0
Friday 28 Dec 2012 14:01

سینئر صوبائی وزیر بشیر بلور کا قتل

سینئر صوبائی وزیر بشیر بلور کا قتل
تحریر: رشید احمد صدیقی
 
ہفتہ 22 دسمبر کو مغرب کے بعد ایک خودکش دھماکہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے انتہائی اہم رہنماء اور سینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور جاں بحق ہوئے۔ ان کے ساتھ ایس ایچ او سمیت آٹھ دیگر افراد بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جس مقام پر دھماکہ ہوا اس کے اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بیچ میں ایک سڑک حائل ہے۔ یہ پرانے اور اصل پشاور کے عین وسط میں واقع انتہائی گنجان آباد جگہ ہے۔ اسی جگہ کے اردگرد دہشت گردی کی حالیہ لہر میں گذشتہ چند سال کے دوران یہ نواں دھماکہ تھا۔ بشیر احمد بلور پی کے تھری سے صوبائی اسمبلی کے رکن تھے جبکہ یہ جگہ اس حلقے میں نہیں آتی لیکن قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ایک میں واقع ہونے کی وجہ سے یہ مرحوم کے بڑے بھائی حاجی غلام احمد بلور کے حلقے میں آتی ہے۔ بڑے بھائی کے جلسہ میں از راہ عقیدت بشیر بلور بھی چلے آئے۔ حالانکہ ان کا یہاں آنا غیر ضروری تھا اور سیکورٹی کی غیر معمولی صورت حال میں دونوں بھائی اس طرح ایک جلسہ میں عموماً شرکت نہیں کیا کرتے تھے۔ یہ چھوٹے بھائی کی بڑے بھائی کے لیے غیر معمولی محبت کا اظہار تھا۔

حجرہ میں چار دیواری کے اندر محدود قسم کے جلسہ میں اصل مہمان بڑے حاجی صاحب تھے۔ چنانچہ چھوٹے بھائی نے ہلکی پھلکی تقریر کی۔ پارٹی پالیسی اور منشور بیان کرنا بڑے بھائی کے لیے چھوڑا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی پارٹی کی قربانیوں کا تذکرہ کیا۔ سوات سے اسی جنگ میں قتل ہونے والے اپنے رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر شمشیر خان کا تذکرہ کیا۔ اس طرح پی ایف ون پشاور سے رکن صوبائی اسمبلی عالمزیب کی شہادت کا تذکرہ کیا۔ جلسہ کا اختتام ہوا تو چائے کا انتظام تھا لیکن بشیر بلور یہ کہہ کر رخصت ہو گئے کہ آج چائے نہیں پیوں گا۔ وہ حجرہ کے دروازے سے نکلے ہی تھے کہ وہاں کھڑے خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔ حملہ اتنا تیر بہدف اور خون خوار تھا کہ بہادری کے لیے مشہور بشیر بلور موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ اگرچہ شہادت کا باقاعدہ اعلان ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہسپتال اور آپریشن تھیٹر کے ضابطے پورے کرنے کے بعد ان کے بڑے بھائی اور سب سے زیادہ پریشان غلام احمد بلور نے کیا۔ 

یہ خبر صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام کے لیے غیر متوقع ہر گز نہیں تھی۔ لیکن بےنظیر بھٹو کے قتل کے بعد سب سے بڑی خبر ضرور تھی۔ بشیر احمد بلور اے این پی کی قیادت میں غیر معمولی آدمی تھے۔ ان کی شخصیت میں تین باتیں بہت ہی خاص تھیں۔ پہلی بات یہ تھی کہ ان کی پارٹی اور نظریہ سے وابستگی غیر مشروط تھی۔ دوسری خصوصیت یہ کہ وہ بات کے کھرے تھے اور تیسری بات یہ کہ وہ غیر معمولی بہادر تھے۔ 1973ء سے پارٹی سے وابستہ تھے۔ اس دوران بھٹو کا ریاستی جبر سہا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ پھر ضیاءالحق کا دور آیا تو ابتداء میں زیر عتاب رہے۔ اس دور میں ان کی جماعت تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کی فعال جماعت تھی۔ بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی پر سپریم کورٹ کے حکم پر پابندی لگی تھی۔ ان کے قائد خان عبدالولی خان حیدر آباد ٹریبونل کیس میں پابند سلاسل تھے۔ پارٹی نے ان کی جوان سال اہلیہ بیگم نسیم ولی خان کو میدان سیاست میں اتارا۔ نئی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بنائی۔ 

بیگم نسیم کو پارٹی میں بی بی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ایم آر ڈی سے قبل پاکستان قومی اتحاد میں بیگم نسیم نے اپنے محبوس شوہر کی جگہ فعال ترین کرداد ادا کیا اور اس کے بعد ایم آر ڈی میں بھی وہی قیادت کر رہی تھیں۔ لیکن یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ بی بی کو جو اخلاقی اور مالی مدد بلور براداران نے فراہم کی اگر وہ نہ ہوتی تو شائد بی بی گھر بیٹھ جانے میں ہی عافیت سمجھتیں۔ ضیاءالحق دور میں خان عبدالولی خان رہا ہوئے۔ اس وقت بلور خاندان نے پارٹی میں کافی نام کما لیا تھا اور خان خاندان کے بعد بلور خاندان کا پارٹی پر سب سے زیادہ اثر تھا۔ 1988ء میں جمہوریت کی بحالی کے بعد غلام احمد بلور نے پشاور میں بےنظیر بھٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑا اور ہار گئے۔ لیکن ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد غلام بلور نے 1990ء میں بےنظیر بھٹو جیسی ہستی کو شکست سے دو چار کیا۔ بڑا بھائی این اے ون اور چھوٹا بھائی بشیر بلور پی ایف ون پر جیسے قابض ہو گئے۔ ان دونوں سے الیکشن جیتنا ناممکن نظر آرہا تھا۔ 2002ء میں ایم ایم اے کے طوفان میں بھی بشیر بلور اپنی نشست بچانے میں کامیاب رہے۔ جب تک بیگم نسیم ولی خان کے قویٰ مضمحل نہیں ہوئے تھے تو بشیر بلور ہر موقع پر ان کے نائب کے طور پر ساتھ ہوتے تھے۔ خاتون ہونے کے ناتے جہاں بھی بیگم نسیم ولی خان کو مدد کی ضرورت پڑتی بشیر بلور مردانہ وار آگے بڑھتے۔ 

کسی بھی اتحادی حکومت میں اے این پی شامل ہوتی تو صوبائی وزیر کے طور پر سب سے پہلے بشیر بلور کا نام ہوتا تھا۔ باچا خان خاندان سے باہر پارٹی قیادت کا اگر کوئی تصور ہوتا تھا تو بشیر بلور ہی کو صوبائی صدارت کے لیے لیا جاتا۔ لیکن بیگم نسیم کو حادثاتی طور پر پارٹی صدارت سے الگ کیا گیا تو قرعہ فال بشیر بلور کی جگہ افراسیاب کے نام نکلا۔ بشیر بلور نے یہ رنج ہنسی خوشی برداشت کیا۔ انتخابات میں ایم ایم اے نے ایک طوفان برپا کیا تھا۔ افراسیاب خٹک انتخابی سیاست کے لیڈر نہیں۔ بشیر بلور نے بہت چھوٹی پارلیمانی جماعت کے ساتھ اس طوفان کا کامیاب مقابلہ کیا۔ 2008ء کے انتخابات میں اے این پی کو سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کا درجہ ملا تو وزارت اعلیٰ پانچ بار کے ایم پی اے اور دو بار کی وزارت کا تجربہ رکھنے والے اور پارٹی کے لیے قربانی میں بےمثال بشیر بلور کی گود میں تھی۔ لیکن معلوم وجوہات کی بنا پر وزارت اعلیٰ نوآموز اور نوجوان امیر حیدر خان ہوتی کو دی گئی اور بشیر بلور سے ایک بار پھر بہت بڑی قربانی کا کہا گیا۔

اس بار صدمہ کافی بڑا تھا لیکن باوجود صدمہ کے آمنا و صدقنا کہنے والے بشیر بلور نے ایک بار پھر قربانی دیدی۔ امیر حیدر خان ہوتی نے اپنے آپ کو وزارت اعلیٰ کا مستحق تو ثابت کیا اور بہترین کارکردگی دکھائی لیکن سخت ترین حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے بشیر بلور نے ان کے لیے ڈھال کا کردار ادا کیا۔ سوات میں آپریشن سے قبل طالبان سے مذاکرات کا مشکل مرحلہ بشیر بلور نے طے کردیا۔ اس کے بعد اس سے بھی سخت مرحلہ ملاکنڈ آپریشن کا تھا۔ اس میں بھی بشیر بلور نے اپنا سینہ سپر کیے رکھا۔ آپریشن کا خاتمہ ہوا تو ہٹ لسٹ پر سب سے اوپر بشیر بلور کا نام رہا۔ ان پر چار خودکش حملے ہوئے۔ وہ ہر وقت ٹائم بم کے اوپر کھڑے سیاست کرتے رہے۔ اپنی سکیورٹی سے لاپروا تو نہیں تھے لیکن کسی کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ کوئی خاص قسم کی سکیورٹی رکھتے ہیں۔ کبھی ڈرائنگ روم کی سیاست نہیں کی۔ میدان میں ڈٹ کر موجود رہے۔ جہاں کہیں دھماکہ ہوتا بشیر بلور اگلے لمحے وہاں موجود ہوتے تھے۔ لوگ حیران تھے کہ یہ کتنے بہادر آدمی ہیں۔ 

ایک بار ٹیلی ویژن والے نے پوچھا کہ وزارت اعلیٰ نہ ملی تو صدمہ پہنچا؟ سچ بولنے کے عادی بشیر بلور نے کہا کہ بالکل صدمہ تھا میرے اور میرے خاندان کے لیے، لیکن پارٹی فیصلہ کے آگے سر تسلیم خم۔ جب یہ پوچھا گیا کہ اگلی بار کوشش کریں گے۔ تو کہنے لگے، اب کیا خواہش اس عمر میں۔ اب تو شائد الیکشن بھی نہ لڑوں۔ اس عمر میں کیا ایک ایک ووٹ کے پیچھے پڑوں گا۔ مطلب یہ کہ جرات کی سیاست کرنے والے بشیر بلور اب کسی بڑے عہدے کے لالچ سے بھی مبرا ہوگئے تھے۔ آخری دو اڑھائی ماہ میں تو ان کی شجاعت غیر معمولی ہوگئی تھی۔ اکیلے شہر کی گلیوں میں پھرتے تھے۔ ہر شادی غمی میں شریک ہوتے تھے۔ وہ میرٹ پر سیاست کے قائل تھے۔ ووٹر اور پارٹی کارکن تک خود اور براہ راست پہنچنا ان کی سیاست تھی۔ اس غیر معمولی بہادر لیڈر کی زندگی کو ہفتہ 22 دسمبر کو چھین لیا گیا لیکن وہ ایک تاریخ رقم کر گئے۔۔۔۔۔ 

بشیر بلور اپنے نظریئے کے انتہائی پکے تھے۔ دہشت گرد ان کے پکے دشمن تھے تو وہ بھی دہشت گردوں کے پکے دشمن تھے۔ جب آپریشنوں سے پیچھے ہٹ کر طالبان پہاڑوں میں چلے گئے تو بشیر بلور نے کہا کہ ہمیں چیلنج کرنے والوں بلوں میں گھس گئے ہیں۔ طالبان پر حملہ آور ہونے کے لیے وہ کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے۔ مقابلہ میں مخالفین نے بھی کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔۔۔ ان کی موت بہت بڑا واقع ہے۔ ہر طرف خوف کی فضاء ہے۔ سیاسی رہنماء شائد اب زندگی کے خوف سے باہر کم ہی نکلیں۔ اے این پی کے قائدین کے مطابق انہوں نے موجودہ حکومت کے لیے سات سو جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ان سات سو میں سے بشیر بلور کی جان اگر ایک پلڑے میں رکھی جائے اور باقی 699 دوسرے پلڑے میں تو یہ جان بھاری رہے گی۔۔۔۔ لیکن ان کے بعد کیا ہوگا۔ حکومت کو کیا کرنا چاہیے۔ قوم کو کیا کرنا ہوگا۔ ان سوالوں کا اچھا جواب اے این پی کی قیادت کی طرف سے مسلسل آرہا ہے کہ اب فیصلہ کن اقدام ہونا چاہیے۔ مذاکرات یا آپریشن۔ ان کے بیانات سے انتقام کی بجائے حقیقت جھلکتی ہے اور یہ ادراک بھی کہ ہم کب تک اس لاحاصل جنگ میں اپنے بشیر بلوروں کو کھوتے رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 225629
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش