0
Wednesday 14 Mar 2012 11:57

دہشتگردی و منشیات کا ٹھیکیدار

دہشتگردی و منشیات کا ٹھیکیدار
تحریر: نصرت مرزا
   
اِس خطہ میں جہاں چین، روس، ایران اور پاکستان واقع ہے، امریکہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے بہت زیادہ سرگرم ہوگیا ہے، وہ افغانستان میں بیٹھ کر سارے ممالک کو پریشان کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ اس نے صرف انڈیا کو اپنا نیا اتحادی بنا کر خطہ میں پاؤں جمانے کی کوشش کی ہے۔ پہلے پاکستان تھا جو اُس کے مفادات کا تحفظ کرتا تھا اب اس نے ہندوستان کو اپنا نیا مستقر بنا لیا ہے۔ افغانستان جہاں امریکہ خود حالتِ پریشانی میں بیٹھا ہوا ہے، اس وقت منشیات کا سب سے بڑا مرکز ہے اور یہ بات پاکستان کے صدر نے 17 فروری 2012ء کو افغان صدر کے سامنے کہہ دی ہے مگر امریکہ نے روس پر دباؤ بڑھانے اور سینٹرل ایشیا کے پانچ ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کے لئے ایک نئی مہم Central Asia Counter-narcotics Initiative ”انسداد منشیات تحریک برائے سینٹرل ایشیا“ شروع کی ہے۔
 
مقصد صرف روس کو دبانے، اُسے تنہا کرنے اور ولادیمیر پیوٹن کی کامیابی کی صورت میں روس کے دُنیا کی سیاست میں بڑھتے ہوئے اثر کو روکنا ہے۔ جس پر روس بہت چراغ پا ہے اور اس نے اپنے زیراثر دوست ممالک کو سختی سے روک دیا ہے کہ وہ ایسی کسی مہم کا حصہ نہ بنیں جو امریکہ چلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ روس سے آزاد شدہ ممالک پر مشتمل ایک تنظیم (CSTO) Collective Security Treaty Organazition روس کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور روس نے اس تنظیم پر واضح کیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ اس مہم میں تعاون کیا گیا تو اس خطہ میں وہ اپنا اثر و رسوخ بڑھا لے گا اور اُسی طرح جس طرح اس نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ساری دُنیا کو خوفزدہ کر کے اپنے رعب و دبدبہ کا سکہ بٹھایا تھا, اسی طرح وہ منشیات کے حوالے سے سینٹرل ایشیا میں اپنے قدم جمانے اور روس کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کیلئے مہم چلانے نکلا ہے۔ 

اگرچہ وہ افغانستان میں خود منشیات کی پیداوار کا نگہبان ہے۔ وہی ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور وہ کیمیاوی مواد فراہم کرتا ہے جس سے ہیروئن، چرس اور دیگر منشیات بنائی جاتی ہیں۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ سی آئی اے اپنے اخراجات پورے کرنے، جنگ میں رشوت دینے یا لوگوں کو منشیات کا عادی بنانے کے لئے مشینیں فراہم کرتا ہے، جیسا کہ ہم نے روس کے خلاف جنگ میں دیکھا کہ وہ روس کے فوجیوں کو منشیات کا عادی بنانے پر کام کر رہا تھا اور منشیات کی فیکٹریاں آج جس پاکستانی علاقہ کی جگہ کو وہ بدنام کر رہا ہے وہاں لگا رکھی تھی، جس کی وجہ سے خود پاکستان میں ہیروئن کے عادی افراد کی تعداد جو پہلے صفر تھی اب وہ بڑھ کر لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔ ولی کرزئی جو قندھار کے گورنر اور افغانی صدر حامد کرزئی کے سوتیلے بھائی تھے وہ امریکی منشیات کے اس پروگرام کو کنٹرول کرتے تھے۔
 
ایک سروے کے مطابق امریکہ کے افغانستان میں وارد ہونے کے بعد منشیات کی تیاری اور اسمگلنگ کئی گنا بڑھ گئی ہے جو کہ طالبان کے دور میں صفر کے درجے پر تھی۔ ملا عمر نے حکم جاری کیا کہ پوست کی کاشت بند کر دی جائے، سو بند ہو گئی، مگر امریکہ کو یہ کب پسند ہے کہ انسان کی بھلائی ہو، وہ تو انسانوں کو معذور کرنا چاہتا ہے، خصوصاً اپنے دشمنوں کو، اور اُس کے دشمن وہ ہیں جو آزاد رہنا چاہتے ہیں یا جہاں پر امریکی مفادات وابستہ ہیں یا جو انرجی اور معدنی وسائل کے حامل ملکوں کے باشندے ہیں۔ 

امریکہ نے 80ء کے عشرے میں پاکستان کو معمول بنا کر (یا ہم خود معمول بننے کے خواہشمند تھے) روس کو شکست دی تھی، مگر اب روس کی معاشی حالت امریکہ سے بہتر ہے۔ پھر امریکہ نے روس کے انتخابات میں مداخلت کر کے ولادیمیر پیوٹن کو روسی صدر بننے سے روکنے کے لئے بڑے جتن کئے، 4 مارچ کو پیوٹن روس کے صدر بن گئے ہیں تو امریکی کہتے ہیں کہ وہ مشکلات میں گھرے رہیں گے، جس کے یہ معنی ہیں کہ امریکہ پیوٹن کے لئے مشکلات پیدا کرتا رہے گا۔ اسی لئے روس بھی اب کھل کر میدان میں آ گیا ہے۔ اُس کو امریکہ کی منشیات کے بہانے سینٹرل ایشیا میں اثر و رسوخ بڑھانے اور روس پر دباؤ بڑھانے کی مہم جوئی پر سخت اعتراض ہے۔ 

اس طرح وہ اِس خطہ کی معدنیات، انرجی وسائل اور روسی حساس تنصیبات کی معلومات اکٹھی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وہ ان ممالک کی انٹیلی جنس سروسز سے رابطہ رکھ کر ایسی معلومات حاصل کرے گا جو خطہ کے ممالک اور روس کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور ان ممالک کے ساتھ روس کی سکیورٹی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس طرح وہ ان تمام ممالک کو بلیک میل کر کے اِن پر اپنا حکم چلانے لگے گا جیسا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ کیا۔
 
امریکی حکام یہ کہتے ہیں کہ روس کے (CSTO) کے ممالک کو منشیات کے معاملے میں تعاون سے منع کرنے کے باوجود اِن ممالک سے منشیات کے معاملے میں رابطہ جاری رہے گا جبکہ روس کا امریکہ سے یہ کہنا ہے کہ وہ افغانستان پر توجہ دے، جو منشیات کا گڑھ ہے۔ پاکستان کو بھی اس سلسلے میں اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے، جو روس کے خیالات اور مفادات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مفادات کو پیش نظر رکھ کرطے ہونی چاہئے۔ صدر آصف علی زرداری نے اپنی پالیسی اس وقت واضح کر دی تھی کہ افغانستان منشیات کا مرکز ہے اور اس سے حاصل شدہ پیسے سے امریکہ اور دہشتگرد دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ خود دہشتگردی پھیلاتا ہے، خود منشیات پیدا کراتا ہے اور خود ہی اس کے سدباب کا مصنوعی ٹھیکہ دار بن جاتا ہے۔
 "روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 145502
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش