1
0
Thursday 13 Dec 2012 23:55

کالعدم سپاہ صحابہ اور ملی یکجہتی کونسل

کالعدم سپاہ صحابہ اور ملی یکجہتی کونسل
تحریر: محمد مہدی
 
کالعدم سپاہ صحابہ کو ملی یکجہتی کونسل میں شامل کرنے کی خبریں گرم ہیں۔ کونسل میں شامل کچھ جماعتیں زور لگا رہی ہیں کہ سپاہ صحابہ کو بھی شامل کیا جائے۔ 7 دسمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے کونسل کے اجلاس میں یہ معاملہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے اٹھایا۔ انہوں نے اجلاس سے کہا کہ جس طرح دفاع پاکستان کونسل ملت تشیع کے بغیر ادھوری ہے اسی طرح ملی یکجہتی کونسل بھی سپاہ صحابہ کے بغیر نامکمل ہے۔ تحریک تحفط ختم نبوت کے رہنماء اللہ وسایا نے کہا کہ ان کی ملک اسحاق سے بات ہوئی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر علامہ سید ساجد نقوی یہ یقین دہانی کرا دیں کہ ملک کے اندر کوئی بھی شخص اصحاب رسول و امہات المومنین کیخلاف ہرزہ سرائی نہیں کریگا تو وہ اپنے جلوسوں میں کافر کافر کے نعرے بند کرا دیں گے۔
 
اجلاس میں اسی سے ملتے جلتے الفاظ حافظ حسین احمد نے بھی ادا کئے اور مذکورہ رہنماوں نے سپاہ صحابہ کو کونسل میں شامل کرنے پر زور دیا۔ اس پر علامہ قاضی نیاز حسین نقوی نے عمدہ طریقہ سے اس کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ انصاف نہیں کہ دیوبند کے ایک مخصوص گروہ کو ایک مکتب فکر کے برابر کھڑا کر دیا جائے، ایسا گروہ جس سے جہالت ٹپکتی ہے۔ ہمارے مراجع عظام نے واضح فتویٰ دیا ہوا ہے کہ اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے اور امہات المومنین کی توہین اس سے بھی کہیں سنگین ہے، اس کے بعد بھی اگر کوئی اس موضوع پر بات کرے تو یہ انصاف نہ ہوگا۔ 

لیاقت بلوچ، اللہ وسایا اور حافظ حسین احمد اچھے طریقہ سے جانتے ہیں کہ سپاہ صحابہ کے لوگ کون ہیں، ان کا ایجنڈا کیا ہے، یہ لوگ ملک میں کیا چاہتے ہیں اور کس کے پے رول پر کام کر رہے ہیں۔ حافظ حسین احمد تو وہ چشم دیدہ فرد ہیں جنہیں اسی سال 5 اکتوبر کو اسلام آباد کے جلسے میں سپاہ صحابہ نے بلا کر تقریر کے دوران کافر کافر کے نعرے لگائے اور امام خمینی سمیت ملت تشیع کی برجستہ شخصیات کی توہین کی۔ اب اگر وہ اور ان کے دیگر ہمنوا اس تکفیری گروہ کو کونسل میں شامل کرانا چاہتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے آخر سپاہ صحابہ کو کیوں شامل کیا جانا چاہیے۔؟ سپاہ صحابہ کی وکالت کرنے والے یہ بھی تو بتائیں کہ کیا اس جماعت نے اپنے منشور کو بدل دیا ہے، کیا ان لوگوں نے اپنے شعائر اور نعروں کو تبدیل کر دیا ہے۔ کیا ان لوگوں نے اہل تشیع کیخلاف غلیظ زبان بند کر دی ہے، کیا ان لوگوں نے جھنڈا تبدیل کر دیا ہے۔
 
اگر ایسا ہوگیا ہے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں کہ انہیں بھی شامل کرلینا چاہیے۔ لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ آج بھی اس کالعدم گروہ کے جلسوں میں یہ نعرہ گونجتا ہے کہ کافر کافر اور جو نہ مانے وہ بھی کافر ہے، تکفیریوں نے تو یہاں تک دوٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ قاضی حسین احمد منافق ترین شخص ہیں اور اس جید شخصیت پر ہونے والے خودکش دھماکے کی ذمہ داری بھی انہیں تکفیریوں نے قبول کی۔ جب یہ سب چیزیں اپنی جگہ موجود ہیں اور کچھ بھی نہیں بدلا، تو کس بنیاد پر انہیں کونسل میں شامل کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ لیاقت بلوچ کا یہ کہنا ہے کہ اہل تشیع کے بغیر دفاع پاکستان کونسل نامکمل ہے، بالکل درست ہے لیکن ان کا یہ کہنا کہ سپاہ صحابہ کے بغیر ملی یکجہتی کونسل نامکمل ہے درست نہیں، کیونکہ ملت تشیع ایک مکتب ہے، جبکہ سپاہ صحابہ دیوبندیوں کا ایک ایسا گروہ ہے جسے خود مکتب دیوبند کی نمائندہ تنظیمیں اپنانے اور ان کی کارروائیوں سے لاتعلق ہیں۔ 

لیاقت بلوچ کی یہ بات بھی غیر معقول ہے کہ اصل مسئلہ سپاہ صحابہ اور ملت تشیع کا ہے، لہٰذا اگر یہ بیٹھ جائیں تو سارے معاملات حل ہو جائیں گے۔ اب لیاقت بلوچ سے کوئی پوچھے کہ بھائی اگر اصل مسئلہ ان دونوں کا ہے تو کونسل میں شامل 27 تنظیمیں کیوں بیٹھی ہیں اور کس کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اگر دیوبندیوں کی نمائندگی سپاہ صحابہ کرتی ہے تو پھر یہ بات بھی مان لینی چاہیے کہ شیعہ کی نمائندگی سپاہ محمد کرتی ہے۔ پھر دونوں ہی آپس میں معاملات طے کریں۔

جناب لیاقت بلوچ سے عرض ہے کہ اصل مسئلہ ملت تشیع کی طرف سے نہیں بلکہ سپاہ صحابہ کا ہے جو ایک تکفیری گروہ ہے۔ جس کی شناخت دوسروں کی تکفیر کرنا ہے۔ مولانا حسن جان، مولانا سرفراز نعیمی، علامہ آفتاب حیدر جعفری، علامہ حسن ترابی، آغا ضیاءالدین اور دیگر کئی اہم شخصیات کو اس لئے قتل کر دیا گیا کہ ان لوگوں نے انہیں بےنقاب کیا اور ان کی سوچ سے اختلاف کیا۔ کراچی میں آج بھی سنی تحریک کے لوگ برملا اظہار کرتے ہیں کہ اس گروہ نے ان کی مساجد پر قبضہ کیا ہوا ہے اور یہ لوگ کئی افراد کے قتل میں بھی ملوث ہیں۔

اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ کیا سپاہ صحابہ کو ملی یکجہتی کونسل میں شامل کیا جانا چاہیے۔؟ کیا ان کے کونسل میں بیٹھنے سے معاملات حل ہوجائیں گے۔؟ کیا سپاہ صحابہ کے افراد کونسل میں شامل ہونے کے بعد کافر کافر کے نعرے ترک کر دیں گے اور تکفیریت چھوڑ دیں گے۔؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے اور انہیں کونسل میں شامل کرانے والے اس بات کی یقین دہانی کرا دیتے ہیں تو یقیناً انہیں شامل کیا جانا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر سپاہ صحابہ موجودہ کیفیت سے نکلنا چاہتی ہے تو انہیں موقع ضرور ملنا چاہیے اور ہمیں بھی انہیں موقع دینا چاہیے، لیکن یہ تمام چیزیں جو اوپر بیان کی گئی اس بات سے مشروط ہیں۔
 
اگر سپاہ صحابہ کی قیادت جناب قاضی حسین احمد کو تحریری طور پر لکھ کر دے کہ وہ آج کے بعد ملک بھر میں تکفیری نعرے ترک دے گی، وہ شخصیات کی توہین کرنا چھوڑ دے گی اور آج کے بعد وہ سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے آگے بڑھے گی تو اسے کونسل میں شامل کرنے کی گنجائش پیدا کی جانی چاہیے۔ ماضی میں بھی سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کونسل کا حصہ تھیں، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جنگ جتنی بھی طویل کیوں نہ ہو جائے بلآخر مذاکرات کرنے ہی پڑتے ہیں۔ شرائط رکھنی ہی پڑتی ہیں۔

سوموار کے روز کالعدم جماعت کے نائب صدر ملک اسحاق نے ملتان میں پریس کانفرنس کی، جس میں اس نے علامہ ساجد نقوی کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر وہ تحریری طور پر یقین دہانی کرائیں اور اعلان کریں کہ کوئی شیعہ صحابہ کرام پر تبرا نہیں کریگا اور انہیں کافر نہیں کہے گا تو وہ ذمہ داری سے اعلان کرتے ہیں کہ وہ جلسوں میں شیعہ کافر کافر کے نعرے بند کرا دیں گے۔ لیکن اس جاہل انسان کو یہ معلوم نہیں کہ شیعوں کے رہبر اعلٰی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے واضح اور دوٹوک فتویٰ دیا ہے کہ اہل سنت کی مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے اور امہات المومنین کی توہین اس سے بھی کہیں سنگین ہے، جبکہ علامہ سید ساجد نقوی تو شروع دن سے ہی اس چیز کیخلاف ہیں اور کونسل کے چارٹر پر دستخط کرچکے ہیں کہ اہل بیت علیہ السلام، امام مہدی (ع) اور اصحاب رسول کی تکفیر کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
 
ملک اسحاق کا یہ کہنا بھی مضحکہ خیز ہے کہ علامہ ساجد نقوی یہ یقین دہانی کرائیں کہ کوئی بھی شخص تبرا نہیں کریگا۔ انفرادی فعل کبھی بھی کسی مکتب کا فعل نہیں ہوا کرتا۔ کیا دیوبند کی تنظیمیں یہ یقین دہانی کرا سکتی ہیں کہ دیوبند کا کوئی بھی فرد شیعہ یا کسی اور مکتب کیخلاف کوئی بات نہیں کریگا۔ یقیناً نہیں کرا سکتیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے، عدالتیں اسی لئے بنائی گئیں ہیں کہ وہ مجرموں کیخلاف انصاف کریں اور مرتکب افراد کو سزا دلائیں، تاکہ معاشرے میں امن برقرار رہے۔ لیکن جب لوگ قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھیں اور ادارے دہشتگردوں کو کھلی چھوٹ دیدیں اور ملک اسحاق جیسے دہشتگرد دفاع اصحاب کا لبادہ اوڑ کر سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیں اور پھر معصوم بن کر مطالبہ کریں کہ گلگت میں فرقہ وارانہ دہشت گردی ہو رہی ہے، تو یہ انتہائی مضحکہ خیز عمل ہے۔
خبر کا کوڈ : 221061
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Weldone
ہماری پیشکش