0
Sunday 9 Dec 2012 20:16

دہشتگردوں کو امریکی حمایت!

دہشتگردوں کو امریکی حمایت!
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
دنیا کبھی دو بلاکوں میں تقسیم تھی تو طاقت کا توازن بھی قائم تھا۔ اقوامِ متحدہ کا ادارہ بھی پوری طرح امریکی باندی نہیں بنا تھا اور کمزور ملکوں کو بھی امریکی طاقت کے مظاہر کے سامنے بے بس نہیں ہونا پڑتا تھا۔ یہ بحث کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کہ دو بلاکوں میں تقسیم دنیا کی دیگر مشکلات کیا تھیں؟ بالخصوص مشرقِ وسطٰی میں انسانی اور دینی آزادیوں کی اشکال کیا تھی؟ سرد جنگ کے اسی زمانے میں کون کون سی اقوام اور ممالک کام آئے اور آخر نتیجہ کیا نکلا؟ عالمی سیاسیات کے طالبعلموں کو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ دو طاقتوں کے اس کھیل میں کون کون بروئے کار آیا۔ 

ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ ہم ہر اس بات کو رد کر دیتے ہیں جو ہمارے مزاج کے خلاف ہو۔ سوویت یونین کو توڑنے کے لیے امریکہ نے جس ذہنی رویے کو فروغ دیا، آج یہ رویہ انسانی معاشرے کے درپئے ہو چکا ہے۔ آج افغانستان اور پاکستان میں دنیا جن’’جہادی‘‘ گروہوں کے خلاف لڑ رہی ہے، یہ اسی ذہنی رویے کے فروغ کا نتیجہ ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ اس ذہنی رویے نے سب سے زیادہ نقصان پاکستانی معاشرے کو پہنچایا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ امریکہ نے اپنے ڈالروں کو کام میں لا کر دنیا بھر سے انتہا پسندوں کو اکٹھا کیا، ان کی آماجگاہ ہمارے قبائلی علاقے قرار پائے، اور پھر ان ’’جہادیوں‘‘ کو دین کی ’’سربلندی‘‘ کے کام پر لگا دیا گیا۔

روس کے خلاف امریکی مفادات کے اس ’’جہاد‘‘ کی حیرت انگیز تفصیلات تاریخ کا حصہ ہیں۔ البتہ اس سچ کو بھلایا نہ جائے کہ افغان عوام کل بھی مظلوم تھے اور آج بھی۔ اس خطے میں بارود کی بو کا ذمہ دار کون ہے؟ اس وقت یہ بات راز نہیں۔ سوویت یونین کا قصہ تمام کرکے امریکہ نے خطے میں اپنا ٹھکانہ کر لیا، ظاہر ہے اس نے ویسے ہی تو ادھر کا رخ نہیں کیا نا؟ میں شروع دن سے اس بات کا قائل ہوں کہ امریکہ افغانستان میں طالبان کو فتح کرنے نہیں آیا، اگر ایسا ہوتا تو امریکہ یہ کام چند ماہ میں کرکے وہاں ’’پرامن‘‘ حکومت قائم کر سکتا تھا۔ لیکن اس کی حریص نگاہیں بلوچستان سے ایران اور گلگت سے چین تک لگی ہوئی ہیں۔

اس کی لگائی آگ کے شعلے گاہے بلند ہوتے رہتے ہیں۔ بظاہر یہ بات بڑی اہم ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک مل کر بھی اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟ مگر دیکھا جائے تو یہ اپنے ٹارگٹ کی جانب رواں دواں ہیں۔ خطے میں مسلسل انتشار، علاقائی ممالک کے درمیان غلط فہمیوں کا فروغ۔ خطے میں آگ کو مسلسل سلگائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ دہشتگردوں اور کالعدم تنظیموں کی پشت پناہی بھی کرتا رہے اور ان کی سرکوبی کی بات بھی۔ اپنے مقصدکے لیے امریکہ کو مہذب انتہا پسندوں کی بھی ضرورت ہے اور نامزد دہشتگردوں کی بھی۔ جن کی سرکوبی کے لیے وہ آگے بڑھتا رہے۔ امریکہ کو انتہا پسندوں کی فکری حمایت کرنے والوں کی بھی ضرورت ہے، تاکہ دہشتگردی بڑھنے کا تائثر ملتا رہے اور امریکہ آگے بڑھنے کی سبیل نکالتا رہے۔

کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست کا کہنا تھا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ دہشتگردوں کو امریکی پشت پناہی حاصل ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ اسلامی ممالک کو آپس میں الجھانا چاہتا ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ علاقائی مسائل کا حل پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔ اپنے خطاب میں انھوں نے پاکستان کو توانائی بحران سے نجات دلانے کا اعادہ بھی کیا اور بالخصوص اس غلط فہمی کو دور کیا کہ مشرقِ وسطٰی میں بحران ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بحران نہیں بلکہ اسلامی بیداری کی لہر ہے۔ 

اس امر میں کلام نہیں کہ امریکہ دہشتگردوں کا پشت پناہ ہے۔ یہ بات کھلا راز ہے کہ مختلف نام نہاد ’’جہادی‘‘ گروپ، جو آج کل دہشتگرد قرار دیئے جا چکے ہیں، کبھی امریکی آنکھ کا تارا تھے اور امریکہ ان کے ناز اٹھاتا تھا۔ پھر ایک لمبی منصوبہ بندی کے تحت امریکہ میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا اور امریکہ اپنے ہی بندوں کی سرکوبی کے لیے اس خطے میں چلا آیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ مگر کیا امریکہ چلا جائے گا؟ ممکن ہے امریکہ اگلے ہی برس اپنی فوجیں افغانستان سے بلا لے۔ کچھ تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے جاتے ہی خطے میں امن لوٹ آئے گا، مگر میرا خیال ہے کہ دائمی امن کے لیے امریکی انخلا کافی نہیں۔ 

کیا امریکہ نے وہ مقاصد پورے کر لیے جن کے حصول کے لیے وہ افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا؟ بالکل نہیں۔ فقط اسامہ بن لادن کی موت امریکی واپسی کا ذریعہ نہ ہوگی۔ کیا ملا عمر گرفتار ہوا؟ جو کہتے ہیں کہ اسامہ کی موت کے بعد امریکہ کے پاس اس خطے میں رہنے کا کوئی جواز نہیں، انھیں یاد رہے کہ ملا عمر ابھی حیات ہے۔ ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ امریکہ اگر خطے سے چلا بھی گیا تو اس کے لیے کام کرنے والے گروہ بروئے کار آتے رہیں گے، انھیں امریکی سرپرستی حاصل رہے گی اور وہ کام کرتے رہیں گے، اور ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اسی جانب ہمیں متوجہ کیا ہے۔ 

اصل مسئلہ امریکہ کا انخلا نہیں بلکہ وہ پشت پناہی، وہ روابط اور دہشتگردوں کے لیے سامانِ رسد کی ترسیل ہے، جسکی وجہ سے امریکہ نے اس خطے میں آگ لگا رکھی ہے۔ دہشتگردی ایک خوفناک مسئلہ ہے اور اس سے نمٹے بغیر انسانیت کا مستقبل لہولہان ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں ایک بار پھر خانہ جنگی کی کیفیت ہے، اور یہ آگ پاکستان کے اندر تک پھیل جائے گی۔ ہمیں اس ذریعے، اس رابطے اور ترسیل کی بھی فکر کرنی ہے جسکی بنا پر دہشتگرد اسلحہ اور رقوم حاصل کرکے استعماری مفادات کی آبیاری کرتے ہوئے عالمی امن کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 219618
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش