4
0
Sunday 30 Dec 2012 13:50

طالبان کس نوعیت کے مذاکرات چاہتے ہیں؟

طالبان کس نوعیت کے مذاکرات چاہتے ہیں؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر 

اپنی خواہشات کو رفتہ رفتہ شرعی رنگ دینے کی عادت نے ان کی جراتوں کو مہمیز کیا۔ ابتدا میں ہی اگر اس روش کی حوصلہ شکنی کی جاتی تو آج ہر طرف لاشوں کے انبار نہ ہوتے۔ طالبان جب جب دہشتگردانہ کارروائیاں کرتے، ان کے حامی ان سے مذاکرات کی بات ضرور کرتے۔ حکومت کو طالبان سے مذاکرات کرنے کا ’’ہمدردانہ‘‘ مشورہ دینے والوں اور ان مذاکرات کو امن کی ضمانت سمجھنے والوں کے بارے بہت سوچا، مگر غالب نے عقدہ وا کیا۔
اہلِ تدبیر کی وا ماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں
 

مذاکرات اچھی روایت، ممکن ہے کوئی میثاقِ مدینہ کی مثال لے آئے لیکن دیکھنا پڑے گا! سرِ دست مذاکرات کی موجودہ پیشکش کو جانچنے سے ذرا قبل ایک مختصر نظر ماضی قریب کے ایک معاہدے پر جو موجودہ حکومت اور طالبان کے ایک دھڑے کے درمیان ہوا۔ فروری  2009ء میں کالعدم تنظیم نفاذِ شریعتِ محمدی کے سربراہ مولوی صوفی محمد اور حکومت سرحد (کے پی کے) کے درمیان مالا کنڈ ڈویثرن میں بحالی امن معاہدہ طے پایا۔ صوبائی حکومت نے وفاق کی تائید سے کالعدم تنظیم کے قریب قریب سارے مطالبات تسلیم کر لیے۔ مقصد سوات میں
امن کا قیام تھا، جس کے لیے صوبائی حکومت کالعدم تنظیم کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس امن معاہدے کے تحت ’’شرعی نظامِ عدل ریگولیشنز‘‘ مسودے میں مضحکہ خیز’’احکامات‘‘ تھے جو صوبائی حکومت کو تسلیم کرنا پڑے۔ 

ہم نے اس وقت بھی خبردار کیا تھا کہ یہ وقت حاصل کرنے کا بہانہ ہے۔ مگر مسلم خان میدان میں آ گیا، فتویٰ دیا کہ جو ’’عدل ریگولیشن معاہدے‘‘ کی مخالفت کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج۔ اپریل اپنا نصف گزار چکا تھا کہ کالعدم تنظیم تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے سربراہ مولوی صوفی محمد نے اپنی طاقت کا مظاہرہ مینگورہ میں ایک بڑے جلسے میں کیا، فتویٰ دیا کہ پاکستان کا سارا جمہوری نظام اور تمام ادارے غیر شرعی، حاکم اور عوام مشرک ہیں۔ 

’’عدل ریگولیشن معاہدے‘‘ کے تحت کالعدم تحریک نفاذِ شریعت محمدی کے سربراہ نے سوات اور بونیر میں طالبان نامی ’’جہادیوں‘‘ کو غیر مسلح کرنا تھا لیکن ایسا نہ کیا گیا، بلکہ ہمیشہ کی طرح معاہدے کی آڑ میں وقت حاصل کرنے کی پالیسی والے طالبانی گروہ نے بونیر پر قبضہ کر کے اسلام آباد کی طرف پیش قدمی کی امید باندھی!
اس امر کی نشاندہی تو مولانا فضل الرحمن نے بھی کی۔ اسکے بعد حکومت کے پاس سوائے بغاوت کو کچلنے کے اور کوئی راستہ نہ تھا۔ اس سے قبل وزیرستان میں انتہا پسندوں کے ساتھ جنرل (ر) پرویز مشرف مذاکرات کا ڈول ڈال چکے تھے مگر نتیجہ وہی، دہشتگرد مذاکرات کی آڑ میں مہلت کے طلبگار رہے۔ ہم بڑی دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست جب کسی کالعدم دہشتگرد تنظیم کے ساتھ مذاکرات کرتی ہے تو نہ صرف ان کی طاقت کو تسلیم کیا جا رہا ہوتا ہے بلکہ اس سے ریاست کی پسپائی بھی بالکل عیاں ہوتی ہے، جسے بڑی مکاری کے ساتھ امن کی خواہش کے ساتھ نتھی کر کے سیاسی جملوں کی ملمع کاری کی جاتی ہے۔ ماضی میں ایسے اقدامات سے دہشتگردوں کے حوصلے بلند ہوئے اور وہ مذاکرات کی آڑ میں منظم ہوئے کر آگے بڑھے۔ 

ماضی صرف یاد کرنے کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ اس سے سبق بھی حاصل کیا جاتا ہے مگر وہ جو غوروفکر سے عاری ہیں ان کی بات دوسری ہے۔ طالبان کا نیا مطالبہ سامنے آ چکا ہے۔’’کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان‘‘ کے امیر حکیم اللہ محسود نے حکومت کو سنجیدہ مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے ہتھیار پھینکنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ حکیم
اللہ محسود نے کہا کہ’’ پاکستان نے ہر بار عہد شکنی کی ہے۔ امریکہ کے غلام آزادانہ معاہدہ نہیں کر سکتے۔ اے این پی کے رہنما مستقبل میں بھی نشانے پر ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی تنظیم نہیں بلکہ جمہوری نظام کے خلاف ہیں، پاکستان کو لوٹنے کے لیے سیاستدان اگر متحد ہو سکتے ہیں تو اللہ کی راہ میں مجاہدین بھی متحد ہیں۔ کالعدم تنظیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم سے مذاکرات سے قبل حکومت کو امریکہ سے تعلقات ختم کرنے ہونگے۔ 

حکیم اللہ محسود کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم افغان طالبان کے ساتھ ہیں اور القاعدہ کے لیے اپنا سر بھی کٹا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس ’’غیرشرعی‘‘ جمہوری نظام کے خلاف ہیں اور جو شخص یا تنظیم اس نظام کی حمایت کرے گا طالبان اس کے خلاف کارروائیاں کریں گے‘‘ حیرت انگیز بات ہے کہ ایک کالعدم تنظیم جو باقاعدہ ریاست کی جانب سے دہشتگرد قرار پا چکی ہے وہ حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کر رہی ہے اور وہ بھی اپنی شرائط پر! یعنی حکومت اگر طالبان کی شر انگیزیوں سے بچنا چاہتی ہے تو پہلے اسے امریکہ سے تعلقات ختم کرنا ہوں گے، اگلے مرحلے میں اس جمہوری نظام کی
بساط لپیٹ کر اسے ’’طالبانی شریعت‘‘ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا پڑے گا، اور اہم بات کہ طالبان غیر مسلح بھی نہیں ہونگے۔ ان باتوں پر غور کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ طالبان کا مقصد مذاکرات نہیں بلکہ اپنے خلاف پائی جانے والی اس نفرت کی شدت کو کم کرنے کی کوشش ہے جو عوامی سطح پر ان کے خلاف پائی جاتی ہے۔ ان کے بے سروپا مطالبات بے شک قابلِ قبول نہیں، مگر وہ خود کو اس پوزیشن پر لانا چاہتے ہیں کہ کہہ سکیں’’ہم تو امن کے خواہاں ہیں ‘‘مگر حکومت ہمارے خلاف کارروائیاں کرتی چلی جا رہی ہے، تو اب ہم کیا کریں؟

تحریکِ طالبان پنجاب کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ ایک معروف اخبار نویس کو اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ ’’ہم دفاع کا شرعی حق محفوظ رکھتے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب ہمارے لیے’’جہاد‘‘ جاری رکھنے کے لیے وزیرستان کے علاوہ بھی کئی بیس کیمپ بن چکے ہیں۔ کسی ایک بیس کیمپ کی خلاف آپریشن سے مسئلہ مزید بگڑے گا‘‘ یہ اشارہ ممکنہ وزیرستان آپریشن کی طرف ہے۔ دیکھا جائے تو تحریکِ طالبان پنجاب کے ’’امیر‘‘ عصمت اللہ معاویہ اور کالعدم تحریکِ طالبان
پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے پیغام میں ایک بات بڑی واضح ہے کہ حکومت ان کے ہاتھ پر بیعت کر لے۔ سوال مگر یہ بھی ہے کہ اگر جمہوریت اور جمہوری نظام واقعی غیر شرعی ہے تو پھر وہ شوریٰ کیا ہے جس کا صدرِ اسلام سے بڑا چرچا ہے؟ حالانکہ دونوں میں قدرِ مشترک تو اکثریتی رائے کا حترام ہی ہے؟ 

ہم نہیں سمجھتے کہ یہ مذاکرات ہو سکیں گے، یا اگر مذاکرات کی صورت بنتی نظر آئی تو کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان پر سے پہلے پابندی اٹھا لی جائے گی اور پھر مذاکرات، کیونکہ ایک ایسی تنطیم جس کا اسٹیٹس دہشتگرد تنظیم کا ہے، کیا ریاست اس کے ساتھ مذاکرات اس کے اسی اسٹیٹس کے تحت کرے گی یا پہلے پابندی اٹھائے گی؟ ہمارا خیال ہے کہ کالعدم دہشتگرد تنظیموں سے مذاکرات کی راہ دکھانے والے دراصل ریاست کو کمزور ثابت کر کے دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہے ہیں۔ ریاست کو اپنے عوام کے جان و مال کے تحفظ، اور اپنی عملداری کے قیام کے لیے ہر حال میں جرات مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ طالبان کی خواہش ہے کہ حکومت ان کی شرائط پر مذاکرات کرتے ہوئے ان کے خونریز’’نظامِ شریعت‘‘ کی حمایت کردے۔
خبر کا کوڈ : 226372
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Bahot Acha....100% thek key rahay hain.
nice article
umar siddeeq
United States
بالکل صحیح کہا، طالبانیزیش کا بھوت اب بہت سے لوگوں پر سوار ہو رہا ہے اور سلیم صافی بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔
اگر وزیر داخلہ صاحب کو اچانک اتنا اسلام سے پیار ہوا ہے تو ملک میں اتنے سارے اچھے اور روادار سنی شیعہ علماء بیٹھے ہیں، ان سے مذاکرات کرنا چاہیے، دہشتگردوں سے کیا مذاکرہ۔ ہاں اگر وہ ہتھیار پھنکر انسان بن کر ٓآتے ہیں تو ٹھیک ہے۔
ہماری پیشکش