0
Friday 6 Jul 2012 00:13

نیٹو سپلائی کی بحالی کا پاکستانی فیصلہ

نیٹو سپلائی کی بحالی کا پاکستانی فیصلہ
 تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

بین الاقوامی قوانین اور مسلمہ سفارتی آداب کے مطابق دنیا میں بسنے والے مختلف ممالک کو اس بات کی قطعی اجازت نہیں کہ وہ ایک دوسرے پر غلط الزامات لگائیں یا سفارتی آداب کے منافی غلط زبان استعمال کریں۔ اگر کوئی ملک دوسرے کسی ملک کے حقوق کو سلب کرئے تو بھی معاملات کو بین الاقوامی عدالت انصاف اور سلامتی کونسل تک لے جایا جاتا ہے، تاکہ زیادتی کرنے والے ملک کی جواب طلبی ہوسکے۔
 
کسی ملک کی جغرافیائی حدود کو پھلانگ کر اس پر زمینی یا ہوائی حملہ کرنا تو بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایک ننگی جارحیت ہے اور یہ ایک ایکٹ آف وار ہے۔ جس کی کسی ملک کو قطعاً کوئی اجازت نہیں۔ 20 دسمبر 2001ء کو اقوام متحدہ نے افغانستان کیلئے ایک بین الاقوامی طاقت یعنی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹینس فورس (ISAF) بنانے کی اجازت دی تھی، جس کا دائرہ کار افغانستان تک محدود رہنا چاہیے تھا، لیکن تقریباً 50 ممالک کے اس فوجی اتحاد نے پچھلے سات آٹھ سالوں سے اپنی ناجائز فوجی کارروائیوں کا دائرہ پاکستان تک بڑھایا ہوا ہے۔ 

پاکستان کے خلاف جارحیت ڈرون حملوں کی شکل میں اس وقت شروع ہوئی، جب امریکیوں نے باجوڑ کے علاقے میں ایک سکول پر ڈرون حملہ کیا اور بہت سے بے گناہ طالب علم ہلاک کر دیئے۔ پھر یہ حملے چلتے رہے۔ اس پر عسکری قیادت نے کوئی سنجیدہ اعتراض کیا نہ سول حکومت نے۔ نیٹو اتحادی یہ بھانپ گئے کہ پاکستان میں NRO کے تحت برسراقتدار حکمران ٹولے کو صرف اپنے اقتدار کی طوالت سے غرض ہے، سٹیٹ کرافٹ کی نزاکتوں اور اس کی حساس نوعیت کو سمجھنے میں یہ دلچسپی رکھتے ہیں نہ اُن کو اس بات کا شعور ہے کہ اپنے ملک کی فضائی حدود، زمینی راستے، بندرگاہیں اور ہوائی اڈے دوسری طاقتوں کیلئے غیر معینہ مدت کیلئے کھولنے اور CIA جیسی بیرونی بے رحم جاسوس تنظیموں کے کنٹریکٹروں کو ویزے دے کر ملک کے اندر لانے کے قومی سلامتی کیلئے کیا دور رس مضمرات ہو سکتے ہیں؟ 

سپر پاورز چھوٹے ممالک کے قائدین کی شخصیات کا مکمل تجزیہ کرکے اپنے پاس رکھ لیتی ہیں۔ اُن کو اِن کی حب الوطنی کے ضعیف جذبے، کردار کی ناپختگی اور عورت، شراب، دولت اور اقتدار کے بے پناہ لالچ سمیت ہر کمزوری کا صحیح پتہ ہوتا ہے۔ اُن پر یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ فلپین کے صدر مارکوس اور ایران کے صدر احمدی نژاد میں کیا فرق ہے۔؟ یا یہ کہ مصر کے سابقہ صدر حسنی مبارک اور ملیشیاء کے سابقہ وزیراعظم مہاتیر محمد میں سے کسی کے ساتھ کتنا ’’پنگا‘‘ لیا جاسکتا ہے، یا یہ کہ پاکستان کے جنرل پرویز مشرف اور ترکی کے طیب اردگان کو کیسے Handle کرنا ہے، یا یہ کہ سپلائی لائینز کھولنے والے راجہ پرویز اشرف اور امریکی دباؤ کے باوجود ایٹمی دھماکے کرنے والے نواز شریف میں کیا فرق ہے۔؟
 
امریکہ اور اس کے اتحادی اب بھانپ گئے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت قیادت نام کی کوئی چیز نہیں۔ اس لئے پاکستان کو وہ گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔ پہلے بندوق کی نوک پر یہ کہہ کر سہولیات لیں کہ آپ یا ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے دشمن ہیں۔ قیادت نے جب ڈھیر ہو کر خالی کاغذ پر انگوٹھے لگا دیئے تو پھر ڈرون حملوں کا راستہ کھل گیا۔ اس پر بھی جب پاکستانی قیادت خاموش رہی تو پاکستان کے گلی محلوں پر ریمنڈ ڈیوس گھس آئے اور ڈالرز دے کر پاکستانی نمک حرام جاسوس بھی خرید لئے۔
 
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی جیسے مقامی ریمنڈ ڈیوس ایبٹ آباد پر بیرونی حملے کا موجب بنے۔ اس پر بھی خاموشی رہی تو سلالہ کا حملہ ایک قدرتی اگلا قدم تھا۔ 24 جوان شہید کرنے کے بعد امریکہ اس پر ناراض تھا کہ پاکستانی احتجاج کیوں کر رہے ہیں۔ امریکی صدر اوباما نے نہ صرف شکاگو کانفرنس میں پاکستانی صدر سے علیحدہ ملاقات سے انکار کیا، بلکہ کانفرنس کے فوراً بعد لگاتار دس دن ڈرون حملے کرکے ہمارے قبائلی بھائیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ 

اس کے بعد افغانستان کے کُنڑ اور نورستان صوبوں سے ISAF کی سرپرستی میں ہمارے چوکیوں پر زمینی حملے ہوئے اور سات فوجیوں کو تربیت یافتہ گوریلوں نے نیٹو اتحادیوں کے ایما پر ذبح کر دیا۔ نیٹو اتحادیوں کو پتہ تھا کہ ٹرانزٹ سپلائی کو ایک کمزور قیادت سے بحال کروانے کا صحیح طریقہ یہی ہے۔ ہوائی اور زمینی حملوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور افغانستان کی سرزمین سے امریکی لیڈر لگاتار یہ بھی کہتے رہے کہ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ نتیجہ کیا نکلا کہ کمزور حکومت مستعفی ہونے کی بجائے پھر امریکہ کے قدموں پر جا گری۔
 
اب اس کا خمیازہ پاکستان کی مستقبل کی حکومتیں بھگتیں گی اور آہستہ آہستہ امریکہ کہے گا ایٹمی طاقت سرنڈر کرو، ملک کے اندر قرآن اور آئین کے مطابق اسلامی نظام کی بات نہ کرو اور کشمیر کو بھول کر ہندوستان کو بھی وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کرنے کیلئے ٹرانزٹ سہولیات دو۔ یہ کہہ دینا کہ امریکہ نے معذرت کرلی ہے اور ہم نے راستے کھول دیئے ہیں، قومی امنگوں اور وقار کے ساتھ ایک مذاق ہے اور یہ بات کہ غربت اور بھوک سے نڈھال ملک اِن سہولیات کے عوض جائز مالی معاوضہ بھی نہیں لے گا نہ قابل فہم ہے۔
 
اب قوم یہ پوچھنے میں تو حق بجانب ہے کہ کیا مشترکہ پارلیمنٹ کی قرارداد کے سارے نکات پر عمل ہوگا؟ کیا ڈرون حملے اب نہیں ہوں گے؟ کیا امریکہ نے پاکستانی قیادت کو اس خطے میں اپنی End game کے خدوخال سے آگاہ کر دیا ہے؟ کیا امریکہ اب اس بات سے مطمئن ہے کہ ہماری فوج اور آئی ایس آئی دہشتگردوں کے ساتھی نہیں؟ کیا ہندوستان کو افغانستان میں زیادہ وسیع کردار ادا کرنے کی جو پچھلے دنوں امریکی ڈیفنس سیکرٹری نے بھارت کی سرزمین پر بات کی تھی اس پر پاکستان نے کوئی وضاحت طلب کی ہے؟ کیا شہدائے سلالہ کے لواحقین اور ڈرون حملوں کے متاثرین کو بین الاقوامی اداروں کی طرف سے کوئی مالی مدد ملے گی؟
 
کیا ہم نے امریکہ سے یہ پوچھا ہے کہ سلالہ کے بعد بھی ہماری سرزمین پر افغانستان سے ہونے والے زمینی حملوں کے پیچھے انٹیلی جینس، ٹرینگ، اسلحہ، گولہ بارود، کمیونیکشن اور لاجسٹک دینے والے کون ہیں اور وہاں سے حملے کرنے والوں کو کب پاکستان کے حوالے کیا جائے گا؟ کیا ہم نے بلوچستان میں امریکہ۔ ہند مداخلت روکنے کیلئے کوئی گارنٹی لی ہے؟ کیا ہم نے امریکہ سے یہ پوچھا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس جیسے دہشتگرد کو آپ نے ایک سفارت کار کے روپ میں پاکستان کیوں بھیجا تھا؟ کیا امریکہ کی طرف سے ہندوستان کو اربو ڈالرز کا فوجی سامان بیچنے کو روکنے کی کوئی بات ہوئی؟
 
کیا اب امریکہ گوادر پر چین کی موجودگی اور ایران سے گیس کی فراہمی پر معترض نہیں ہوگا؟ کیا ہم نے اپنی معیشت اور ذرائع رسل و رسائل کو ہونے والے نقصانات کی تلافی کیلئے کوئی گارنٹی حاصل کر لی ہے؟ کیا امریکہ اب ہمارے اخلاص کو مانے کے لئے تیار ہو گیا ہے اور کیا اب باہمی اعتماد کی فضا بحال ہوجائے گی؟ کیا ہم امریکہ کو سمجھا پائے ہیں کہ بیرونی افواج کے انخلا کے بعد آزاد افغانستان، پاکستان کیلئے موجودہ مقبوضہ افغانستان سے کہیں زیادہ اہم ہوگا؟ کیا خطے کے حالات کو بہتر کرنے کیلئے گذشتہ چھ ماہ میں کشمیر، سیاچن اور پانی کے مسائل پر بھی امریکہ سے کوئی مذاکرات ہوئے۔؟ 

اگر نہایت وسیع سوچ کے ساتھ صرف افغانستان نہیں بلکہ جنوب ایشیاء کے معاملات کے اسٹرٹیجک خدوخال کو ذہن میں نہیں رکھا گیا تو پھر سپلائی لائن کھولنے سے حالات اس لئے سنبھلنے کی توقع نہیں، چونکہ پاکستانی عوام سراپا احتجاج ہے، افغان طالبان کیلئے بھی یہ کوئی خوشخبری نہیں، جس کا پاکستانی طالبان بیرونی انٹیلی جینس ایجنسیوں کی مدد سے ناجائز فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ امریکہ ان سہولیات کے باوجود آپ پر اعتماد بھی نہیں کرے گا بلکہ زمینی اور ڈرون ہوائی حملے بھی جاری رہیں گے۔ یعنی ہم گنڈے بھی کھا گئے اور جوتا پریڈ بھی جاری رہے گی۔ قارئین افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ملکی معاملات جتنے گھمبیر ہیں ملکی قیادت سیاسی بصیرت کے اتنے ہی بڑے قحط سے دوچار ہے۔
خبر کا کوڈ : 176779
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش