0
Sunday 10 Jun 2012 11:44

شام کے قصبے الحولہ میں ال سلواڈور ماڈل کا اجرا

شام کے قصبے الحولہ میں ال سلواڈور ماڈل کا اجرا
اسلام ٹائمز- شام میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے کیلئے اس ملک میں مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیز کی وسیع موجودگی کے متعدد اور ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی اور نیٹو فورسز "ال سلواڈور ڈیتھ اسکواڈز" کا ماڈل اپناتے ہوئے شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کو سرنگون کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
برہان سے نقل کرتے ہوئے مشرق کی رپورٹ کے مطابق وسیع پیمانے پر شام کے شہریوں کا قتل عام، قتل ہونے والے بچوں، خواتین اور مردوں کی دلخراش تصاویر کا نشر کیا جانا، اور پھر خاص میڈیا ذرائع کے ذریعے شام کی حکومت کے خلاف ایک منظم اور وسیع پروپیگنڈہ اور میڈیا اٹیک کا انجام پانا اور آخرکار بعض مغربی حکام کی جانب سے ایک ساتھ شام کی حکومت کے خلاف شدید موقف اختیار کرنا۔ یہ وہ ہتھکنڈہ ہے جو آج شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کے خلاف اپنایا جا رہا ہے۔ یہ وہ ہتھکنڈہ ہے جس کا مقصد ابتدائی طور پر شام میں انسانی حقوق کی بنیاد پر مداخلت کا راستہ ہموار کرنا، پھر عوامی مزاحمت کو کم کرنا اور اسکے بعد مخالف طاقتوں راضی کرنا اور آخرکار شام پر فوجی حملہ کرتے ہوئے اس پر قبضہ جمانا ہے۔
اس شیطانی ہتھکنڈے کو سمجھنے کا واحد راستہ تاریخ پر نظر دوڑاتے ہوئے گذشتہ دور میں اسکے عملی نمونوں کا جائزہ لینا ہے۔ یہ ہتھکنڈہ 1980 کے عشرے میں ال سلواڈور اور 1990 کی دہائی میں ھونڈراس جیسے ممالک میں اختیار کیا گیا۔ اس شیطانی حربے کے دوران ال سلواڈور میں 75 ہزار جبکہ ھونڈراس میں 50 ہزار بیگناہ عام شہریوں کو قتل عام کیا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شام کے قصبے حولہ میں گذشتہ ہفتے ہونے والا عام شہریوں کا قتل عام بھی اسی حربے کا شاخسانہ ہے۔ امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر اور گلوبل ریسرچ مجلے کے تجزیہ نگار جناب مائیکل چوسودوفسکی نے اس بارے میں ایک تجزیہ شائع کیا ہے جس میں تفصیل سے اس ہتھکنڈے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیز کی شام میں موجودگی کے ٹھوس شواہد موجود ہیں جنکا مقصد اس ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنا ہے۔ نیٹو اور امریکی فورسز "ال سلواڈور کے ڈیٹھ اسکواڈز" کی طرز پر عمل پیرا ہوتے ہوئے شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کو سرنگون کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ال سلواڈور ماڈل ایک دہشت گردانہ منصوبہ تھا جسکے تحت امریکہ کے حمایت یافتہ مسلح دہشت گرد گروہوں نے بڑے پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام کیا اور پھر اسکا الزام وہاں کی حکومت پر تھونپ دیا۔ اس منصوبے کا مقصد ال سلواڈور کی حکومت کو سرنگون کرنا تھا۔ یہ ہتھکنڈہ پہلی بار ال سلواڈور میں اس وقت اپنایا گیا جب وہاں کے فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف ملک میں مزاحمتی تحریک اپنی اوج کو پہنچ چکی تھی۔ اس منصوبے میں تقریبا 75 ہزار عام شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔
جان نگروپونٹہ ھونڈراس میں امریکی سفیر تھا [1981 سے 1985 تک]۔ اس نے ٹگوسیگالپا میں بھی امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں اور ھونڈراس میں موجود نکاراگوا کے مزدوروں کی حمایت اور نگرانی میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ جان نگروپونٹہ 2004 میں بغداد میں بھی امریکی سفیر کے طور پر رہ چکا ہے۔ وہ سابق امریکی صدر جرج بش کے دور میں نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے چیف کے طور پر بھی کام کر چکا ہے۔ وہ ایک خاص دستور کے تحت عراق میں بھی ال سلواڈور ماڈل کا زمینہ فراہم کرنے کا منصوبہ تیار کر چکا ہے۔
جنوری 2011 میں شام کے دارالحکومت دمشق میں امریکی سفیر کے طور پر بھیجے جانے والا شخص رابرٹ فورڈ بھی بغداد میں موجود امریکی سفارتخانے میں نگروپونٹہ کی ٹیم کا ایک اہم رکن رہ چکا ہے۔ ہمیں اس بات کو ماننا پڑے گا کہ عراق میں ال سلواڈور منصوبے کے اجرا کے فیصلے نے مارچ 2011 میں شام میں مسلح جھڑپوں کا زمینہ فراہم کیا ہے۔ شام میں رونما ہونے والے تازہ ترین واقعات کے بارے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ شام کے سرحدی قصبے الحولہ میں 108 افراد کا قتل عام جن میں 35 بچے بھی شامل تھے امریکہ کے حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں انجام پایا ہے جو "شام کیلئے ال سلواڈور منصوبے" کی روشنی میں اٹھایا جانے والا ایک دہشت گردانہ اقدام ہے۔ دمشق سے امریکی سفیر کی واپسی اور اسکی جگہ رابرٹ اسٹفن فورڈ کی تعیناتی کا شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی جانب سے ملک کے جنوب میں واقع سرحدی قصبے دارا سے بشار اسد حکومت کے خلاف مارچ 2012 کے وسط میں شروع ہونے والی مسلحانہ جنگ کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔
رابرٹ اسٹفن فورڈ شام میں مسلح بغاوت پیدا کرنے کیلئے بہت مناسب انتخاب تھا۔ وہ 2004 اور 2005 کے دوران بغداد میں واقع امریکی سفارتخانے کا مین نمبر 2 ہونے کے ناطے جان نگروپونٹہ کی نگرانی میں پنٹاگون کی جانب سے عراق کیلئے بنائے گئے ال سلواڈور منصوبے میں مرکزی کردار کا حامل رہا ہے۔ اس نے جنوری 2011 کے آخر میں دمشق آنے کے بعد سے لے کر واشنگٹن کی جانب سے اپنی معزولی تک شام کے حکومت مخالف مسلح گروہوں سے رابطہ ایجاد کرنے اور شام کے ہمسایہ عرب ممالک سے مسلح دہشت گرد خریدے جانے اور انہیں حکومت مخالف مسلح گروہوں میں شامل کئے جانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ رابرٹ فورڈ نے دمشق سے چلے جانے کے بعد بھی شام کے بارے میں امریکی پراجیکٹ کی سرپرستی کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔
لہذا امریکہ شام میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر قتل و غارت کا بازار گرم کر کے ایک ساتھ ڈرانے دھمکانے اور لالچ دینے کی پالیسیوں پر گامزن ہے۔ ایک ساتھ یہ دونوں پالیسیاں اپنانے کا مقصد یہ ہے کہ دہشت گردی کے منصوبوں میں ممکنہ شکست کی صورت میں اسکے فرار کا راستہ کھلا رہے اور وہ خطے میں اپنے سیاسی رقبا خاص طور پر ایران اور روس کے مقابلے میں اپنی پوزیشن کو برقرار رکھ سکے۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام میں ال سلواڈور ماڈل کو اپنانے کا مقصد خطے میں ایران کی سرکردگی میں موجود مزاحمتی بلاک کا مقابلہ کرنا ہے۔ امریکہ درحقیقت چاہتا ہے کہ اس مزاحمتی بلاک کو دو حصوں میں تقسیم کر دے جو ایران سے شروع ہوتا ہوا عراق، شام، حزب اللہ لبنان اور فلسطین تک جا پہنچتا ہے۔ امریکہ شائد تاریخ کے کسی دور میں ان ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنے مطلوبہ سیاسی نتائج حاصل کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوا ہو لیکن آج جب اقوام بیدار ہو چکی ہیں اور وظیفہ شناس ذرائع ابلاغ بھی موجود ہیں اسکی کامیابی ناممکن نظر آتی ہے۔
امریکہ نے عراق میں اربوں ڈالر خرچ کئے اور ہزاروں فوجیوں کی جان کا نذرانہ بھی پیش کیا تاکہ وہاں اپنی من پسند حکومت قائم کر سکے لیکن اسے اس میں بری طرح ناکامی کا شکار ہونا پڑا اور اس وقت عراق میں ایک شیعہ حکومت برسر اقتدار ہے جو امریکی مفادات کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کے درمیان 33 روزہ جنگ میں بھی امریکہ چاہتا تھا کہ حزب اللہ لبنان کو ہتھیار پھینکنے پر مجبور کر دے لیکن اسے وہاں پر بھی عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران کے مقابلے میں بھی امریکہ گذشتہ 30 سال سے نت نئی سازشیں کرنے میں مصروف ہے لیکن نہ صرف وہ کوئی کامیابی حاصل کرنے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے بلکہ بدترین اقتصادی نقصان کا بھی حامل ہوا ہے۔
ال سلواڈور ماڈل ایک دہشت گردانہ منصوبہ ہے جس کے تحت امریکہ کے حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈز نے عام بیگناہ شہریوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کیا ہے۔ پھر اسکی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اس حکومت کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ پھیلایا گیا۔ یہ حربہ سب سے پہلی بار ال سلواڈور میں استعمال کیا گیا۔
اور اب شام کی باری ہے۔ امریکہ اب تک نہ صرف اپنے مطلوبہ نتائج جن میں صدر بشار اسد کی سرنگونی بھی شامل ہے میں سے ایک نتیجہ بھی حاصل نہیں کر پایا بلکہ اپنے موقف سے عقب نشینی کرنے پر مجبور ہوا ہے اور اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل جناب کوفی عنان کی جانب سے پیش کردہ 6 نکاتی امن منصوبے کے اجرا پر زور دینے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ بہرحال ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ نے شام میں جو نئی گیم شروع کی ہے اسکے تحت وہ وہاں پر قتل عام کے مزید دہشت گردانہ اقدامات انجام دینا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس ہتھکنڈے کے تحت جس قدر بھی قتل و غارت کا بازار زیادہ گرم ہو اور انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات جس قدر زیادہ دلخراش اور وحشیانہ ہوں اسی قدر اس منصوبے کے مقاصد کا حصول زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مگر یہ کہ اس ملک کے عوام اس پست اور غیرانسانی ہتھکنڈے سے آگاہ ہو جائیں۔
شام کے خلاف امریکہ کی جانب سے دشمنانہ پالیسیاں اپنائے جانے کی ایک اور وجہ شائد مشرق وسطی سے متعلق شام کی پالیسیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ روس نے صدارتی انتخابات میں پیوٹن کی دوبارہ کامیابی کے بعد بین الاقوامی سطح پر امریکہ کے خلاف مقابلے کا آغاز کر دیا ہے۔ اس راستا میں صدر پیوٹن کا پہلا قدم شیکاگو میں جی ایٹ کے اجلاس میں شرکت نہ کرنا ہے۔ روس جو لیبیا اور تیونس میں احساس شکست کر رہا ہے اس کوشش میں مصروف ہے کہ شام کے مسئلے میں مغربی ممالک کی جانب سے دباو اور لالچ کے سامنے نہ جھکے اور صدر بشار اسد کے برسر اقتدار رہنے پر زور دے۔ اگرچہ ہمیں اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ روس کے سیاسی اقدامات بھی اپنے مفادات کے حصول کی خاطر ہیں۔
خبر کا کوڈ : 168301
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش