0
Saturday 4 Aug 2012 17:03

علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) اور اتحاد بین المسلمین (1)

علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) اور اتحاد بین المسلمین (1)
تحریر: مظاہر شگری

5 اگست قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کو ہم سے جدا ہوئے چوبیس برس بیت جائیں گے، آپ 5 اگست 1988ء بروز جمعہ پشاور میں اپنے مدرسہ جامعہ معارف الاسلامیہ بعد ازاں جامعہ عارف الحسینی میں دم فجر اسلام و پاکستان دشمنوں کی گولی کا نشانہ بنائے گئے، آپ نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور قیادت میں ملت کی رہنمائی کا حق جس طرح ادا کیا، آج تک کسی اور نے آپ کی کمی کو پورا نہیں کیا، شہید قائد (رہ) نے اپنے دور قیادت میں ملک کے کونے کونے میں جاکر لوگوں کی فکری، شعوری، مذہبی، اجتماعی، ملی تربیت و بیداری کیلئے نیز مختلف قومی و بین الاقوامی مسائل پر اپنا مؤقف بڑی صراحت کے ساتھ پیش کیا۔
 
انہوں نے پہلی بار ملت تشیع کو پاکستان کے سیاسی افق پر دوسری اقوام و ملل کے مقابل لانے کی جدوجہد کی اور 6 جولائی 1986ء کے دن مینار پاکستان کے وسیع گراؤنڈ میں عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس منعقد کرکے اپنی قوت کا بھرپور اظہار کیا۔ یہ پاکستان پر بدترین مارشل لاء کا دور تھا، عوامی حقوق پامال تھے اور سیاسی جماعتیں عملًا کالعدم تھیں، ایسے میں آپ نے پاکستان کو آمریت سے نجات دلانے اور عوامی حقوق کی بازیابی کیلئے بھرپور جدوجہد کی، ملک بھر میں ایک ایک علاقہ میں جاکر سوئی ہوئی ملت کو بیدار کیا۔

علامہ عارف الحسینی (رہ) پاکستان میں حضرت امام خمینی (رہ) کے نمائندے بھی قرار پائے تھے، لہذا ان میں پاکستان کے خمینی (رہ) کی جھلک ہر انقلاب پسند نوجوان کو دکھائی دے رہی تھی اور وہ جوق در جوق ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو رہے تھے۔ پاکستان میں پہلی بار یہ نعرہ سنائی دے رہا تھا کہ "قائد کے فرمان پر جان بھی قربان ہے"۔ ان کی فعالیت، نظریات اور باتقویٰ شخصیت میں استعمار نے مستقبل کی شکل دیکھ لی تھی، لہذا اس نے آپ کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ عالمی استعمار خمینی (رہ) کے اس معنوی فرزند کو اپنے زرخریدوں کے ذریعے 5 اگست 1988ء کو دم فجر شہید کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ آپ کی خدمت میں شہید کے چند منتخب افکار پیش کرتے ہیں۔ تاکہ ان کی شخصیت اور افکار سے آگاہی ہو سکے۔ ان خوبصورت افکار کو پڑھ کر یقیناً یہ احساس ہوگا کہ کتنی بڑی ہستی ہم اہلیان پاکستان سے چھین لی گئی۔۔۔۔!

مشترکہ دشمن:
شیعہ اور سنی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے تاریخی اختلافات کو حدود میں رکھیں، ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ، روس اور اسرائیل ہیں، جو ہمیں نابود کرنے کے درپے ہیں، ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو بھلا کر اسلام کے دشمنوں کے خلاف مشترکہ مؤقف اختیار کریں۔
(شیعہ جامع مسجد بھکر میں خطاب "مارچ 1984ء")

اپنی اپنی فقہ پر قائم رہتے ہوئے اتحاد:
درحقیقت اپنے اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے بھی زندگی میں مل جل کر رہا جاسکتا ہے۔ آخر یہ کیوں ضروری ہے کہ میں کسی کے یا کوئی میرے مذہبی جذبات مجروح کرے۔ اسلام میں اسی وجہ سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی ممانعت ہے کہ اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ نفرت ہی موجب فساد بنتی ہے۔ البتہ کسی کی دل آزاری کئے بغیر اپنے عقائد پر سختی سے کاربند رہنا اسلام میں بہت ضروری ہے۔ ایران میں شروع شروع میں بعض بیرونی طاقتوں نے کرد قبائل کو عقائد کی بناء پر بغاوت پر ابھارا، لیکن جب دوسری طرف سے ان کے مذہبی جذبات کے احترام کا وطیرہ اختیار کیا گیا تو شیعہ سنی اتحاد کی شاندار مثال دیکھنے میں آئی۔
(شہید باقر الصدر (رہ) اور سیدہ بنت الہدیٰ کی چوتھی برسی کے موقع پر پیغامات "اپریل 1984ء")

ہمارا پیغام اخوت:
وقت آگیا ہے کہ وحی الٰہی کے ذریعے پہنچے ہوئے ہمارے عظیم پیغام حیات اسلام کی صداقتوں پر یقین رکھنے والے تمام انسان باہم متحد ہوکر اُٹھ کھڑے ہوں، تاکہ انسانوں کو فریب دے کر لوٹنے والی استعماری اور شیطانی قوتوں پر بھرپور ضرب لگائی جاسکے اور دنیا میں عدل و انصاف، الفت و محبت اور حقیقی امن و آشتی کی فضا قائم کی جاسکے۔ بندوں پر بندوں کی حکمرانی ختم کرکے فقط مالک حقیقی کی حکمرانی کا نفاذ ہی ان شہدائے راہ حق کی تمنا ہے اور یہ انسانی کامرانیوں کی منزل ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پیغام شہداء کے امین بنیں اور ہر طرح کی قربانی دے کر اس امانت کی حفاظت کریں۔ وطن عزیز پاکستان میں حقیقی اسلامی معاشرے کا قیام ہماری اولین خواہش بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے میں ہر مسلمان محب وطن پاکستانی کو دعوت اتحاد عمل دیتا ہوں۔

آج اتحاد اُمت کی اشد ضرورت ہے:
آج کا مسلمان بیدار ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارا مرکز اور ہماری بقاء صرف اور صرف اسلام سے ہے اور ہمیں اتحاد بین المسلمین کے جھنڈے تلے جمع ہو کر روسی اور امریکی گماشتوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ آج مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے بلکہ اسلام و کفر کا مسئلہ درپیش ہے۔ مسلمان متحد ہو کر ہی قومیتوں کے بتوں کو توڑ سکتے ہیں۔ ہمیں ناصرف سازشی عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہوگی، بلکہ فسادات برپا کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنا ہوں گے۔

وہ دن دور نہیں جب بین الاقوامی استحصالی قوتوں کو امت کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی:
اسلام کے دشمنوں پر عیاں کر دینا چاہیے کہ فلسطین، لبنان، افغانستان، ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمانوں پر جو وحشت و بربریت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے اور اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران اور لیبیا کے خلاف جو دیدہ و دانستہ اشتعال انگیز کارروائیاں کی جا رہی ہیں، وہ اس بات کی متقاضی ہیں کہ پوری امت مسلمہ ایک جسد واحد کی طرح اپنے تمام وسائل کے ساتھ دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے اور اگر ایسا ممکن ہوسکا اور انشاءاللہ ایک دن ضرور ایسا ہوگا تو پھر کسی بین الاقوامی استحصالی قوت کو امت مسلمہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی۔

ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کیلئے سرگرم عمل ہو جائیں گے اور باطل قوتوں کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل کو اپنانے کیلئے عملی اقدامات کی طرف توجہ فرمائیں گے، نہ یہ کہ بعض حکومتوں کے ایماء پر آپ اسلامی کانفرنس کی طرف سے ایسی کانفرنس کا انعقاد کروائیں جو امت مسلمہ کے مفادات کو زک پہنچانے کے درپے ہو۔
(اسلامی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل شریف الدین پیرزادہ کے نام کھلا خط "21 فروری 1986ء")

وقت کے تقاضے:
میں تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وقت کے تقاضوں کا ادراک حاصل کریں، جو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مسلمان متحد ہوکر عالمی سامراج کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔ سامراجی قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر موجود فروعی اختلافات کو ہوا دے کر انہیں کمزور کریں۔
(گلزار صادق بہاولپور میں ایک عظیم اجتماع سے خطاب "مارچ 1986ء")

شرعی و ایمانی فریضہ:
میں تمام مسلمانوں سے بار بار یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہر ممکن طریقے سے امریکہ، روس اور اسرائیل کی اسلام دشمن پالیسیوں کی بھرپور مذمت اور ان سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہیں کہ یہ ان کا شرعی و ایمانی فریضہ ہے۔
(گلگت، بلتستان کے دورے کے موقع پر خطاب "جون 1986ء")

تنگ نظری کی بجائے وسعت نظری:
بعض عناصر نے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے فتویٰ سازی کے کارخانے قائم کرلئے ہیں۔ تنگ نظری اہل تشیع میں ہو یا اہل تسنن میں، اس سے فقط اسلام کو نقصان پہنچے گا۔ فتویٰ سازی اور تعصب بیرونی جارحیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس کا فائدہ صرف اسلام دشمن قوتیں ہی اُٹھا سکتی ہیں۔ دنیا بھر کے باضمیر اور حریت پسند مسلمان متحد ہوکر ہی سامراجی تسلط، تنگ نظری اور تعصب سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔
(لاہور میں قرآن و سنت کانفرنس سے خطاب "6 جولائی 1986ء")

پاکستان سب کا ہے:
پاکستان کے قیام کیلئے تمام مکتب فکر کے مسلمانوں نے بھرپور جدوجہد کی ہے۔ آج کسی ایک مکتب فکر کے نظرئیے کو دوسروں پر مسلط کرنے کا مقصد نظریہ پاکستان سے انحراف کے مترادف ہوگا۔
(بھکر میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب "جولائی 1986ء")

(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 184522
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش