0
Sunday 4 Apr 2010 09:56

ایک تیر سے دو شکار

ایک تیر سے دو شکار
 آر اے سید
امریکہ پاکستان کا ایسا دوست ہے جسکے بارے میں شاعر نے کہا تھا :
" ہوئے تم دوست جسکے دشمن اسکا آسماں کیوں ہے "
امریکہ نے پاکستان سے دوستی کے آغاز سے لیکر آج تک ہمیشہ پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کرنے کی کوشش کی ہے۔اس ہدف کی تکمیل کے لئے اس نے کبھی سیاسی عدم استحکام کے لئے فوجی آمروں کی حکومتوں کی حمایت کی ہے اور کبھی امن و امان کو تباہ کرنے کے لئے فرقہ وارانہ اور عدم استحکام پیدا کرنے والے گروہوں کو پاکستان میں وجود بخشا ہے۔امریکی حکام اور امریکی دوستی کا دم بھرنے والے سیاستدان اور دانشور ایک بھی ایسی مثال نہیں پیش کرسکتے،جس کو سامنے رکھ کر باآسانی کہا جا سکے کہ امریکہ نے پاکستان کو اقتصادی،فوجی یا صنعتی حوالے سے مضبوط کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔
امریکہ نے پاکستان کے ہر بڑے اقتصادی منصوبے کو بلاواسطہ یا بالواسطہ تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔آج پاکستان میں صنعتی بحران،سیاسی عدم استحکام،بدامنی،ثقافتی بے راہروی،حتی محکمانہ بدعنوانی کے پیچھے بھی امریکی ہاتھ نظر آتا ہے۔آج پاکستان توانائی کے جس بحران سے دوچار ہے امریکہ اس بحران کو ختم کرنے کی بجائے پاکستان کی اصلاحی کوششوں کو بھی سپوتاژ کرنے میں لگا ہوا ہے۔
امریکہ کے نائب وزير خارجہ رابرٹ بلیک نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پاک ایران کیس پائپ لائن معاہدے کے منصوبے پر دوبارہ غور کرے،امریکی نائب وزیر خارجہ نے مزید کہا ہے کہ امریکہ ایرانی منصوبوں میں کسی بڑی سرمایہ کاری کی ایران کے جوہری پروگرام پر اپنی تشویش کی وجہ سے مخالفت کرتا ہے۔ادھر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان فلپ جے کراؤلی نے کہا ہے کہ ایران کے متنازع جوہری پروگرام کی وجہ سے اس پر پابندیاں عائد کرنے کے لئے مختلف ممالک سے رابطے میں ہیں،انہوں نے بھی پاکستان ایران گیس پائپ لائن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ جن ممالک کے ایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات ہیں ان سے کہا گیا ہے کہ تہران کے ساتھ توانائی سمیت دیگر منصوبوں میں شمولیت کا یہ مناسب وقت نہیں۔پاک ایران گيس پائپ لائن کے متعلق امریکی حکام کے ان بیانات کے دو پہلو ہیں۔ایک پہلو ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ہے جبکہ دوسرا پہلو پاکستان کی توانائي کی ضروریات سے متعلق ہے۔
امریکی حکام آجکل ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو بہانہ بناکر اپنا الّو سیدھا کر رہے ہیں،جن معاہدوں اور جن ممالک کے خلاف فضا بنانی ہو،اسے یہ کہہ کر دھمکایا جاتا ہے کہ ایران کے خلاف تجارت کرنے والوں کو عالمی سیاست میں تنہا کر دیا جائے گا۔حالانکہ مسئلہ ایٹمی پروگرام کا نہیں بلکہ امریکہ کی تسلط پسندانہ اور جنگ پسندانہ سامراجی ماہیت کا ہے،اگر مسئلہ ایٹمی پروگرام کا ہوتا تو امریکہ ایسے تمام ممالک سے جو ایٹمی صلاحیتوں کے مالک ہیں ان سے ویسا ہی رویہ رکھتا جیسا کہ اس نے ایران کے خلاف اپنایا ہوا ہے۔جبکہ امریکہ کے ایسے ممالک سے انتہائی قریبی روابط ہیں جو نہ صرف این پی ٹی کے رکن نہیں بلکہ ایٹمی ہتھیار بھی بنا چکے ہیں،امریکہ نے انہی ممالک میں سے بعض کے ساتھ تو باقاعدہ سول ایٹمی ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی کر رکھا ہے۔
امریکہ ایران کے خلاف پابندیاں بڑھانے اور اسے عالمی سیاست میں تنہا کرنے کی دھمکی دیتا ہے جو این پی ٹی کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایٹمی توانائی عالمی ایجنسی سے مکمل تعاون کر رہا ہے اور آئی اے ای اے کی متعدد رپورٹوں میں بھی اس کا اعتراف کیا گيا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام میں کسی قسم کا انحراف نہیں جبکہ دوسری طرف غاصب اسرائیل جس کے پاس سینکڑوں ایٹمی وار ہیڈز بھی موجود ہیں وہ این پی ٹی کا رکن بھی نہیں،آئي اے ای اے کی نگرانی کو بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں،اس پر امریکی اور یورپی ممالک کی طرف سے نوازشات کی بارشیں جاری ہیں۔ امریکہ کی طرف سے پاک ایران گيس پائپ لائن معاہدے کی مخالفت کا ایک پہلو یہ بھی کہ امریکہ پاکستان کو توانائی کے حوالے سے مضبوط اور خود مختار نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ امریکہ کو یہ خدشہ ہے کہ اگر پاکستان مختلف شعبوں میں مضبوط ہو گیا تو وہ امریکہ کی ڈکٹیشن کو قبول نہیں کرے گا۔
پاکستان اس وقت توانائی کے شدید ترین بحران سے دوچار ہے لوڈشیڈنگ،صنعتی بحران،بے روزگاری ،غربت اور دہشت گردی نے پاکستانی عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ادھر امریکہ ڈومور کے مطالبے کیے جا رہا ہے۔پاکستان امریکہ کی شروع کردہ جنگ میں چھ ہزار پاکستانی شہریوں کی قربانی کے ساتھ ساتھ چالیس ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھا چکا ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ پاکستان کی معاشی بہتری کے لئے مناسب اقدامات انجام دینے کے لئے تیار نہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان چند دن پہلے اسٹرٹیجک مذاکرات کا خوب شور مچایا گیا۔لیکن پاکستان کے اکثر اقتصادی ماہرین نے اسے اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دیا ہے۔امریکہ نے مشرف کے زمانے میں کہا تھا کہ وہ قبائلی علاقوں میں صنعتیں لگائے گا اور یہاں کا تیار شدہ مال امریکہ برآمد کیا جائیگا۔ لیکن چھ سات سال گزرنے کے باوجود بھی ان علاقوں میں کسی فیکٹری یا صنعت کی ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گی ان علاقوں کو اگر امریکہ نے کچھ دیا ہے تو وہ ڈرون حملے ہیں جس میں اب تک ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔امریکہ نے اسٹرٹیجک مذاکرات کے لئے آئے ہوئے بھاری بھر کم پاکستانی وفد کو توانائی کے شعبے میں سول ایٹمی ٹیکنالوجی تو بہت دور کی بات ہے اتنی امداد بھی نہیں دی ہے جس سے پاکستان میں خراب شدہ تھرمل پاور پلانٹ کی مرمت ہی ہوسکے۔
چھ ارب ڈالر کے پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے کے حوالے سے امریکہ کی مخالفت کا ایک بڑا ہدف دو مسلمان ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات کو کم کرنے کے ساتھ خطے میں ایران کے اثر و نفوذ کو بھی ختم کرنا ہے کیونکہ ایران خطے کی ترقی و پیشرفت کے لئے علاقائی ملکوں سے ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہے۔امریکہ علاقے میں بدامنی،دہشت گردی اور عدم استحکام بڑھانے نیز اپنے سامراجی اہداف کے لئے سرگرم عمل ہے جبکہ ایران علاقے کی فلاح و بہبود اور ترقی کا خواہاں ہے لہذا پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے سمیت کوئی بھی تعمیری منصوبہ امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔




خبر کا کوڈ : 23026
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش