1
0
Wednesday 1 Feb 2012 21:47

میں اور دفاع پاکستان کانفرنس

میں اور دفاع پاکستان کانفرنس
 تحریر: محمد ثقلین 

 صحافی کسی بھی معاشرے میں نیوٹرل حیثیت رکھتا ہے، جس کی قلم صرف وہی لکھتی ہے جس کا وہ مشاہدہ کرتا ہے، لیکن جس طرح پاکستان میں صحافیوں کا استحصال کیا جا رہا اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی، جو کہ قابل مذمت ہے، جہاں پاکستان میں صحافیوں کو قتل اور اُن پر تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں وہیں بعض کالعدم تنظیموں کی جانب سے تنگ نظری کا بھی مظاہرہ جاری ہے، اسی تنگ نظری کا واقعہ گذشتہ روز میرے ساتھ پیش آیا۔
 آئیے سنیں میری کہانی میری زبانی
راقم گذشتہ چند سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہے اور مختلف مقامی اخبارات میں کام کر چکا ہے، 29 جنوری کو دفاع پاکستان کونسل کے زیراہتمام ملتان کے سپورٹس گرائونڈ میں دفاع پاکستان کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں راقم کو بھی جانے کا موقع ملا۔
راقم مقررہ وقت پر کانفرنس میں پہنچا تو گرائونڈ آدھا خالی تھا، میری طرف اُٹھنے والا ہر چہرہ شک کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا بلکہ یوں کہوں کہ مجھے کسی دہشتگرد کی شکل میں دیکھا گیا، راقم بڑی مشکل سے صحافی گیلری تک پہنچا، ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ سکیورٹی کے افراد میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور چند لمحوں بعد جلسے کی انتظامیہ نے مجھے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا کہ کر پنڈال سے باہر جانے کا کہا اور راقم کو مجبوراً باہر جانا پڑا۔ 

اب میرے پاس ایک ہی راستہ تھا صحافی برادری کی حمایت حاصل کروں اور کسی طرح کانفرنس کی رپورٹنگ مکمل کروں، جب میں باہر جا رہا تھا تو میری نگاہ اپنے اُستاد شفقت بھٹہ صاحب (روزنامہ خبریں) پر پڑی، میں نے اُنہیں تمام واقعہ سے آگاہ کیا تو اُنہوں نے میرا ساتھ دیا اور کانفرنس کی انتظامیہ سے کافی بحث کے بعد مجھے صحافی گیلری کے لیے کارڈ جاری کرایا، اس موقع پر دیگر صحافی بھی جمع ہو گئے اور میرے بارے میں مختلف رائے دینے لگے، اکثر نے کہا کہ یہ ایک صحافی ہیں، چاہے ان کا تعلق جس فرقے سے بھی کیوں نہ ہو۔ لیکن بعض نے کہا نہیں، ان کا تعلق ماضی میں مختلف شیعہ تنظیموں کے ساتھ رہا ہے اس لیے ان کو اس کانفرنس کا کارڈ جاری کرنا کسی خطرے سے خالی نہیں۔
 
صحافی کارڈ کے حصول کے بعد میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے کے لیے صحافی گیلری میں آ کر بیٹھ گیا، کوئی پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ دوبارہ انتظامیہ کے افراد میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں، تب مجھے احساس ہوا ہے کہ صحافی بننا کتنا مشکل ہے، پنڈال سے باہر آ کر انتظامیہ کے افراد نے کہا کہ پریس کلب کے صحافیوں اور کانفرنس کی انتظامیہ (کالعدم تنطیم کے رہنماء ڈاکٹر خادم ڈھلوں) کی مشاورت سے یہ فیصلہ ہوا ہے کہ آپ اس کانفرنس کی کوریج نہیں کر سکتے۔
 
وہاں موجو د کالعدم تنظیم کے میڈیا کوارڈینیٹر نے کہا کہ ایک تو آپ کا تعلق شیعہ مذہبی تنظیموں (امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور مجلس وحدت مسلمین) سے رہا ہے اور دوسرا آپ کے ادارے (اسلام ٹائمز) نے لاہور میں ہونیوالی دفاع پاکستان کانفرنس کی غلط رپورٹ شائع کی ہے اور آپ نے وہاں (سپاہ صحابہ) کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے، اس لیے ہم آپ سے مزید تعاون نہیں کر سکتے اور آپ اس کانفرنس کی کوریج نہیں کر سکتے۔ اسلام ٹائمز کا تو محض بہانہ تھا اصل میں مجھے ایک تنظیمی ہونے کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑا کہ مجھے اپنے فرائض سے روک دیا گیا۔ 

باہر جاتے ہوئے دوبارہ ایک دفعہ صحافیوں کے ایک جھرمٹ پر نظر پڑی، جب میں نے دوبارہ ان کے سامنے صدائے احتجاج بلند کی تو اُن صحافیوں نے یہ کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ صحافی ہیں یا نہیں، بلکہ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ یہ شیعہ تنظیموں کے رہنماء اور کافی سرگرم کارکن ہیں، یہ وہی صحافی تھے جنہوں نے میرے لیے کچھ دیر پہلے صدائے احتجاج بلند کیا تھا اور مجھے صحافی گیلری کا کارڈ لے کر دیا تھا۔ خدا جانے کہ آدھے گھنٹے میں کیا ہو گیا کہ جن کے ساتھ میں بیٹھا کرتا تھا، اُنہوں نے مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ 

راقم پوری تلاشی دینے کے بعد پنڈال میں داخل ہوا تھا، پھر نجانے اُنہیں مجھ سے کیوں خطرہ تھا، لیکن مجھے اس سوال کا جواب اُس وقت ملا جب میں یہ مضمون لکھ رہا تھا کہ اُن متعصب اور تنگ نظر لوگوں کو مجھ سے نہیں بلکہ میرے قلم سے خطرہ تھا، بعد میں مجھے بعض صحافیوں نے فون کر کے بتایا کہ کالعدم تنطیم کے رہنمائوں ڈاکٹر خادم ڈھلوں اور محمد احمد لدھیانوی کے حکم پر آپ کو کانفرنس کی کوریج سے روکا گیا، ہم مجبور ہو گئے تھے، راقم نے پھر بھی دفاع پاکستان کانفرنس کی مکمل کوریج کر کے اپنا فرض ادا کیا۔
خبر کا کوڈ : 134787
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

very nice
ہماری پیشکش