0
Thursday 24 May 2012 12:45

بحرین الحاق سعودی منصوبہ

بحرین الحاق سعودی منصوبہ
تحریر: ہما مرتضیٰ

گذشتہ کئی مہینوں کی کوششوں کے بعد بالآخر آل سعود نے بحرین پر اپنے تسلط کا راستہ تلاش کر ہی لیا۔ بحرین پر قبضے کی سعودی سازش پچھلے ایک سال سے جاری ہے۔ بحرینی عوام کے مطالبات کا سر کچلنے کے لیے اس نے پچھلے کئی ماہ سے اپنی فوج بحرین میں تعینات کر رکھی ہے جو عوام پر مسلسل ظلم و بربریت کے پہاڑ صرف اس وجہ سے توڑ رہی ہے کہ انھوں نے آل سعود کے اتحادی آل خلیفہ کے سامنے سر اٹھایا ہے اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کو بھی اقتدار میں شریک کریں۔ اپنے جائز حق کے لیے آواز اٹھانے پر مظلوم عوام پر سعودی فوجیں مسلط کر دی گئی ہیں جنھوں نے نہتے عوام کا قتل عام کرکے تاریخ کی ایک اور المناک کہانی لکھ دی ہے اور مزید لکھی جا رہی ہے لیکن عوامی تحریک میں کمی نہیں آئی بلکہ حکومت مخالف مظاہروں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 

آل خلیفہ کو اپنا اقتدار جب زوال پذیر نظر آنا شروع ہوا تو انھوں نے سعودی عرب سے جان کی امان طلب کی۔ جواب میں آل سعود نے امریکی تائید سے ایک منصوبہ تیار کیا جس کو آل خلیفہ نے تو قبول کر لیا لیکن بحرینی عوام نے نہیں۔ منصوبہ کچھ اس طرح کا ہے کہ بحرین سعودی عرب سے الحاق کرکے اس کا چودھواں صوبہ بن جائے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ آل سعود اور آل خلیفہ کی تمام تر کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور بحرینیوں کی انقلابی تحریک کامیابی کے قریب ہے۔ آل خلیفہ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے مزید ذلت سے بچنے کے لیے آل سعود کو اپنا دائمی سرپرست بنانا چاہتے ہیں۔ وہ اتحاد کے نام پر بحرین کا سعودی عرب سے الحاق چاہتے ہیں لیکن اس سلسلے میں انھیں عرب ریاستوں کی منظوری بھی چاہیے۔ 

بحرین کی وزیراطلاعات سمیرہ رجب اپنے ایک بیان میں کہتی ہیں کہ بحرین نے سعودی عرب کے ساتھ سلامتی، دفاع، معیشت اور خارجہ امور میں الحاق کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے خلیجی ریاستوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ بھی اس اتحاد کا حصہ بن جائیں کیونکہ بقول ان کے موجودہ دور میں چھوٹی ریاستیں بہت دیر تک قائم نہیں رہ سکتیں۔
سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہونے والے ایک اجلاس میں سعودی بادشاہ کویت، قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات کی موافق رائے حاصل نہ کر سکے۔ ان ریاستوں کا الحاق کے حق میں رائے نہ دینا اس خدشے کے پیش نظر تھا کہ کہیں آل سعود ان کی ریاستوں پر اپنا مستقل تسلط ہی نہ جما لیں اور انھیں اپنا غلام ہی نہ بنا لیں۔ سعودی حکمرانوں کا مقصد خلیج تعاون کونسل کی رکن ریاستوں کو فیڈریشن میں تبدیل کرنا تھا اور بحرین کو سعودی عرب کا ایک حصہ قرار دینا تھا۔ 

بحرین کے عوام نے آل خلیفہ کے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے۔ انھوں نے اس منصوبے کو امریکی سازش قرار دیا ہے کیونکہ حال ہی میں امریکہ نے بحرین کے عوام پر تشدد کے خلاف آل خلیفہ حکومت کو ہتھیار فروخت کرنے پر جو نام نہاد پابندی لگائی تھی وہ بھی اٹھا لی ہے اور چھ کروڑ ڈالر کے ہتھیار فوری طور پر بحرین روانہ کر دیئے ہیں تاکہ گرتی ہوئی امریکی معیشت کو عرب ممالک کو ہتھیار فروخت کرکے سنبھالا دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ بحرین کی پرامن تحریک کو کچلنے کے لیے یہ ہتھیار کام بھی آ سکیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ تقریباً سوا ایک سال کی انقلابی تحریک کے خاتمے کے لیے امریکہ اور سعودی عرب کے پاس یہی ایک حل باقی بچا ہے کہ وہ بحرین کو دنیا کے نقشے سے آزاد ملک کی حیثیت سے ختم کر دیں اور اسے سعودی عرب کا حصہ بنا دیں۔ بلاشبہ یہ ایک گھناﺅنی سازش ہے جو درپردہ ایک عرصے سے تیار ہو رہی تھی اور اب اچانک سامنے آنا شروع ہوئی ہے۔ 

بحرین میں چونکہ امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ تعینات ہے اور امریکا نہیں چاہتا کہ کوئی اڈہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے، اس لیے اس کی پوری کوشش ہے کہ عوام کی اس تحریک کو سعودی عرب کی افواج کے ذریعے کچل دے۔ اصل میں امریکہ نہیں چاہتا کہ اس کے غلام عرب ممالک میں مصر جیسی صورت حال پیدا ہو۔ مصر کی طرح کسی بھی دوسری امریکہ نواز عرب آمریت کا خاتمہ اور ایک جمہوری حکومت کی تشکیل اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ سمجھتی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ مصر کی حکومت کے ایک حد تک ہاتھ سے نکل جانے کے بعد شام میں ایسی حکومت لانا چاہتا ہے جو اس کی منشاء کے مطابق عمل کر سکے۔ مغربی میڈیا شام کی خبروں کو اسی لیے خوب اچھال رہا ہے۔ البتہ وہاں کے عوام اپنی حکومت کے حق میں سڑکوں پر آئیں تو اس کی خبر کو عام طور پر دبا دیا جاتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ شام میں حکومت مخالف خبریں دینے والے آزاد میڈیا کو بحرین کے مظلوم عوام دکھائی نہیں دیتے جو کئی ماہ سے ظلم سہہ کر پھر بھی مظاہرے کر رہے ہیں۔ 

بحرین میں عوامی مظاہروں میں اسوقت سے اور بھی شدت آ گئی ہے جب سے بحرین اور سعودی عرب کے الحاق کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ واضح رہے کہ 1971ء سے پہلے بحرین ایران کا حصہ تھا اور ایران نے اسے اپنا صوبہ قرار دیا ہے اور سعودی عرب کے ساتھ الحاق کی شدید مخالفت کی ہے۔ بحرین میں علماء کونسل کے سربراہ آیت اللہ شیخ عیسیٰ قاسم نے سعودی عرب سے بحرین کے الحاق کے نظریے کو ظالمانہ قرار دیا ہے۔ ایران کے علاوہ عراق کے ممتاز مذہبی اور سیاسی راہنما بھی اس نظریے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ادھر بحرینی حکومت کی وحشت و ظلم و ستم میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ افسوس آل خلیفہ حکمرانی کے نشے میں غرق سب حدود بھول چکے ہیں۔ ان کو بس سعودی عرب ہی اس وقت اپنا ناخدا نظر آ رہا ہے جو ان کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے لگا سکتا ہے۔ 

وہ مغربی ا ستعمار جس نے خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے مسلمانوں کی یہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کی تھیں وہی آج سعودیوں کو علاقے کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے جزیرة العرب میں ادغام کا راستہ سجھا رہا ہے۔ امریکی سرپرستی میں ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے انڈونیشیا کے ایک علاقے کو الگ کرکے ایک عیسائی ریاست قائم کی گئی ہے۔ دوسری عیسائی ریاست سوڈان کو تقسیم کرکے قائم کی گئی ہے اور آج بحرین کو سعودی عرب میں شامل کرنے کی درپردہ حمایت کی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ اگر عوامی اکثریت کی خواہشات کے مطابق بحرین میں انقلاب آ گیا اور منتخب حکومت قائم ہو گئی تو امریکہ کو اپنا فوجی اڈہ بحرین سے اٹھا کر کہیں اور لے جانا پڑے گا۔ ثانیاً خطے کی دیگر ریاستوں کے عوام کو بھی اعتماد حاصل ہو گا کہ وہ بھی اپنے ہاں خاندانی حکومتوں کا خاتمہ کرکے منتخب حکومتیں قائم کر سکتے ہیں۔ سعودی بادشاہت تو خاص طور پر اس سے خوفزدہ ہے جس کی حدود میں پہلے ہی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
 
بحرین کو سعودیہ میں ضم کرنے کے بعد جمہوریت اور آزادی پسند قوتیں اور بھی مجتمع اور طاقتور ہو گئیں تو کہیں سعودی شاہی خاندان کو یہ نہ کہنا پڑ جائے کہ
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
آخر اس بیماری دل نے اپنا کام تمام کیا
خبر کا کوڈ : 164999
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش