0
Sunday 5 Aug 2012 04:54

علامہ سید عارف حسین الحسینی ( رہ ) اور اتحاد بین المسلمین ( 2 )

علامہ سید عارف حسین الحسینی ( رہ ) اور اتحاد بین المسلمین ( 2 )
تحریر: مظاہر شگری

ہماری بقاء، اسوہ حسینی ( ع ):
بعض طاقتیں اور اُن کے حواری اتحاد بین المسلمین کو پارہ پارہ کرنے کیلئے تمام تر ہتھکنڈوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہ طاقتیں لبنان، لیبیا، ایران اور افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں ملنے والی ذلت آمیز شکستوں کا بدلہ اسلامیان پاکستان بالخصوص ملت جعفریہ پاکستان سے لینے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ ان حالات میں ملت جعفریہ کو سوچنا ہوگا کہ طاغوت کے مقابلے میں حسینی کردار کی تقلید کرنی ہے یا پھر ظلم و تشدد کے آگے سرجھکانا ہے۔ ملت کے غیور افراد اپنے خلاف ہونے والی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے حکومت اور اس کے حواری امریکہ کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے ہر اول دستے نوجوانان ملت جعفریہ سے خوفزدہ ہیں۔ حالیہ فسادات کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ملت کے اس فعال حصے کو اپنی تخریبی کارروائیوں کے ذریعے خوفزدہ کر سکیں لیکن وہ اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
(سحر تک نفاذ فقہ جعفریہ کی سپریم کونسل اور مرکزی کونسل کے اجلاس سے لاہو ر میں خطاب " اکتوبر 1986ء " )

ہم داعی اتحاد بین المسلمین ہیں:
ہم اتحاد بین المسلمین کیلئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ مخصوص سوچ اور مفادات کا حامل طبقہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو ان کے جائز حقوق سے محروم کردے۔ ملت جعفریہ پر ہونے والے مظالم اور پروپیگنڈے میں سامراجی ایجنٹ ملوث ہیں۔ ان قوتوں نے مذہبی اور سیاسی تنظیموں میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے انتشار پیدا کرکے مختلف طبقوں کے درمیان فسادات کی راہ ہموار کی ہے تاکہ استعماری قوتوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
(بھوانہ میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب " دسمبر 1986ء " )

اتحاد امت کے خلاف ملک کی فضا کو خراب کیا جارہا ہے:
اتحاد امت مسلمہ کی بقاء کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا اور باہمی اتحاد و اتفاق کو اپنی صفوں میں قائم رکھتے ہوئے پاکستان سے سامراجی دہشت گردی کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ مظلوم پاکستانیوں بالخصوص ستم رسیدہ شیعہ عوام کے خلاف اُٹھنے والا ہر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ ملک عزیز پاکستان میں معاشرتی زندگی کو طبقاتی کشمکش نسلی، لسانی و علاقائی عصبیت، مذہبی منافرت اور سیاسی رسہ کشی میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ منظم منصوبے کے تحت بے گناہ اور معصوم شہیدوں کا لہو بہایا جارہا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ انسانی حقوق کے دعویداران تمام مظالم پر خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔
(امام بارگاہ کاشانہ زینبیہ بدین میں خطاب " دسمبر 1986 ")

اسلامی اہداف:
ہماری دعوت اسلامی اقدار کے احیاء کیلئے ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے شعار کو بلند کرتے ہوئے ہم اپنے اسلامی اہداف کی تکمیل کیلئے آگے بڑھیں گے۔ ہمارے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کیلئے مخصوص مکتب فکر کے لوگ آئے دن غلیظ پروپیگنڈے کے حربے آزما رہے ہیں اسی پر بس نہیں یہاں تک کہ کفر کے فتوے صادر کئے جارہے ہیں مگر یہی فتویٰ اسلام کے اصلی دشمن امریکہ کے لئے نہیں بلکہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کیلئے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف فتوے بازی کے بجائے اسلام کے حقیقی دشمنوں کے خلاف اجتماعی جدوجہد کی جانی چاہیے ہم کشادہ دلی کے ساتھ تمام مکاتب فکر کی غیور اور مظلوم مسلمانوں کو متحد اور منظم کرنے کے لئے کوشاں رہیں گے۔
(انجمن حیدریہ کے زیر اہتمام امام بارگاہ حیدری سانگھڑمیں خطاب " دسمبر 1986ء " )

اتحاد ملت:
جس طرح شیعیان حیدر کرار ( ع ) نے برادران اہلسنت کے ساتھ مل کر اور اپنے مقدس لہو کی قربانی دے کر اس مملکت کے حصول کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا اسی محبت اور یگانگت کے جذبے کے ساتھ آج بھی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی جائیگی۔ تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کو جزئی و فروعی اختلافات کو بھلا کر فرقہ واریت، صوبائی تعصب اور گروہی سیاست سے بلند ہوکر وسیع تر دینی مفاد کے لئے متحد ہوجانا چاہیے۔
(جناح ہال جیکب آباد میں خطاب " دسمبر 1986ء " )

پاکستان کی بقاء اسلامی نظام میں مضمر ہے:
تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانشور ملک میں نظام اسلام کے قیام کیلئے اکٹھے ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ بے شمار قربانیوں کی بدولت حاصل ہونے والی آزادی 40 برس گزر جانے پر بھی کہیں محسوس نہیں ہوتی، سامراجی آقاؤں سے حاصل ہونیوالی آزادی کے باوجود ان کے چھوڑے ہوئے نظام کی بدولت آزادی کے احساس سے ہم آج بھی محروم ہیں۔ ایوان اقتدار کے اندر اور باہر کی بعض قوتوں نے اپنے سرپرستوں کے عزائم کی تکمیل کیلئے اسلام کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ ثقافتی طائفوں اور جدید نظریات کی آڑ میں نوجوان نسل کو دین سے دور کرنے کی سازشوں کو در پردہ حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔

ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی بقاء اور سالمیت صرف اور صرف اسلام کے انقلابی نظام پر ہی منحصر ہے دوسرا کوئی بھی نظام جو قیام پاکستان کے بنیادی نظریات سے متصادم ہو ملکی اتحاد و یکجہتی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دے گا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا کردار بھی حد درجہ غیر اسلامی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلامیان پاکستان کو اس فکری اور عملی بربادی سے بچانے کیلئے ذرائع ابلاغ عامہ کو اسلامی تہذیب و تمدن کا مبلغ بنایا جائے۔
(گڑھی خیرو سندھ میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب " فروری 1987ء " )

سیاست ہمارا راستہ:
ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے حتیٰ کہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک اس جدوجہد میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے لیکن اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
* ہم کاسہ لیسی کی سیاست کو نہ اپنائیں گے بلکہ اپنے دینی تشخص کے ساتھ حصول مقصد کیلئے سیاست میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ ایسی سیاست جس میں مطالبات دین غالب ہوں۔
* ہم کسی سیاسی جماعت کے تابع نہیں ہیں۔
* ہم وقار اور عزت کی زندگی کو غلامی پر ہر قیمت میں ترجیح دیں گے۔
* صرف وحدت اسلامی سے ہی ملک میں نفاذ اسلام کا عمل کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔

علماء سیاست میں امام خمینی ( رہ ) کی پیروی کریں:
طاغوتی طاقتوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ علماء کو سیاست سے دور رکھیں۔ اس سلسلے میں آپ امام خمینی ( رہ ) کی رہبری و رہنمائی میں ان استعماری سازشوں کا مقابلہ کریں کسی کو خیال نہیں کرنا چاہئے کہ امریکہ مردہ باد کہنا ایک خارجی مسئلہ ہے اور ہمیں صرف اپنے داخلی اور اندرونی معاملات کے بارے میں سوچنا چاہئے بلکہ ہمیں داخلی و خارجی تمام معاملات سے نبرد آزما ہونا چاہئے۔
* علمائے کرام کے بغیر اسلام اور انقلاب کا تصور سرے سے ہی ممکن نہیں۔ میں نوجوانوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ علمائے کرام سے خصوصی رابطہ رکھیں۔ میں علمائے کرام سے زور دیکر یہ کہوں گا کہ وہ نوجوانوں کی بھرپور تربیت کریں اور اس سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں تاکہ اسلام دشمن قوتیں ان کی توانائیوں سے استفادہ نہ کرسکیں۔

دوستی اور دشمنی صرف اللہ کیلئے:
موجودہ دور میں تشیع کا تشخص اہم ترین مسئلہ ہے ہماری دوستی اور دشمنی صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے۔ ہم سب کا مقصد اور ہدف ایک ہے۔ اسلامی نظام حیات کی بالادستی کیلئے شیعہ سنی سے بالاتر ہوکر مغربی نظام حکومت، علاقائیت اور دیگر مادی مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ہم اتحاد و وحدت کی طاقت سے ہی دشمن کی مکاریوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

مکتبِ انبیاء ( ع ):
مکتبِ انبیاء ( ع ) راحت و آرام طلبی نہیں بلکہ تکالیف و زحمات کا مسلسل مقابلہ ہے۔ لہٰذا حق کی خاطر ہمیں یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔

تحفظِ عزاداری:
میرے نزدیک عزاداری سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام افضل العبادات اور شعائر اللہ میں سے ہے، عزاداری ہی کی برکت سے شیعہ قوم دنیا میں باقی ہے اور اسی لئے تحفظِ عزاداری کو ہم اپنا اولین دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔

اسلام محمدی ( ص ) اور امریکی اسلام:
دنیا میں اسلام دو طرح کے ہیں۔ ایک اسلام حضرت محمدؐ کا اسلام ہے اور دوسرا امریکہ اور روس کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ہے، شریعت آرڈیننس دینے والوں نے اسلام اور قرآن کی بالادستی کی بجائے امریکی نظریات سے قریب خودساختہ اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی سازش کی ہے کیونکہ انہیں وہ اسلام قبول نہیں ہے جس میں جذبہ جہاد ہو۔

ہمارے نوجوان اور اسلام:
نوجوان اسلام کے پاسبان ہیں۔ یہ آج کل کا طالب علم ہے بلکہ معاشرے میں خاص کر یونیورسٹیوں میں اسلام کا ایک نمائندہ اور پاسبان بھی ہے وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے اعلیٰ افکار کی رسالت کا بھی ذمہ دار ہے جو نہ فقط تحریر و تقریر کے ذریعے بلکہ اپنے کردار و عمل کے ذریعے دوسروں کو خیر کی دعوت دینے کی مسؤلیت بھی رکھتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 184984
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش