0
Tuesday 27 Mar 2012 22:52

صہیونیت لرزہ براندام ہے

صہیونیت لرزہ براندام ہے
تحریر:ثاقب اکبر 

دینا بہت بڑی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ مشرق و مغرب میں طوفانی ہوائیں چل رہی ہیں۔ ورلڈ آرڈر واقعاً تبدیل ہو رہا ہے۔ افسوس ہمارے ہاں اس کا احساس بہت کم ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ اتنی تیز رفتار، وسیع و عریض اور گہری تبدیلیاں ہمارے ہاں اثر انداز نہ ہوں۔ کبوتر کی آنکھیں بند کرنے سے بلی غائب نہیں ہو جاتی۔
 
گذشتہ برس کے آغاز میں تیونس سے انقلاب کی جو لہریں اٹھیں وہ اچانک نہ تھیں اور نہ انہونی بلکہ یہ اوقیانوس کی تہوں میں عرصے سے پلنے والے ایک انقلاب کا سطح زمین پر آجانا تھا۔ پھر کیا تھا دنیا میں مختلف خطوں سے اس انقلاب نے سر ابھارنا شروع کر دیا۔ اس کے لیے واشنگٹن، لندن اور تل ابیب میں ایک طرح کی تشویش کا احساس کیا گیا۔ طاغوت عصر حاضر ایک ایسا جن ہے کہ جس کی جان اس طوطے میں ہے جسے لوگ اسرائیل کے نام سے پہچانتے ہیں۔ اس امر کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات اس صہیونی ریاست پر کیا مرتب ہو رہے ہیں۔ تمام تر صورت حال کو سمجھنے کے لیے یہ ایک بنیادی معیار قرار پاتا ہے۔ اگر مشرق وسطیٰ سے یہ صہیونی ریاست محو ہو جاتی ہے تو پہلے سے ڈانواں ڈول سرمایہ داری نظام کا زمین بوس ہو جانا یقینی ہو جاتا ہے۔ 

بات آگے بڑھانے سے پہلے تبدیلیوں کی چند علامتوں کا ذکر ضروری ہے۔ 

2010ء کے آخر اور  2011 کے اوائل سے مشرق وسطیٰ سے شروع ہونے والے انقلاب کے نتیجے میں صہیونیت کے چار بنیادی ستون زمین بوس ہو چکے ہیں۔ ان میں سے پہلا تیونس کا آمر بن علی ہے۔ دوسرا کیمپ ڈیوڈ کا محافظ اور خطے میں صہیونیت کا سب سے زیادہ اور اہم وفادار حسنی مبارک ہے۔ تیسرا لیبیا کا آمر کرنل قذافی ہے جس کے بارے میں اسرائیل کی ایک یہودی خاتون کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کی خالہ ہے اور چوتھا یمن کا علی عبداللہ صالح ہے۔ ان ملکوں میں داخلی طور پر تبدیلی جس مرحلے میں بھی ہو اور نیا اقتدار جن ہاتھوں میں بھی ہو بہرحال عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور وہ صہیونیت کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں۔ 

موجودہ ورلڈ آرڈر کے خلاف عوامی ردعمل مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں بلکہ اس کے مظاہر اب امریکا اور یورپ میں بھی نمایاں طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ چھ ماہ سے زیادہ عرصہ سے وال سٹریٹ قبضہ تحریک اسی ورلڈ آرڈر کے خلاف مغرب سے اٹھنے والے عوامی ردعمل کا عنوان ہے۔ یہ تحریک اپنی عالمی قوت کے کئی مظاہرے کر چکی ہے۔ اس کی اپیل پر ایک ہی دن میں امریکا اور یورپ کے آٹھ سو شہروں میں مظاہرے منعقد ہو چکے ہیں۔ یہ تحریک اپنے آپ کو 99 فیصد عوام کی 1فیصد استحصالی طبقے کے خلاف تحریک قرار دیتی ہے۔ یہ تحریک واضح طور پر مشرق وسطیٰ سے اٹھنے والی تحریک سے اپنی ہم آہنگی کا اعلان کر چکی ہے۔ 

سرمایہ داری نظام کے بڑے بڑے مراکز اقتصادی طور پر شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ امریکی اقتصادیات دیوالیہ سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ داخلی قرضوں پر انحصار کر رہی ہے۔ برطانیہ کی اقتصادیات بھی روبہ زوال ہے۔ حال ہی میں یورپی یونین نے یونان کو ایک بڑا بیل آﺅٹ پیکیج دے کر دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے وقتی سہارا مہیا کیا ہے لیکن اس کے بعد اسپین، برازیل اور دیگر کئی ملکوں کی باری ہے۔ دیکھیے یورپی یونین کب تک ایسے پیکیجز دے کر مختلف معیشتوں کو بچانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ شاید یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکے۔ ان اقتصادی حالات کا بالواسطہ اثر اسرائیل پر مرتب ہوا ہے۔ برطانیہ نے اسرائیل کو دی جانے والی امداد کم کر دی ہے۔ امریکا نے بھی اسرائیل کی امداد میں کٹوتی کی ہے۔ یورپ اور امریکا سے اب ایسی آوازیں زیادہ بلند آہنگ ہو رہی ہیں جن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی نازبرداری نے یورپ اور امریکا کی معیشت کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ 

امریکا، اس کے حواریوں اور اسرائیل کے لیے ایران اس وقت سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر کسی طرح سے ایران کے حوصلوں کو مات دی جا سکے تو شاید عالمی سطح پر پیدا ہونے والے اس ابھار میں کمی لائی جا سکے اور شاید کسی طرح سے اسرائیل کے وجود کو قائم رکھا جاسکے لیکن یہی مسئلہ ان کے لیے ایک بہت بڑا مخمصہ بن چکا ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں جو ایران سے خوفزدہ ہیں ان کے لیے سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا طاقت کے ذریعے سے ایران کو دبایا جا سکتا ہے یا ایران کے اندر کوئی من پسند تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اسی سوال کی تلاش نے آراء میں اختلاف کو جنم دیا ہے۔ امریکا، یورپ، جاپان وغیرہ میں اسرائیل کی حمایت اور مخالفت میں دھڑے بندی سامنے آ چکی ہے۔ خود حکومتوں کے اندر اختلاف رائے پیدا ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں حکمرانوں کو اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی رائے عامہ، معاشی صورت حال، اسرائیل کی جنگ اور بقاء کی صلاحیت نیز خطے اور دنیا پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا۔ 

اسرائیل کے خلاف عالمی رائے عامہ دن بدن منظم سے منظم تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی حمایت کے مراکز کم یا کمزور ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر کے دانشوروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں میں سے بڑی بڑی شخصیات صہیونیت کے خلاف اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں آواز بلند کرنے لگی ہیں اور اس کا ایک بڑا مظاہرہ گلوبل مارچ ٹو یوروشلم ہے۔ جسے دنیا کے تمام اہم مذاہب وادیان اور خطوں سے تعلق رکھنے والی نہایت اہم شخصیات کی حمایت حاصل ہے۔ 

اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع جو ایران پر فوری حملے کے لیے عالمی حمایت کے حصول کے لیے مسلسل اپنے حامی دارالحکومتوں کے دورے کر رہے ہیں انھیں کہیں سے بھی مثبت جواب نہیں مل رہا۔ یہاں تک کہ امریکی صدر باراک اوباما نے امریکا میں صہیونیت کی حامی سب سے اہم تنظیم ایپک ( Aipac) کے رواں ماہ میں منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں صہیونیوں کے خلاف اپنی تمام تر وفا داریوں کا اعلان کرنے کے باوجود اجلاس میں موجود اسرائیلی وزیراعظم کی اس خواہش کو قبول کرنے سے خوبصورت انداز سے انکار کر دیا۔ 

امریکا، اسرائیل اور ان کے دوستوں نے ایران پر جو تازہ ترین پابندیوں کا تانا بانا بُنا تھا وہ بھی اکھڑ گیا ہے۔ خود امریکا نے جاپان اور دس اہم ترین یورپی ممالک کو ان پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دے کر ان کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ روس، چین، بھارت اور پاکستان پہلے ہی ان پابندیوں کو قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کو اپنی بقا کے حوالے سے اگرچہ ایران کا شدید خوف لاحق ہے لیکن ایران کے خلاف امریکا اور اسرائیل کی ہر تدبیر الٹی پڑ رہی ہے۔ ایران پر پابندیوں نے یورپ سے زیادہ امریکا کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ پہلے ہی سے دباﺅ کا شکار امریکی معیشت ایرانی تیل پر پابندیوں کی وجہ سے مزید مشکلات کا شکار ہو چکی ہے جبکہ تیل کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ایران کو حاصل ہونے والی اضافی آمدنی نے پابندیوں کے اثرات کو صفر کر دیا ہے۔ 

2006ء میں حزب اللہ کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کے بعد غزہ کے باسیوں سے بھی اسرائیل عملاً شکست کھا چکا ہے۔ ان شکستوں نے اسرائیلی عوام کو اپنے مستقبل کے بارے میں بہت خوف زدہ کر دیا ہے۔ 2006ء سے لے کر آج تک لاکھوں اسرائیلی ترک سکونت کر کے امریکا اور دیگر ملکوں میں واپس جا چکے ہیں جہاں سے انھیں یہودی بنیاد پرستی کی لہر کو ابھار کر لایا گیا تھا۔ لاکھوں اسرائیلی اس وقت بھی واپس جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ کوئی ایک معمولی سا حادثہ یا واقعہ واپسی کی اس رفتار کو اور بھی تیز کر دے گا۔ 

فلسطین سے باہر آباد جلا وطن فلسطینیوں کے اندر اپنے وطن واپس جانے کی امنگ، تڑپ اور تحریک بہت زور پکڑ چکی ہے۔ وہ کئی مرتبہ صہیونی ریاست کی سرحدوں کی طرف مارچ کر کے اپنی اس تڑپ کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان دنوں فلسطین کے یوم الارض کی جس سطح پر تیاریاں کی گئی ہیں اس سے اسی خواہش کی شدت کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر صہیونیت لرزہ براندام ہے تو یہ قابل فہم ہے۔
مصنف : تنویر حیدر سید
خبر کا کوڈ : 148585
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش