0
Sunday 16 Sep 2012 13:17

خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن کی قیادت

خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن کی قیادت
تحریر: رشید احمد صدیقی

پاکستان میں 1977ء کے مارشل لاء کے بعد یہ سیاسی رواج چلا آرہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان اقتدار کی باری چلی آرہی ہے۔ ایک مرتبہ مسلم لیگ کو حکومت ملتی ہے۔ عوام اس کی نااہلی سے تنگ آجاتے ہیں تو اگلی مرتبہ پی پی پی کو اقتدار ملتا ہے۔ 2008 ,2002 ,1997 ,1993 ,1990 ,1988 ,1998ء میں مسلسل یہی عمل دہرایا گیا۔ اب ایک بار پھر پی پی پی کی حکومت ہے۔ اس نے پانچ سال کی مدت تمام تر حماقتوں کے ساتھ پوری کر لی ہے اور لگتا یوں ہے کہ اگلے انتخابات میں مسلم لیگ کی باری ہے۔ بیچ میں عمران خان کا سونامی اٹھا، لیکن لگتا یہ ہے کہ شائد وہ اپنے ہی بھنور سے نہ نکل پائے۔
 
27 سال میں چھ بار کے تجربہ کے بعد پاکستانی ووٹر کو کچھ نہ کچھ تجربہ حاصل ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کو پنجاب میں حکومت ملی تو چھوٹے میاں صاحب کی محنت ضرب المثل بن گئی۔ وہ پنجاب کے بھٹو بننے کی کامیاب کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی مقبول عام سیاست کی وجہ سے بڑے میاں صاحب گویا سستا رہے ہیں۔ چھوٹے میاں کو پنجاب سے فرصت نہیں، وہ وہاں کچھ زیادہ ہی مصروف ہیں۔ اپنے پاس نصف درجن سے زائد وزارتیں رکھی ہوئی ہیں۔ بڑے میاں صاحب پر ذمہ داریوں کا اتنا بڑا بوجھ نہیں، لیکن وہ لاہور دبئی اور لندن ہی کے مثلث میں گھوم پھر رہے ہیں۔ 

پنجاب تو ان کا اپنا ہے اور چھوٹے میاں صاحب کی محنت وہاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بلوچستان میں پارٹی سیاست چل نہیں رہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے وہاں مسلم لیگ کا صفایا ہوتا دکھائی دیا ہے۔ سندھ میں سید غوث علی شاہ صاحب ہیں۔ وہ حکومت کے دنوں میں، پھر جیل کی صعوبتوں میں اور اس کے بعد جلاوطنی کے دنوں میں میاں صاحب کے پہلو بہ پہلو رہے ہیں۔ لیکن واپسی پر میاں برداران کو پنجاب میں اقتدار ملا تو سید صاحب سندھ میں تنہائی کا شکار ہوگئے۔ وہ اس پر خاصے ناراض بھی ہوئے تھے، لیکن ان کی عمر اور صحت شائد ان کی ناراضگی کو جاوید ہاشمی کی حد تک جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔

چنانچہ خاموشی میں ہی عافیت سمجھی اور وہ تحریک انصاف کی سونامی میں غوطہ زن نہیں ہوئے۔ سندھ میں میاں صاحبان کو ممتاز علی بھٹو کی شکل میں بظاہر بڑی کامیابی ملی، لیکن واقفان سیاست جانتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے انکل ہونے کے باوجود انتخابی سیاست میں ان کا وزن قابل ذکر نہیں رہا ہے۔ البتہ فاروق لغاری کے طفیل نگران حکومت کے بغلی دروازہ سے ایک بار نگران وزیراعلٰی بنے تھے۔ آئندہ انتخابات میں ان کا کوئی خاص وزن مسلم لیگ ن کے پلڑے میں دکھائی نہیں دیتا۔ 

خیبر پختونخوا میں بھی پی پی پی کے ساتھ مسلم لیگ کی اقتدار کی باری چلی آئی تھی۔ آخری بار پی پی پی نے صوبہ کی حکومت مرکز کی قیمت پر اے این پی کو دے دی تھی اور خود یہاں چالیس فیصد پر اکتفا کر لیا تھا۔ پیر صابر شاہ مسلم لیگ ن کے ساتھ تاحیات قائد چلے آرہے ہیں۔ حکومت میں البتہ سردار مہتاب کا مقام رہا ہے۔ جب صوبہ میں مسلم لیگ کی حکومت نہیں ہوتی تو یہ سکڑ کر ہزارہ تک محدود ہو جاتے ہیں۔ اقتدار کی جاری اننگز میں صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھنے پر ہزارہ میں الگ صوبہ کی تحریک چل پڑی۔
 
پیر صابر شاہ تحریکوں کا مقابلہ کرنیوالوں میں تو نہیں، البتہ سردار مہتاب نے قومی اسمبلی کی رکنیت اور پارٹی عہدہ سے مستعفی ہو کر کچھ سیاسی نمبر ضرور حاصل کیے تھے۔ لیکن وہ تاحال رکن قومی اسمبلی بھی ہیں اور پارٹی میں ان کا اتنا بڑا مقام ہے کہ راجہ پرویز اشرف کے مقابلہ میں وزارت عظمٰی کا انتخاب ان سے ہی لڑوایا گیا۔ اس سے جو نمبر انھوں نے استعفٰی کے اعلان پر حاصل کیے تھے، وہ بھی ان سے کٹتے معلوم ہو رہے ہیں۔
 
ایسے میں مسلم لیگ ن نے ق لیگ سے امیر مقام کو کاٹ کر صوبہ میں عوامی طاقت حاصل کرلی تھی۔ وہ ایک متحرک لیڈر ہیں۔ ان میں قبولیت بھی ہے اور عطا بھی۔ ان کی سیاسی اٹھان اچانک جماعت اسلامی سے ہوئی، جب پردہ عدم سے 2002ء میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے، لیکن اپنی آگے جانے اور کامیابیاں سمیٹنے کی صلاحیت کی وجہ سے مسلم لیگ ق میں شامل ہوکر وفاقی وزیر بن گئے۔ جنرل مشرف نے منہ بولا بھائی قرار دیا۔ ان کو اپنا ذاتی پستول تحفے میں دیا۔ نئی جماعت میں نو وارد ہونے کے باوجود اس کے صوبائی صدر بن بیٹھے۔
 
ان کی بہت زیادہ صلاحیتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ سیاسی فائدہ کے لیے اللہ کی دی ہوئی دولت کو خوب لٹاتے ہیں۔ جب سے مسلم لیگ ن میں آئے ہیں، چھا سے گئے ہیں۔ وہ متحرک و فعال اور خرچ کرنے والے لیڈر ہیں۔ دوسری طرف ان کی جماعت بحر منجمد سیاسی سے کم نہیں۔ اس میں حرکت ہی نہیں۔ انتخابات نامی چیز بھی ندارد۔ اگر صحیح معنوں میں پارٹی انتخابات ہوتے ہیں تو امیر مقام میں یہ صلاحیت ہے کہ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر بن جائیں۔ نامزدگی کی سیاست میں بھی ان کو میاں صاحب نامزد کر لیتے لیکن پیر صابر شاہ اور سردرا مہتاب نے تو میاں صاحب کے فرزند نسبتی کیپٹن صفدر کی پارٹی رکنیت معطل کرا دی ہے۔ چنانچہ امیر مقام کا وہاں چلنا ایسا لگتا ہے جسیے خواجہ محمد خان ہوتی کا تحریک انصاف میں مختصر قیام تھا۔ 

میاں نواز شریف کے داماد اور قابل اعتماد سپاہی کیپٹن صفدر کا ذکر آیا۔ وہ بھی کچھ زیادہ فعال بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو سال قبل جب مانسہرہ میں قومی امسبلی کا ضمنی انتخاب ہو رہا تھا، تو ان کی بے جا پھرتی کی وجہ سے مسلم لیگ ن اپنی جھولی میں پڑی نشست گنوا بیٹھی تھی۔ وہ مسلم لیگ یوتھ ونگ کے مرکزی صدر ہیں، صوبہ میں پائوں جمانے کی کوشش میں یہ نہیں دیکھا کہ یہاں پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب بھی ہیں۔ جس تالاب میں اتنی بڑی مچھلی جامد بیٹھی ہیں، ان میں چھوٹی مچھلی کسیے تیر سکتی ہے۔ چنانچہ نواز شریف کا ذاتی سہارا نہ ہوتا تو یہ چھوٹی مچھلی اب تک ڈوب چکی ہوتی یا بڑی مچھلیوں کی غذا بن چکی ہوتی۔ 

صوبہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن کوئی بڑا تیر تو نہیں مار سکی ہے، اب تک البتہ پی پی پی سے اے این پی اور وہاں سے تحریک انصاف میں جانے والے خواجہ محمد خان ہوتی کو ساتھ ملانے میں کامیابی ضرور حاصل کی ہے۔ لیکن خواجہ ہوتی کا سیاسی استحکام یہاں کی سیاست سمجھنے والوں میں کافی متنازعہ ہے۔ ایک اور بات بھی ہے کہ میاں صاحب ان کو حاصل کرنے کی قیمت ایک سال قبل پیدائشی مسلم لیگی عبدالسبحان اور سر انجام خان کو کھو دینے کی صورت میں چکا چکے ہیں۔
 
مسلم لیگ ن کو ایک اور کامیابی فرید طوفان کو شامل کرنے کی صورت میں ہوئی تھی۔ جنوبی اضلاع میں انور کمال کے بعد فرید طوفان ان کو دوسرے فعال لیڈر ملے تھے۔ لیکن بات وہی کہ بحر منجمد سیاسی کا مزاج رکھنے والی مسلم لیگ میں حرکت کون لائے گا۔ جب پارٹی ہزارہ میں بھی ہار گئی تھی، ایم ایم ا ے کے طوفان میں تو انور کمال خان لکی مروت میں کچھ نشستیں بچانے میں کامیاب رہے تھے۔ آخری عمر میں وہ بھی کئی سال تک ناراض اور خاموش صوبائی جنرل سیکرٹری تھے، اب تو اللہ مغفرت کرے انتقال کر گئے ہیں۔ یہ بھی مسلم لیگ کے لیے بڑا نقصان ہے۔ فرید طوفان سے اب تک کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا ہے، حالانکہ صوبائی جنرل سیکرٹری کے خالی عہدہ کے لئے وہ انتہائی مناسب تھے۔ 

ان حالات میں جب پارٹی میں نئے آنے والے امیر مقام کی کوئی مناسب جگہ نہیں بن رہی ہے۔ فرید طوفان بے قیمت ثابت ہو رہے ہیں۔ پارٹی کی کوئی تنظیم نہیں ہے۔ وہ تو بھلا ہو عمران خان کا کہ اپنی سونامی کو سنبھال نہ پائے ورنہ مسلم لیگ کے باغ کے سارے پرندے اڑ کر وہاں جانے والے تھے۔ اب یہ لوگ ادھر رہیں گے یا کہیں اور جائیں گے یہ تو ہوا کے رخ سے پتہ چلے گا۔ فی الحال اتنا کافی ہے مسلم لیگ ن صوبہ خیبر پختونخوا میں آئندہ حکومت بنانے کی دوڑ سے دور ہے۔

ان کو صرف ایک ہلکی سی امید ہے کہ ماضی کی آئی جے آئی طرز کا کوئی اتحاد بن جائے، لیکن اب کے بار جماعت اسلامی ماضی کے برعکس اپنا کندھا دوسرے کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی روادار نہیں اور اس سلسلے میں جے یو آئی کو بھی گھاس نہیں ڈال رہی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ اپنے کندھے پر اس بار خود سوار ہو کر اقتدار کی ہما کو پکڑ لے۔ الیکشن کا ماحول بننے تک انتظار کرنا ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 195766
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش