیبہ پر رکھی گئی۔ اسے اسلام کا قلعہ کہا گیا، یہی وجہ ہے کہ دشمن کو پاکستان کی ترقی نہیں بھاتی، اسی لئے مسلسل سازشیں کی جا رہی ہیں۔

پاکستان اپنے قیام کے ہنگامہ خیز وقت سے لے کر اب تک زیادہ مضبوط نہیں ہو پایا ہے۔ اس کے عوام اور اس کے بعض اداروں کے سربراہوں کی ثابت قدمی کے باعث ہی یہ ملک چل رہا ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں اسے ایشیئن ٹائیگر قرار دیا جاتا جو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بہتری سے ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ یہ ان برسوں کی بات ہے جب کوریا اور دوسرے ملکوں کے لوگ یہاں یہ سیکھنے کے لئے آتے تھے کہ قومی ائیر لائن اور دوسری چیزوں کو کیسے تخلیق کیا جاتا ہے اور انہیں کیسے ترقی دی جاتی ہے لیکن ہمارے ترقی کے سفر کو ابتدا ہی میں روک دیا گیا، جب بھارت کے ساتھ امریکہ کے دفاعی امداد دینے کے معاملے پر ایک جنگ کا آغاز کر دیا گیا۔ اگر ہم یہ غلط فیصلہ نہ کرتے تو پاکستان کی قسمت آج سے بالکل مختلف ہوتی۔ 

امریکی سازش کے تحت ملٹری اور حکومتی ڈھانچے میں پیدا ہونے والی حالیہ ابتری ہم کو پستی کی جانب لے جانے کا ایک اور قدم ہے، جب اصولوں کی بجائے مصلحت کو ترجیح دی جانے لگے تو اسی قسم کے نتائج کی توقع ہوتی ہے۔ ہم جانتے بوجھتے ہوئے کہ پاکستان میں تمام مسائل امریکہ کے پیدا کردہ ہیں اس کے باوجود چپ چاپ امریکہ کی ہی بات مان لیتے ہیں۔ یہ وہی امریکہ ہے جو آگ لگا کر شور بھی مچا دیتا ہے کہ آگ لگ گئی ہے۔ 

امریکہ ہمارے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت کرتا ہے اس کا اعتراف سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس بھی کر چکی ہیں۔ کونڈو لیزا رائس کی جانب سے واضح طور پر لکھا گیا کہ کس طرح امریکہ نے صدر پرویز مشرف اور پی پی پی کی رہنما بے نظیر بھٹو کے درمیان معاہدہ کروایا تھا جنہیں پاکستان کی اگلی وزیراعظم قرار دیا جا رہا تھا۔ کونڈو لیزا رائس کے انکشافات سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ امریکی ایما پر ہی صدر پرویز مشرف نے ساز باز کر کے امریکہ کو پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرنے کے موقع دیا تھا۔ 

اس سے ہمیں حالیہ میمو گیٹ کا معاملہ یاد آ جاتا ہے، جس میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی اور اس کے حوالے سے صدر زرداری کے رویے کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ اگر ان کا اقدام بغاوت کے زمرے میں آتا ہے تو پرویز مشرف بھی اس کے مرتکب قرار پاتے ہیں۔ بگڑتے ہوئے پاک امریکہ تعلقات میں ایک اور برا موڑ اس وقت پیش آیا جب امریکی سینٹ نے دفاعی اخراجات کا بل پیش کرتے ہوئے پاکستان کی 700 ملین امریکی ڈالر کی مختص امداد کو منجمد کر دیا، جس کی بحالی کیلئے پاکستان کو یہ یقین دہانی کرانی ہو گی کہ پاکستان عسکریت پسندوں کی جانب سے امریکی فوجیوں کے خلاف دھماکہ خیز مواد کے استعمال کو روکنے کیلئے اقدامات اٹھائے گا۔ 

نیشنل جرنل میں چھپنے والے ایک مضمون الزام لگایا گیا کہ افغانستان میں دھماکہ خیز مواد کے استعمال کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے کیونکہ یہ مواد ہمسایہ ملک پاکستان سے آزادانہ طور پر افغانستان منتقل ہو رہا ہے۔ جون 2011ء میں جدید دھماکہ خیز بموں کے ذریعے افغانستان میں 1600 سے زائد حملے کیے گئے، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ جس سے دونوں شورش زدہ ملکوں میں اس سے پیدا ہونے والے خطرات کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ جون 2011ء میں دھماکہ خیز مواد کے ذریعے ہونے والے حملوں کی تعداد ماہانہ اوسط کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ تھی۔ 

مثال کے طور پر مئی کے مہینے میں دھماکہ خیز مواد کے استعمال کیے جانے والے حملوں کی تعداد 250 تھی۔ دھماکہ خیز مواد کے ساتھ پاکستان کو جوڑنے میں ایک اور پنڈورا بکس کھل گیا ہے، پاکستان کے لئے امریکی کانگریس کیا پیغام دینا چاہتی ہے۔؟ کیا وہ چاہتی ہے کہ پاکستان افغان عسکریت پسندوں کو جدید دھماکہ خیز مواد بچھانے سے روکے۔؟ جبکہ ایسا کرنا ایساف کی فوجوں کیلئے 2004ء سے ممکن نہیں ہوسکا۔ کیا یہ پیغام زیادہ دھمکی آمیز ہے اور امریکہ افغانستان میں جدید دھماکہ خیز مواد کی موجودگی کیلئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔

اگر واقعی اس سے یہی مراد ہے تو پھر اسے ایک فریب نظر ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اس سے ایک اور خطرناک بات یہ اخذ کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے پر دباؤ ڈالا جا سکے، جس کے ارکان کو جدید دھماکہ خیز مواد کے استعمال میں مہارت حاصل ہے۔ لیکن تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدید دھماکہ خیز بموں کے استعمال کا افغانستان میں کبھی پہلے نہیں سنا گیا تھا لیکن یہ مہارت عرب جنگجو 2004ء کے بعد عراق سے لاتے تھے۔

 امریکہ نے اپنے طور پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے جس کے لئے ایف بی آئی نے اپنی ویب سائٹ سے انتہائی مطلوب افراد کی فہرست سے ملا عمر کا نام بھی نکال دیا ہے۔ امریکہ شائد یہ سمجھتا ہے کہ کیونکہ اس نے ہی طالبان کی بنیاد رکھی تھی اس لئے طالبان اس کے ہی پیدا کردہ ہیں، وہ اس سے بات چیت بھی کر لیں گے، لیکن شائد امریکہ بھول گیا ہے کہ بنایا تو امریکہ نے ہی تھا لیکن اس کے لئے کوششیں جنرل حمید گل نے کی تھیں جو آج کل ظاہری طور پر امریکہ سے ناراض ہیں۔ 

دوسری جانب سخت گیر دینی جماعتوں پر مشتمل دفاع پاکستان کونسل کی جانب سے حال ہی میں جہاد کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے بعد احتیاط پسندی اور اداروں کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی ضرورت کا اظہار ہوتا ہے، ورنہ معاشرہ بڑے پیمانے پر سماجی بدامنی کا شکار ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس دفاع پاکستان کونسل میں کالعدم سپاہ صحابہ بھی شامل ہے، جس نے حرکت الانصار کے نام سے باقاعدہ ایک جہادی ونگ بنا رکھا تھا اور امریکی امداد سے پاکستان کے سادہ لوح نوجوانوں کو افغانستان لے جا کر عسکری تربیت دی جاتی اور پھر انہیں افغانستان میں کچھ عرصے’’جہاد‘‘ کروا کر پاکستان لایا جاتا، جہاں وہ دہشتگرد جنہیں امریکہ اپنے مفاد کیلئے مجاہد کہا کرتا تھا، یہاں مخالف فرقہ کے خلاف ’’جہاد‘‘ شروع کر دیتا۔
 
ان دہشتگردوں نے پاکستان کے قیمتی ترین لوگوں کو صرف اس لئے شہید کر دیا کہ ان کا جرم شیعہ ہونا تھا۔ ان اہم ڈاکٹرز، انجینئرز، بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی شہادت سے پاکستان کا بہت زیادہ نقصان ہوا اور آج پھر وہی جماعتیں منظم ہو رہی ہیں۔ انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف جہاد کا اعلان کرتی ہیں، لیکن ان کے اس نام نہاد جہاد سے امریکہ متاثر ہو نہ ہو پاکستان کے عوام ضرور متاثر ہوتے ہیں اور یہی امریکہ چاہتا ہے کہ اس کا جہاد جاری رہے۔ 
خبر کا کوڈ : 126067
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش