0
Tuesday 20 Oct 2009 10:39

ایران میں خودکش حملہ،پاکستان اور ایران کے دشمنوں کی کارروائی ہے

ایران میں خودکش حملہ،پاکستان اور ایران کے دشمنوں کی کارروائی ہے
ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان میں سرباز کے مقام پر ایک خودکش حملے میں سپاہ پاسداران انقلاب کے 7سینئر کمانڈروں سمیت 50 افراد ہلاک اور 40زخمی ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق شدت پسند تنظیم جند اللہ نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے جبکہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کہا ہے کہ یہ حملہ پاکستانی سکیورٹی ایجنٹوں کے تعاون سے ہوا ہے۔ لہٰذا اس میں ملوث افراد کو ہمارے حوالے کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ ہمارا حق ہے ان کی گرفتاری میں مزید وقت ضائع نہ کیا جائے اور پاکستان ان کی گرفتاری میں ایران کی مدد کرے۔ جبکہ ایرانی پارلیمینٹ کے سپیکر علی لاریجانی نے حملے کا الزام امریکہ پر عائد کیا ہے ایران کے سرکاری ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں برطانوی حکومت براہ راست ملوث ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں سپاہ پاسداران انقلاب پر کیا جانے والا یہ سب سے بڑا حملہ ہے۔ پاکستان میں ایران کے سفیر ماشا اللہ شاکری نے الزام عائد کیا ہے کہ شدت پسند تنظیم جنداللہ کا سربراہ پاکستان میں ہے، ایران میں پاکستانی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے احتجاج کیا گیا ہے تاہم پاکستانی سفیر نے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جند اللہ کے سربراہ کی پاکستان میں موجودگی کی کوئی اطلاع اور ثبوت موجود نہیں ہے۔ کچھ عناصر پاک ایران تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان ایران کی حمایت جاری رکھے گا۔ انہوں نے اس حملے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان عبد الباسط خاں نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر بڑے دکھ اور ایرانی حکومت اور عوام سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کو کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا۔ آخری اطلاع کے مطابق حملے میں جاں بحق ہونے والوں میں سپاہ  پاسداران انقلاب کی زمینی فورس  کے نائب سربراہ جنرل نور علی شوشتری، صوبہ سیستان و بلوچستان میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر رجب علی محمد زادے، ایران شہر کے کمانڈر ،امیرمومنین یونٹ کے کمانڈر اور بعض قبائلی عمائدین بھی شامل ہیں۔
ایران وہ مسلمان ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان گہرے سیاسی،ثقافتی،مذہبی اور تجارتی تعلقات کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔دونوں ملکوں نے آزمائش کی ہر گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔کم و بیش تمام علاقائی اور عالمی مسائل بھی دونوں ملکوں کے درمیان فکری و نظریاتی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ معاہدہ بغداد کے بعد دونوں ملک آر سی ڈی کے بھی ممبر رہے اور اب بھی کئی علاقائی اور عالمی تنظیموں میں دونوں ملک شامل ہیں۔ ایران نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور پاکستان نے ایران کے ایٹمی پروگرام کی نہ صرف ہمیشہ حمایت کی ہے بلکہ امریکہ اسرائیل اور بعض دوسرے مغربی ملکوں کی طرف سے ایران کو دی جانے والی دھمکیوں کو بھی مسترد کیا ہے۔ ایران نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ پاکستان کے موقف کی حمایت کی ۔بھارت سے 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں بھی بھارتی جارحیت کی مذمت کے علاوہ پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ پاکستانی عوام ایران کو اور ایرانی عوام پاکستان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور ہر سال لاکھوں پاکستانی مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے ایران جاتے ہیں۔صدر آصف علی زرداری نے دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے اور ایران کا دورہ بھی کیا۔ اس پس منظر میں یہ امر کسی وضاحت کا محتاج نہیں کہ دشمن قوتوں بالخصوص اسرائیل،بھارت اور ان کے سرپرستوں کے لئے دونوں برادر ملکوں کی دوستی کے یہ رشتے ناقابل برداشت ہیں۔ماضی میں بعض مغربی حلقوں نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جہاں تک جند اللہ کے کردار کا تعلق ہے۔خود بعض ایرانی حلقے امریکہ پر اس کی سرپرستی اور مالی تعاون کا الزام عائد کرچکے ہیں اور ایران میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں امریکہ کو ملوث قرار دے چکے ہیں۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو عالمی برادری کا ساتھ دینے کے نتیجے میں آج پاکستان خود دہشت گردوں کا ہدف بن چکا ہے۔ ہمارا پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے اب پاکستان اور ایران کے دشمن بالخصوص ایران کے ایٹمی پروگرام کے مخالفین جن میں اسرائیل بھارت اور امریکہ سرفہرست ہیں دو برادر اور ہمسایہ ملکوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تصادم کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں افغانستان،ایران،چین اور بھارت اہم ملک ہیں۔افغانستان کی پاکستان دشمنی اور دہشت گردی کے فروغ میں اس کا کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس حوالے سے اس کی ہمسائیگی بے معنی بن کر رہ گئی ہے۔ یہی کردار بھارت کا بھی ہے۔چین پاکستان سے طویل فاصلے پر واقع ہے لیکن ایران کی سرحدیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان سے ملتی ہیں اس لحاظ سے بھی پاکستان کے لئے ایران کی اہمیت باقی تمام ہمسایہ ممالک سے زیادہ ہے۔
امر واقع یہ ہے کہ ایرانی قائدین کی طرف سے پاکستان کے خلاف الزام تراشی اور جند اللہ کی قیادت کی پاکستان میں موجودگی کا اعلان محض ایک جذباتی عندیہ ہے اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔ اس حوالے سے صدر پاکستان، وزارت خارجہ اور ایران میں پاکستانی سفیر نے بھی اپنا موقف واضح کر دیا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں برادر ملک اس سازش کے پس پردہ عوامل اور اس کے اغراض و مقاصد کا ادراک کرنے اور متحد ہو کر ان سے نمٹنے کی کوشش کریں۔ بالخصوص پاکستانی قیادت کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ہمارے دشمن ہمارے خلاف اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر نت نئے محاذ کھولنا چاہتے ہیں، وہ بظاہر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہیں لیکن انہیں نہ صرف یہ کہ پاکستان سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ درپردہ ان دہشت گردوں کے سب سے بڑے سرپرست ہیں۔ اب یہ ہماری سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور پاکستان کے 17کروڑ عوام کو اس دلدل میں مزید دھنسنے سے بچائیں جو ہماری آزادی، سلامتی، بقا اور خود مختاری کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکی ہے ۔ اگر ہم نے اس کا بروقت ادراک کر کے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش نہ کی تو پھر ہمارے لئے مزید مشکلات پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔ اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ سب ان طاقتوں کا کیا دھرا ہے جو ہماری ہمدرد نہیں، ہمیں اپنے مفادات اور اپنی پالیسی کو ان کی عینک سے نہیں اپنی نظروں سے دیکھنا ہو گا۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ ہمارے بدخواہ ابھی ہمارے خلاف اور کتنے محاذ کھولنا چاہتے ہیں۔یہ صورتحال ہماری اس پالیسی کا نتیجہ ہے جس کی بنیاد پر ہم نے اپنی ڈوری دوسروں کے ہاتھوں میں دے رکھی ہے ۔ ظاہر ہے ایسی پالیسی ہمارے قومی مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتی۔ ہمارے دشمن ہمیں مذہبی،نسلی اور گروہی فرقہ واریت میں الجھا کر ایک نیا محاذ کھولنا چاہتے ہیں۔ اس سے بچنا اور اس محاذ کو بند کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
لہٰذا ہماری حکومت سے یہ گزارش ہے کہ وہ پاکستان دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم کا صحیح ادراک کرنے میں تاخیر نہ کرے۔ اس مقصد کے تحت برادر ملک ایران اور پاکستان کے سکیورٹی سربراہوں اور دوسری اہم ایجنسیوں کے درمیان وسیع تر مشاورت کے لئے فوری طور پر اجلاس طلب کیا جائے۔ سرحدوں پر سکیورٹی کے اقدامات کو زیادہ موثر بنانے کے ساتھ ساتھ چیک پوسٹوں کی تعداد بھی بڑھائی جائے۔ ہمارے دشمنوں نے پہلے ہمیں افغانستان کے خلاف الجھا کر دو برادر ملکوں کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو عداوت اور مخاصمت میں بدل دیا۔ اب وہ ایران کے حوالے سے ہمارے خلاف ایک نیا اور انتہائی خطرناک محاذ کھولنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی پاکستانی ایران کے ساتھ تعلقات میں معمولی کشیدگی بھی پیدا کرنے کے حق میں نہیں اور نہ ایسی کسی کوشش کو برداشت کرسکتا ہے کجا یہ کہ ایران کے اندر دہشت گردی کرنے والوں کو پاکستان میں روپوش ہونے کا موقع دیا جائے۔ لہٰذا ہمارا پاکستان کی حکومت کے لئے یہ خصوصی مشورہ ہے کہ وہ ایرانی قیادت کو اعتماد میں لیتے ہوئے ایسے المناک واقعات کی روک تھام کے لئے حکمت عملی وضع کرنے میں تاخیر نہ کرے، ورنہ ہمارے لئے ایک نیا اور انتہائی خطرناک محاذ کھل جائے گا جس سے پاکستان کی سلامتی اور بقاء کو لاحق خطرات مزید سنگین شکل اختیار کر جائیں گے اور معاملات پر ہمارے لئے قابو پانا اور زیادہ مشکل ہو جائیگا۔

خبر کا کوڈ : 13501
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش