0
Monday 17 Dec 2012 18:56

پشاور میں دہشتگردی کی واردات!

پشاور میں دہشتگردی کی واردات!
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
پشاور میں فورسز نے آپریشن تو مکمل کر لیا مگر تازہ واردات کئی فکر انگیز سوالات کو جنم دے گئی۔ ہمیں اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم ابھی تک دہشتگردوں کے خلاف متفقہ قومی لائحہ عمل ہی طے نہ کرسکے۔ گذشتہ ساڑھے چار سالوں میں سابق حکمران مشرف کے دورِ حکومت کو بھی ملا لیا جائے تو کم و بیش ایک عشرے تک، ہم دہشتگردی کے خلاف کوئی مؤثر قانون سازی ہی نہ کرسکے۔ اب جا کر انسدادِ دہشتگردی ایکٹ لایا گیا، جس سے ثابت ہوتا ہے دہشتگردوں اور ان کے حواریوں کی جانب سے حکومتیں کس قدر دباؤ کا شکار رہی ہوں گی۔ پشاور میں ہفتے کی رات باچا خان انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور اس سے ملحقہ پاک فضائیہ کے ایئر بیس پر دہشتگردوں کا حملہ بلاشبہ ان کی منظم کارروائی تھی۔ ایک طویل آپریشن کے بعد اگرچہ سکیورٹی فورسز نے اتوار کو صورتحال پر قابو پا لیا اور ایئر پورٹ کو پروازوں کے لیے کھول دیا گیا، لیکن یہ کارروائی اس امر کا ثبوت ہے کہ دہشتگرد نہ صرف پوری طرح فعال ہیں بلکہ ان کا خفیہ اطلاعاتی نظام بھی پوری طرح مؤثر ہے اور اسی بنا پر وہ انتہائی حساس مقامات پر بھی حملے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ 

دہشتگردوں کی جانب سے ایئر پورٹ پر حملے کے نتیجے میں پانچ شہری جاں بحق جبکہ 45 افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس سارے آپریشن میں 10 دہشتگرد مارے گئے۔ حملے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کرلی۔ آئی ایس پی آر کی رپورٹ کی مطابق اتوار کو ایئر پورٹ کے ملحقہ علاقہ پاؤکہ میں مارے جانے والے دہشتگرد ازبک باشندے تھے، جبکہ باقی پانچ دہشتگردوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں یا غیر ملکی ہیں؟ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ مذکورہ حملے کا شمار ملکی تاریخ کے بڑے دہشتگردانہ حملوں میں کیا جائے گا۔ اس سے قبل دہشتگرد کراچی میں مہران ایئر بیس، کامرہ ایئر بیس، راولپنڈی میں جی ایچ کیو اور دیگر حساس و اہم تنصیبات کو نشانہ بنا چکے ہیں، تاہم سکیورٹی اہلکاروں نے ہر بار اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ان کے مذموم عزائم ناکام بنا دیئے۔

دہشتگردی کے خلاف جاری اس جنگ میں اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاک فوج، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں سمیت 35 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ معاشی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ اس امر میں کلام نہیں کہ ہم دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں، مگر اس ساری صورتحال کے باوجود ہم قومی سطح پر دو فکری رویوں کا شکار ہیں۔ ایک فکری گروہ تو سرے سے ہی اس جنگ کو امریکی جنگ کہہ کر طالبان اور ان کی ہمراہی میں دہشتگردی کرنے والوں کو عظیم ’’جہادی‘‘ تصور کرتے ہوئے ان سے توقع کرتا ہے کہ یہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے علمبردار ہیں، اس گروہ کے خیال میں ان کی مسلح جدوجہد اسلام کی فتح پر منتج ہو گی۔ اسی سوچ کے تحت یہ گروہ ان کی دامے، درمے، قدمے، سخنے مدد کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔

اس میں دوسری رائے نہیں کہ یہی لوگ حکومت کو نہ صرف مشورہ دیتے ہیں بلکہ دباؤ بھی ڈالتے ہیں کہ وہ طالبان اور ان کی ہمراہی میں دہشتگردی کرنے والوں کے ساتھ نہ صرف مذاکرات کرے بلکہ ان کے لئے عام معافی کا اعلان بھی کرے۔ یہ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ اگر امریکہ افغانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرسکتا ہے تو پھر پاکستان، پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کیوں نہیں کر سکتا؟ جبکہ دوسرا فکری گروہ یہ سمجھتا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جاری یہ جنگ ہماری اپنی ہے، اور ہمیں اس جنگ میں دہشتگردوں کو شکست دینی ہے۔ یہ گروہ دہشتگرودں اور ان کی فکری حمایت کرنے والوں کے حوالے سے ایک واضح سوچ رکھتا ہے۔ بہت سادہ سی بات ہے کہ پاک فوج پر حملہ آور ہونے والوں اور پاکستان کے معصوم شہریوں کو شہید کرنے والوں کو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ امریکہ کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں؟ البتہ حقائق اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ امریکہ کے لیے وطنِ عزیز کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں۔
 
ماضی کو کرید کر زندہ رہنے والوں کے سامنے مستقبل دھندلا دھندلا ہوتا ہے مگر کیا کیا جائے؟ ہم جب بھی پاکستان میں مسلح دہشتگردی کی وجوہات تلاش کریں گے تو سابق آمر ضیاءالحق کے ’’کارنامے‘‘ منہ کھولے سامنے آئیں گے۔ اسکی بوئی ہوئی فصل ہمارے گلے پڑ چکی ہے۔ گذشتہ سے پیوستہ روز پشاور میں آپریشن کے دوران مرنے والے دہشت گرد کی کمر پر شیطانی ڈھانچے کا ٹیٹو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ لوگ غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ ہم متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ دہشتگردوں کو بڑی طاقتوں کی حمایت ضرور حاصل ہے، کیونکہ کسی بڑی مالی اور تکنیکی حمایت کے بغیر اس نوعیت کی کارروائی مٹھی بھر دہشتگردوں کے بس کی بات نہیں۔
 
یہ امر درست ہے کہ دہشتگرد اپنے اہداف میں بالکل واضح ہیں، ان کی سمت متعین اور وہ کسی اعلٰی کمان کے زیرِ اثر ہیں، جبکہ ہم ہنوز دہشتگردوں کی مختلف اقسام پر بحث و مباحثہ کرکے انھیں پھر سے منظم ہونے کا وقت دے رہے ہیں۔ پاک فوج کی قربانیاں لازوال اور حکومت کے عزائم واضح، مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب دہشتگردوں کے خوف کے زیرِ اثر سیاسی حکومت یہ فیصلہ کرے گی کہ موبائیل فون سروس دو دن کے لیے بند ہوگی، یا دہشتگردی کو کنٹرول کرنے کے لیے اسی طرح کے دیگر سطحی اقدامات اٹھائے جائیں گے تو اس سے دہشتگردوں کے حوصلے بڑھیں گے۔ وہ حکومت کی دفاعی حکمتِ عملی کو کمزوری جان کر زیادہ متحرک ہوں گے اور اپنی فتح کو قریب تر تصور کرتے ہوئے زیادہ بربریت کا مظاہرہ کرنے لگیں گے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انتہائی حساس مقامات پر حملہ آور ہو کر دہشت گرد یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ابھی ان کی کمر نہیں ٹوٹی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جاری اس جنگ کو فیصلہ کن موڑ تک لانے کے لیے حکومت نہ صرف دہشتگردوں، بلکہ ان کے بے چہرہ ہمدردوں کے خلاف بھی اقدامات اٹھائے کہ انہی کی مدد اور حمایت سے دہشتگرد حساس مقامات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اس جنگ میں کامیابی کے لیے اس نیٹ ورک اور سپلائی لائن کو بھی توڑنا ہوگا، جس نے دہشتگردوں کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 222189
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش