0
Sunday 27 May 2012 09:22

الحاق، اتحاد یا بحرین کو ہڑپ کرنیکا سعودی منصوبہ

الحاق، اتحاد یا بحرین کو ہڑپ کرنیکا سعودی منصوبہ
 تحریر: محمد علی نقوی
 
سعودی عرب کے ساتھ بحرین کے الحاق کے سیاسی منصوبے پر تنقید اور احتجاجات کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور ناقدین اس منصوبے کو قانونی لحاظ سے ناقابل عمل اور سیاسی لحاظ سے ایک سازش قرار دے رہے ہیں۔ بحرین میں حکومت مخالف اعتراضات اور احتجاجات میں اضافے اور آل خلیفہ کی صورت حال پیچیدہ ہونے کی بنا پر سعودی عرب سے بحرین کے الحاق کا معاملہ انتہائی اہم موضوع بن گیا ہے۔ خلیج فارس تعاون کونسل میں اس کی مخالفت کی گئی، لیکن آل خلیفہ اور آل سعود اس کے باوجود اس پر مسلسل تاکید کر رہے ہيں۔ درحقیقت سعودی عرب نے بحرین کو ہمیشہ ہی لالچی نظروں سے دیکھا ہے اور اس ملک پر لشکرکشی کے بعد سے ہی اسے اپنے زیرتسلط لینے کی کوشش کی۔
 
یہ ایسے عالم میں ہے کہ سعودی عرب اور بحرین کے الحاق کا معاملہ سامنے آنے کے بعد سے ہی ملکی اور غیر ملکی سطح پر بڑے پیمانے پر تنقیدیں شروع ہو گئی ہيں۔ ناقدین اس سلسلے میں نہایت اہم موضوعات کی جانب اشارہ کر رہے ہيں، جس نے اس پر عمل درآمد کو مشکل بنا دیا ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دو ملکوں کے درمیان اتحاد کوئی ایسی چیز نہيں ہے جس پر ملکوں کے حکام اکیلے ہی فیصلہ کر لیں، بلکہ اس طرح کے مسائل کے لئے عوامی ریفرینڈم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے منشور میں بھی عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اس بنیاد پر بحرین کی جمعیت الوفاق نے اس ملک کے سب سے بڑے مخالف گروہ کی حیثیت سے ایک بیان جاری کر کے تاکید کی ہے کہ کسی ملک کے شہری طاقت کا اصلی سرچشمہ اور اپنے ملک کی قسمت کا اصلی فیصلہ کرنے والے ہوتے ہیں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق اس طرح کا الحاق عوام کی رائے اور ریفرینڈم کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔
 
دوسرا اہم موضوع جسے مدنظر رکھنا چاہئے وہ سعودی عرب اور بحرین کے الحاق کا مسئلہ اٹھائے جانے کے وقت کا ہے۔ درحقیقت یہ منصوبہ اس وقت سامنے آیا جب آل خلیفہ کو زبردست عوامی احتجاجات کا سامنا ہے اور اسے عوامی حمایت اور قانونی حیثیت حاصل نہيں ہے۔ بحرین کی حکومت اس وقت عوام کی نظروں میں اپنی قانونی حیثیت کھوچکی ہے اور اس میں یہ صلاحیت ہی نہيں ہے کہ وہ اس طرح کا بڑا بین الاقوامی معاہدہ کرے۔ ان حالات میں اس طرح کے منصوبے کا مقصد بحرینی عوام کی انقلابی تحریک کو ناکام بنانا ہے اس بنا پر عرب ماہرین اور دانشور اس منصوبے کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے بحرین کو ہڑپ کرنے کے لئے ایک سازسش قرار دے رہے ہیں۔
 
بحرین کی عمل اسلامی پارٹی کے رہنما ڈاکٹر راشدالراشد نے سعودی عرب سے بحرین کے الحاق کے منصوبے کو اس ملک کو ہڑپ کرنے کی ایک سازش قرار دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ دونوں ملکوں کے اتحاد کے لئے خاص شرائط اور حالات کی ضرورت ہے، جس میں سب سے اہم شرط ان دونوں ملکوں میں ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کے احترام کا پایا جانا ہے جو ایک دوسرے سے ملحق ہونا چاہتے ہيں جبکہ آل خلیفہ اور آل سعود دونوں کی حکومتوں میں انسانی حقوق کا فقدان ہے۔
 
اس سلسلے میں تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ بحرین ایک خودمختار اور اقوام متحدہ کارکن ملک ہے، اس بنا پر بحرین اور سعودی عرب کے الحاق کے بارے میں فیصلہ آل سعود اور آل خلیفہ نہيں کر سکتے، بلکہ اس سلسلے ميں بین الاقوامی قوانین کو مدنظر سمجھا جانا چاہئے، جس میں سب سے اہم بحرینی عوام کی رائے ہے۔
 
ان تینوں موضوعات کو نظرانداز کئے جانے سے بحرین اور سعودی عرب کے اتحاد کے منصوبے کا سازش ہونا کھل کر واضح ہو جاتا ہے اس بنا پر اس منصوبہ پر ملکی اور غیرملکی حلقوں میں شدید تنقید ہور ہی ہے۔ آل سعود گذشتہ ایک برس سے بحرین کے عوامی مظاہروں کو کچلنے اور بحرین کی حکومت کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے، اسی لئے اس نے بحرینی عوام کے مظاہروں کو تشدد کے ساتھ کچلنے کے لئے ایک ہزار سے زیادہ فوجی بحرین بھیجے ہیں۔ سعودی حکام کو اس بات کا خوف ہے کہ کہیں بحرین میں عوامی احتجاج بادشاہی نظام کی تبدیلی اور بحرین میں اصلاحات پر منتج نہ ہو اور یہ تحریک سعودی عرب کے تیل سے مالامال مشرقی صوبے تک نہ پھیل جائے۔ 

آل سعود کے ذریعہ اتحاد کی تجویز یا دوسرے لفظوں میں بحرین پر قبضہ کی سب سے پہلے مخالفت حکومت مخالف تنظیموں اور ممتاز شخصیتوں نے کی۔ بحرین کی سب سے بڑی تنظیم الجمیعۃالوفاق کے جنرل سیکرٹری حجۃ الاسلام شیخ علی سلمان اس بارے میں کہتے ہیں کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ اتحاد یعنی درحقیقت سعودی عرب کے ساتھ بحرین کے ادغام کے مخالف ہیں اور اپنی حکومت سے چاہتے ہیں کہ وہ ملت بحرین کے مطالبات پر توجہ دے۔ حکومت بحرین عوامی تحریک کو تشدد کے ذریعہ سرکوب کرنا چاہتی ہے جو اس کی احمقانہ پالیسی ہے اور حکومت ملک میں جاری ان مظالم کی ذمہ دار ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ، حکومت اور قوم کا کوئی بھی نمایندہ نہیں چاہتا کہ ملک کے حالات خراب اور بحرانی ہوں، اس سلسلے میں عمل درآمد کے لئے کیا جانے والا ہر فیصلہ غلط اور غیر قانونی ہے۔
 
حقیقت یہ ہے کہ ریاض کے حکام پر بحرین پر قبضہ کے بعد مختلف بین الاقوامی تنظيموں اور عالمی رائے عامہ کا جب دباؤ بڑھ گیا تو وہ بحرین کو اپنے ملک میں شامل کرکے عالمی رائے عامہ کو فریب اور دھوکہ دے کر عالمی دباؤ کو کم کرکے اپنے ملک کی داخلی سلامتی کو مستحکم اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور ملک میں آنے والے سیاسی زلزلے سے اپنے نظام کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لئے کہ تیونس، مصر اور یمن میں آنے والے انقلاب کے جھٹکے انھیں بھی اپنی لپیٹ میں ضرور لے لیں گے۔
 
بحرین کے بارے میں آل سعود کی پالیسی کو واضح اور روشن کرنے کے لئے دو بنیادی مسئلوں پر توجہ دینی چاہئیے۔ پہلے مرحلے میں یہ واضح ہونا چاہئیے کہ بحرین میں سعودی عرب کے مفادات کیا ہیں؟ اور اس نے بحرینی عوام کے قیام اور تحریک کو کچلنے کے لئے اپنے فوجیوں کو کن قوانین کے تحت بحرین بھیجا ہے۔؟ دوسرے یہ کہ بحرین کے سعودی عرب سے الحاق میں کیا کوئی قانونی پہلو پایا باتا ہے؟ پہلے سوال کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ اس وقت سعودی حکام کو مصر، تیونس اور لیبیا کے حکام کی سرنوشت دیکھنے کے بعد تشویش لاحق ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ اس طرح کے واقعات ان کے علاقے میں بھی رونما ہوں۔ 

واضح رہے کہ علاقے کے ممالک میں سیاسی تبدیلیاں آنے کی صورت میں سعودی عرب بھی اس تبدیلی سے محفوظ نہیں رہ پائے گا اور سرانجام ایک نہ ایک دن اس ملک کے عوام بھی اپنے ملک میں جمہوریت کے لئے آواز بلند کریں گے اور تبدیلی کے خواہاں ہوگے۔ علاقے میں آنے والی قومی بیداری، جسے مغرب والے بہار عربی کے نام سے یاد کرتے ہيں، عرب معاشروں میں ڈکٹیٹر دور کے خاتمہ کے ساتھ قبائلی حکومتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسلامی انقلاب کا بنیادی ترین نعرہ عوامی حکومت کا نعرہ ہے اور بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور بیان ہے کہ میزان اور معیار لوگوں کی رائے ہے، اسی بیان کی روشنی میں عرب معاشروں میں قومی بیداری کی لہر اٹھ۔ 

جمہوریت میں شیعہ ہوں یا سنی، سب برابر ہیں۔ بحرین میں تقریباً دس لاکھ سے زائد آبادی ہے اور اکثریت شیعوں کی ہے، لیکن اس وقت بحرین میں شیعہ سنی دونوں بحرین پر حاکم نظام میں تبدیلی اور قبائلی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ سعودی عرب میں بھی آل سعود کی خاندانی اور موروثی حکومت کا تسلط ہے۔ علاقے میں آنے والی تبدیلیاں اور عوام تحریکوں کے واقعات ایسے حقائق ہیں جن سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ان تبدیلیوں کا اصل محور ڈکٹیٹروں کی نفی اور قبائلی، موروثی اور استبدادی نظام کا زوال ہے۔ سعودی حکام کو مستقبل میں اپنی خاندانی حکومت کی بقا کی فکر لاحق ہے۔
 
مشرق وسطی کے عوام اسلامی تہذیب کی بنیاد پر عوامی حکومت کے خواہاں ہیں، جسے اسلامی بیداری کہا جاتا ہے۔ اسلامی بیداری درحقیقت قبائلی حکومت کے زوال کا آغاز ہے۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ کیا بحرین کے سعودی عرب کے ساتھ الحاق میں آل سعود کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت ہے؟ سعودی عرب میں قبائلی نظام پر مبنی حکومت قائم ہے۔ آل سعود کے خاندان کو اس ملک کے دوسرے تمام قبائل پر برتری حاصل ہے اور وہ آل خلیفہ کےخاندان اور مجموعی طور پر بحرین کو اپنے زیر تسلط لانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایسے منصوبے یا تجویز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ 

ایک خاندان جو کئی عشروں سے بحرین پر حکومت کر رہا ہے اپنی قبائلی اور غیر جمہوری حکومت کو باقی رکھنے کے لئے دوسرے ملک کے ساتھ اتحاد اور الحاق چاہتا ہے۔ مصر میں حسنی مبارک اور تیونس میں بن علی جیسے ڈکٹیٹر اور پٹھو حکام جو بظاہر ماڈرن اور جمہوری حکومت چلا رہے تھے اسلامی بیداری کی لہروں کے سامنے نہيں ٹک سکے اور سرنگوں ہو گئے۔ بنابر این خلیج فارس کے حکام کو مصر، تیونس اور لیبیا کے حکام سے زیادہ ختم اور سرنگوں ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔
 
تیل کے ذخائر سے حاصل ہونے والی دولت کے ذریعہ سعودی عرب، بحرین اور خلیج فارس کے دیگر قبائلی حکام اپنی حکومتوں کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والے ڈالروں کے ذریعہ وہ اپنی حکومتوں کو زیادہ دنوں تک نہيں چلا سکتے اور نہ ہی یہ ڈالر ان کی حکومتوں کی بقا کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ الحاق یا اتحاد یا صاف لفظوں میں کہا جائے تو سعودی عرب کی طرف سے بحرین کو نگلنے کا منصوبہ ہے، لیکن ناکامی اس کا مقدر ہو گی، کیونکہ بحرین کے عوام بیدار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 165875
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش