0
Friday 8 Jun 2012 00:29

پاکستان پر امریکی دباؤ کیوں؟

پاکستان پر امریکی دباؤ کیوں؟
تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

نیٹو کی شکاگو میں ہونیوالی حالیہ کانفرنس کے بعد امریکہ نے پاکستان پر ڈرون حملوں کی یلغار کر دی ہے۔ پچھلے دس دنوں میں شائد ہی کوئی دن ایسا ہوگا جب ہماری قبائلی پٹی میں ایک دن میں ایک یا دو حملے نہ کئے گئے ہوں۔ ان دس دنوں میں دنیا کی واحد سپر پاور، جمہوری قدروں کی علمبردار، انصاف اور اخلاقیات کی قدروں کی بات کرنے والی اور انسانی حقوق کا پرچار کرنے والی امریکی حکومت کے ہاتھوں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں تیس سے زیادہ بے گناہ اور نہتے انتہائی غریب پاکستانی لوگوں کا قتل عام ہوا۔ یہ حملے بش حکومت نے شروع کئے تھے او ر اُوباما کی حکومت نے اس بربریت کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔
 
جب پہلا ڈرون حملہ باجوڑ میں ہوا تھا تو پوری پاکستانی قوم سکتے میں آگئی اور سراپا احتجاج بن گئی، تو اُس کے جواب میں اس وقت کی حکومت نے کہا کہ حملہ ہم نے خود کیا ہے۔ اس کے بعد جب قبائلی لیڈر نیک محمد نے پاکستانی فوج کی حمایت کا اعلان کیا تو دوسرے حملے میں امریکہ نے اس کو بھی ڈرون راکٹ سے اُڑا دیا۔ اب پاکستانی ڈیکٹیٹر جنرل مشرف بے بس ہوگئے، جس کی چند وجوہات تھیں۔
 
پہلی یہ کہ آمر کے اقتدار کے ضامن عوام نہیں بلکہ بیرونی طاقتیں ہوتی ہیں۔ جن کو ناراض کرنے کا مطلب آمر کی اقتدار سے چھٹی ہوتا ہے، چونکہ ڈیکٹیٹر ووٹ سے آتا ہے، نہ ووٹ سے جاتا ہے، لیکن سوجھ بوجھ والے ہوشیار آمر اقتدار میں آکر عوام کو حوشحال بنا کر اور دنیا کی دوسری طاقتوں سے رشتے استوار کرکے سپر پاور کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے ایک کاونٹر بیلنس تیار کر لیتے ہیں۔ مصر کے صدر کرنل جمال عندالناصر بھی ایک آمر تھے۔ انہوں نے دریائے نیل پر اسوان ڈیم بنا کر اور نہر سویز کو قومی تحویل میں لے کر لوگوں کو خوشحال کر دیا اور ساتھ ہی اس وقت کی سپر پاور برطانیہ کے باوردی صلاح کاروں کی چھٹی کروا دی، لیکن برطانیہ کے ردِعمل کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک تو سویٹ یونین کی مدد حاصل کرلی اور دوسرا اقوام متحدہ میں امریکہ سمیت دوسرے ممالک کی ممکنہ دشمنی کو بہترین سفارت کاری سے بے اثر کر دیا۔ 

پاکستان میں جنرل مشرف کے نامزد وزیراعظم شوکت عزیز عوام کو معاشی حوشحالی کی نوید تو دیتے رہے، لیکن معاشی بدحالی کے شکار عوام کو دس سال تک بظاہر اچھی معیشت کے ٹریکل ڈاؤں اثرات نہ پہنچ پائے۔ کالا باغ ڈیم بنا، نہ خوشحالی جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بڑے بڑے پرائیوٹ بینکوں کے مالکان سے ہٹ کر مفلسی میں جکڑے ہوئے عوام تک پہنچ پائی۔ ساتھ ہی جنرل مشرف نے امریکہ کی وہ شرائط بھی مان لیں، جس نے خود امریکیوں کو بھی حیران کر دیا۔ جنرل موصوف کا خیال تھا کہ اُن کی یکطرفہ تابعداری سے امریکہ خوش ہوگا اور پاکستانی مفادات کا تحفظ بھی ہو جائے گا، لیکن دوسری طرف امریکہ نے سوچا کہ پاکستان کی مشرف حکومت تو خشک ریت کا ایک ایسا ڈھیڑ ہے جس پر جتنا بھی گندہ پانی ڈالتے جائیں گے، جذب ہوتا جائے گا۔

اس لئے امریکی مداخلت پاکستان کے اندر حد سے بڑھ گئی۔ ہوائی راستے، بندر گاہیں، ہوائی اڈے، زمینی راستے، کھلے ویزے اور یہاں تک کہ امریکہ نے ہمارے ایٹمی تنصیبات کی انسپکشن کے درپردہ مطالبات بھی کرنے شروع کر دیئے۔ پھر ڈیکٹیٹر کو کارتوس کے خالی کھوکھے کی طرح پاکستانی رائفل کی چیمبر سے باہر نکال کر پھینک دیا اور میگزین کو دوبارہ امریکی این آر او برینڈ کے اپنی مرضی کے کارتوسوں سے بھر لیا۔ نام نہاد جمہوری حکومت کے آنے کے بعد امریکہ نے پہلے تو اس حکومت کو کیری لوگر بل کے ذریعے افواج پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ سول ملٹری تعلقات میں گیپ ڈالے اس کے بعد ڈرون حملوں کی پاکستان پر وہ بارش کی کہ لوگ مشرف دُور کو بھول گئے۔ 

اب امریکہ کے حوصلے مزید بڑھے تو ملک کے اندر بلیک واٹر اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کا جال بچھ گیا۔ ریمنڈ ڈیوس قتل کر کے بھی اس بہانے کے تحت باہر بھیج دیا گیا کہ اس پر مقدمہ امریکہ میں چلے گا جو کہ ایک سفید جھوٹ تھا۔ 2 مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی حملہ ہوا اور اُس کے بعد نومبر میں سلالہ پوسٹ پر ہمارے 25 جوان شہید کر دیئے گئے۔ موجودہ سول حکومت نہ ڈیکٹیٹر شپ ہے نہ جمہوریت ہے۔ حکمران سیاسی اتحاد اُن صرف تین چار لوگوں کا ٹولہ ہے جنہوں نے اپنی جماعتوں اور پورے پاکستان کو گروی رکھ لیا ہے۔
 
ان تین یا چار لوگوں کے مفادات ملک میں نہیں، بیرون ملک ہیں۔ اِن کی جماعتوں میں بہت اچھے لوگ بھی ہیں، لیکن اہم عہدوں پر وہ لوگ ہیں جو لوٹ مار میں اپنے قائدین کے بہترین معاون ہیں۔ صدر پر بدقسمتی سے بدعنوانی کے الزامات ہیں، وزیراعظم ملک کی اعلٰی ترین عدالت سے سزا یافتہ ہیں اور وزیر داخلہ پر اب دہری شہریت کے حوالے سے فراڈ کے الزامات ہیں۔ ایسے حالات میں جب ملک کے اندر قیادت کا مکمل فقدان ہے تو ڈرون حملوں کو کون روکے گا؟ اور ملکی مفادات کا تحفظ کیسے ہوگا؟ 

کہا یہ جار ہا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں اگر 14 القاعدہ کے جنگجو ہلاک ہوئے تو 700 بے گناہ جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ نیو امریکن فاؤنڈیشن نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے:۔
" While killing 10 militants through spy planes, the US has murdered more than 1400 Pakistanis not involved in any terrorist activities. Could it not imply that it killed 10 militants and gave birth to another 1400?" ’’یعنی جاسوس طیاروں کی مدد سے دس دہشتگرد ہلاک کرکے امریکہ نے 1400ایسے پاکستانیوں کا خون کیا جن کا کسی دہشگردی کی واردات سے دُور دُور کا واسطہ نہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ نے 10دہشتگرد مار کر 1400 اور پید اکر دیئے۔‘‘ 

قارئین امریکہ ایک طرف تو زمینی راستے کھولنے کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کیلئے مذاکرات کا ڈھونگ بھی رچا رہا ہے۔ دوسری طرف معافی مانگنے سے صاف انکاری ہے، ساتھ ہی تواتر سے زبردست ہوائی حملے بھی جاری ہیں اور امریکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا کے مسئلے پر بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہا ہے۔ آئیں دیکھیں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
 
(1) امریکی دوغلی پالیسی کا مدعا پاکستانی پارلیمنٹ، حکومت اور افواجِ پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔
 
(2) قبائلی پٹی کے مظلوم عوام کو ایسی حکومت اور فوج کے خلاف اُکسانا بھی ہے جو اُن کو بیرونی حملوں سے بچانے میں بے بس ہے۔
 
(3) امریکی ووٹروں اور مغربی دنیا کو یہ غلط تاثر دینا کہ افغانستان میں امریکی ہزیمت کی اصل وجہ امریکی غلط پالیسی اور فوجی نااہلیاں نہیں، بلکہ پاکستان کے اندر دہشتگردوں کے اڈے ہیں اور امریکی فوج امریکہ کی سلامتی کی جنگ لڑ رہی ہے۔
 
(4) اب جبکہ افغانستان میں امریکی فوج میں کمی ہو رہی ہے۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی فوری کامیابی کا خواہشمند نظر نہیں آتا بلکہ اس ڈیڈ لاک کو طوالت دے کر امریکہ مغربی دنیا، نیٹو اور امریکی عوام کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات کو مزید مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راستہ کھولنے کی درخواست کے ساتھ امریکی روئیے میں رعونت، معافی سے انکار، ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا ناجائز مطالبہ، پاکستانی ایڈ میں رُکاوٹیں اور پھر زبردست ڈرون جارحیت بھی جاری ہیں۔ اگر غلام نبی فائی کو آئی ایس آئی کے ساتھ تعاون کے جھوٹے الزامات پر سزا ہو سکتی ہے تو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سی آئی اے کے ساتھ مصدقہ تعاون کر کے پاکستان کے بین الاقوامی Image کو خاک میں ملانے پر سزا کیوں نہیں ہو سکتی۔؟ 

(5) امریکی دوغلی پالیسی کا ایک اور مقصد ساری قربانیوں اور تعاون کے باوجود پاکستان کو دُنیا میں تنہا اور بدنام کرکے اس پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانا ہے، تاکہ پاکستان کے خلاف مستقبل میں کسی بڑی جارحیت پر دنیا انگلی نہ اُٹھائے، پاکستان کو چین اور ایران سے دور رکھا جائے، پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت کو آہستہ آہستہ ختم کر دے، کشمیر کی بات بھول جائے، پاکستانی فوج کی طاقت کو توڑ کر اس کو پولیس فورس بنا دیا جائے اور آخر میں بلوچستان کو امریکی تسلط میں لے کر پاکستان کے حصے بخرے کر دیئے جائیں۔ اس گریٹ گیم کے لئے نئے پاکستان کے نقشے آج سے کئی سال پہلے جاری ہو چکے ہیں۔
دشمن کی اس یلغار کو روکنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ کہ دائیں بازو کی پارٹیوں میں اتحاد قائم کیا جائے، فوری انتخابات ہوں اور موجودہ ناکام سیاسی قیادت کی جگہ اہل اور دیانتدار سیاستدانوں کا اتحاد سامنے آئے۔
خبر کا کوڈ : 169065
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش