0
Thursday 9 Aug 2012 20:00

آغا علی الموسوی کی وفات، آئی ایس او کی یتیمی

آغا علی الموسوی کی وفات، آئی ایس او کی یتیمی
تحریر: ابن آدم راجپوت

حجتہ الاسلام والمسلمین علامہ آغا علی الموسوی کو ان کے والد بزرگوار آغا حسن الموسوی کے پہلو میں حسین آباد بلتستان ان کے آبائی قبرستان میں دفن کر دیا گیا ہے۔ وہ 31 جولائی کی صبح سحری کے وقت نماز فجر پڑھنے لگے تو طبیعت خراب ہونے سے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انہیں ان کے خاندانی معالج ڈاکٹر غلام مہدی نے بچانے کی حتی المقدور کوشش کی، مگر ان کا وقت آخر آچکا تھا۔ موچی دروازہ لاہور میں ہونے والی نماز جنازہ میں شریک ہر شخص کی آنکھیں پرنم اور چہرہ افسردہ تو تھا ہی، لیکن جو آنسو اور سسکیاں میں نے برادر اطہر عمران مرکزی صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی آنکھوں میں دیکھے، شاید ان کے فرزندان کی آنکھوں میں بھی نہیں تھے۔ یہ نہیں کہ آغا علی کے پسران کو باپ کے سائے کے اٹھ جانے کا افسوس نہیں تھا لیکن جو احساس محرومی آئی ایس او کے نوجوان کرسکتے تھے، شاید آغا حیدر علی الموسوی نہیں کر سکتے تھے۔
 
85 سالہ آغا علی الموسوی نے 70 سال خدمت دین کی۔ نجف الاشرف سے فارغ التحصیل آغا علی الموسوی لاہور میں اپنے والد بزرگوار آغا حسن الموسوی کے بعد لاہور میں آئے، جو پاکستان کے قیام کے اوائل میں زیارات کے لئے اس تاریخی شہر میں آئے تھے، جب موبائل فون تھے، فیکس، اور نہ ہی ای میل کا دور تھا۔ اس وقت پاسپورٹ کا حصول اسلحہ لائسنس لینے سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ پاسپورٹ کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست دینا پڑتی تھی اور پھر اجازت ملنے پر ویزا لگتا تھا۔ اندرون موچی گیٹ میں موجودہ مسجد کشمیریاں اس وقت بہت چھوٹی سی مسجد تو تھی، مگر کوئی پیش امام نہیں تھا، جو باجماعت نماز پڑھا سکتا۔

 تو اپنی زیارات کے انتظامات کے سلسلے میں لاہور قیام کے دوران آغا حسن الموسوی ایک دن شیعہ مسجد میں گئے تو وہاں نمازیوں کو باجماعت نماز پڑھنے کی ہدایت نے الٹا انہیں سے خدمت کی ٹھانی اور گذارش کی کہ انہیں وہ نماز پڑھایا کریں۔ انہوں نے کچھ ٹال مٹول کے بعد حامی بھر لی اور اس طرح پھر وہ خود، ان کے بیٹے آغا علی الموسوی اور ان کے پوتے بھی لاہور میں تبلیغ دین سرانجام دینے لگے۔ اس لاہور شہر میں تبلیغ دین کا کام ایسا کیا کہ بے نمازی شب زندہ دار اور باقاعدگی سے زکٰوۃ و خمس ادا کرنے والے بن گئے۔ 

نحیف جسم مگر گرجدار آواز کے حامل آغا علی الموسوی نے شیعیان حیدار کرار کو ان امور کی طرف متوجہ کیا، جن کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی تھی۔ انہوں نے انقلاب اسلامی ایران کو پاکستان میں سب سے پہلے خوش آمدید کہا، اور علماء کرام کو انقلاب کی حمایت پر آمادہ کیا۔ دعائے کمیل میں مصائب پڑھنے، رمضان المبارک میں شب ہائے قدر کے اعمال میں چھ دن کی قضا نمازیں پڑھنے اور قرآن مجید کا حفظ۔ انہوں نے ہی موچی گیٹ لاہور سے شروع کیا۔
 
لاہور کی شیخ برادری میں اتنا اثر و رسوخ پیدا کیا کہ ہر شخص آغا علی کا مرید نظر آتا تھا۔ وہ موچی گیٹ کی تنگ گلیوں میں سے ہوتے ہوئے خود پیدل دکانوں اور بازاروں میں جاتے تو لوگ ان سے والہانہ عقیدت سے ملتے۔ انہوں نے اسلامی اصول ہائے تجارت کاروباری حضرات کو سکھائے اور خمس دینے کی طرف مائل کیا کہ راقم الحروف متعدد بار آئی ایس او کے کنونشن کے لیے مرحوم آغا علی الموسوی کی طرف سے خمس (مال امام) کا اجازہ لے کر جاتا اور کنونشن کے اخراجات کے لیے مالی تعاون حاصل کرتا رہا ہے۔ مرحوم آیت اللہ محسن الحکیم، آیت اللہ امام خمینی اور رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے پاکستان میں وکیل تھے اور ان کی اجازت سے وجوہات شریعہ اکٹھی کرتے تھے۔ 

مجھے ذاتی طور پر متعدد بار آئی ایس او کے اس وقت کے مرکزی صدر علی رضا بھٹی صاحب کے ساتھ آغا علی الموسوی کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔ وہ اکثر ناشتے پر آئی ایس او کے رہنماوں کو دعوت دیتے اور پھر پراٹھون سے خوب تواضع کرتے۔ میں نے انہیں اکثر فرش پر ہی بیٹھا دیکھا۔ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور خطاب کے دوران چہرے اور لبوں پر مسکراہٹ رکھنا ان کا خاص انداز تھا۔ ان کے بہت دروس سنے ہیں اور وہ اسلام کو بہت آسان بنا کر پیش کرتے تھے، خصوصاً اخلاقیات کا درس دیتے وقت مزاح ضرور شامل کرتے، جس سے ان کے لمبے دروس میں بھی بوریت نہیں ہوتی تھی۔

تحریک جعفریہ کے جلسوں اور اجلاسوں میں بھی استعمار دشمنی، ان کے خطابات کی گرج اور لفظوں کا چناو آج بھی میرے کانوں سے ٹکراتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کتنی محنت کی۔ پاکستان میں انقلاب اسلامی ایران کی حمایت کرنے اور اس سلسلے میں سڑکوں پر نکل آنے والے آغا علی موسوی سے جو بھی ملتا وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ لاہور میں انہوں نے صیغہ برادران کے نام سے رسول اللہ کی خدمت کے مطابق دوست بھی بنا رکھے تھے، جو ان کے اسلامی خدمات میں ساتھی اور معاون تھے۔ 

انہوں نے آئی ایس او کا نام قرآنی استخارے سے رکھا۔ جب تک صحت اجازت دیتی اور وہ لاہور میں ہوتے تو ہر کنونشن پر ضرور آئی ایس او کے مرکزی صدر کا اعلان خود کرتے اور اعلان سے پہلے انتظار کرواتے، خوب تڑپانے اور سسپنس پیدا کرتے۔ آغا علی الموسوی کے جانے کے بعد صرف آئی ایس او ہی نہیں، متعدد اور تنظیمیں بھی ان کی پدرانہ شفقت سے محروم ہوئی ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین، امامیہ آرگنائزیشن، انجمن حسینیہ خواجگان، امام حسین بلڈ ڈونرز سوسائٹی اور متعدد تنظیمیں بھی ان کی اخلاقی مدد کو نہیں پاسکیں گی۔ وہ چاہتے تھے کہ ملت جعفریہ کے افراد خصوصاً نوجوان تمام شعبہ جات میں نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں۔ لیکن ہمیں امید ہے اور پہلے سے ہی آغا علی فرزند آغا حیدر علی الموسوی اپنے والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تنظیموں کی سرپرستی اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
خبر کا کوڈ : 184481
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش