0
Sunday 27 Jan 2013 12:15

آل سعود کی کارستانیاں

آل سعود کی کارستانیاں
 تحریر: محمد علی نقوی

اس وقت سعودی عرب کے حالات ایسے ہیں جو اس ملک میں آل سعود حکومت کے دور میں کبھی بھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ آل سعود نے طاقت کا استعمال کرکے سعودی عرب کی صورت حال ہمیشہ اپنی مرضی کے مطابق باقی رکھنے کی کوشش کی، مگر اس وقت حالات کچھ ایسے ہوگئے ہیں جو سعودی سربراہوں اور شہزادوں کی مرضی کے بالکل برخلاف ہیں، اور جس ملک میں آل سعود خاندان، استحکام کا دم بھرتا تھا، وہاں اب عدم استحکام کی حکمرانی ہے۔ سعودی عرب میں عوامی مظاہروں اور تحریکوں میں فروغ سے پتہ چلتا ہے کہ آل سعود کو اپنے ملک میں بھی اسلامی بیداری کی لہر کا سامنا ہے، لیکن وہ تشدد اور قتل عام کے ذریعے عوامی مطالبات کا جواب دے رہی ہے۔ آل سعود کی جانب سے پرامن مظاہرین اور اپنے جمھوری حق کا مطالبہ کرنے والے عوام کو خاک و خون میں غلطاں کرنے کے اقدام سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ آل سعود، ایک جابر، ظالم، ڈکٹیٹر، اور انسانی حقوق اور عالمی قوانین کو پامال کرنے والی شاہی حکومت ہے جو اپنا اقتدار بچانے کے لئے ہر طرح کے جرائم کے ارتکاب کو جائز سمجھتی ہے۔ 

آل سعود کے جرائم سے سعودی عوام میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے اور یہ ایسے عالم میں ہے کہ مغربی حکومتیں آل سعود کے جرائم کے سامنے پوری طرح خاموش ہیں۔ اس تناظر میں سعودی عرب کے سیاسی امور کے ماہر فواد ابراہیم نے کہا ہے کہ آل سعود، سعودی عرب میں انسانی حقوق کو منظم طریقے سے پامال کر رہی ہے، اس بنا پر اس ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھایا جانا چاہئے۔ سعودی عرب کے اس سیاسی ماہر کا کہنا ہے کہ اس وقت سیاسی کارکنوں اور شخصیتوں کی گرفتاری کا مسئلہ، سعودی عوام کا بنیادی مسئلہ بن گیا ہے اور آل سعود سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرکے بعض نسلی اور مذہبی گروہوں پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ 

بنابرایں انسانی حقوق کے کارکنوں کے اعلان کے مطابق اس وقت تقریباً تیس ہزار سیاسی رہنما اور کارکن سعودی جیلوں میں ہیں، جن کے سلسلے میں نہ تو کوئی چارج شیٹ داخل کی گئی ہے اور نہ ہی مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ مصر کے سیاسی رہنما محسن بہشتی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں قیدیوں کے حقوق کی اس حد تک خلاف ورزی ہوتی ہے کہ اس ملک کی جیلیں دنیا کی خوفناک ترین جیلیں شمار ہوتی ہیں، کیونکہ جو شخص اس ملک میں جیل میں چلا جاتا ہے، اسے کسی قسم کا حق حاصل نہیں ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کا آغاز ان کی گرفتاری سے ہی ہو جاتا ہے، کیونکہ اس ملک میں ملزمین کو گرفتار کرنے کے لئے سکیورٹی فورسز ان کے گھروں پر حملہ کر دیتی ہیں یا خوف و ہراس کے دوسرے طریقے استعمال کرکے ان کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پھر جیلوں میں ان پر طرح طرح کا تشدد کیا جاتا ہے اور یہ سب ایسی حالت میں ہے کہ جب سعودی عرب میں غیر منصفانہ نظام حکمفرما ہے۔
 
سعودی عرب میں دس سے پندرہ فیصد تک کی آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے، لیکن ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں اظہار رائے اور اپنے عقائد کو بیان کرنے کی آزادی کو کفر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود سعودی عرب کے عوام خصوصاً اس ملک کے مشرقی علاقوں کے عوام اپنی خاموشی ختم کرکے اس ملک کے حکام کے خلاف میدان میں اتر پڑے ہیں۔ دوسری طرف عراق میں حال ہی میں پکڑے جانے والے دو سو پچاس دہشت گردوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں سعودی عرب کی طرف سے ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ عراق کے مختلف شہروں بالخصوص کربلا معلٰی، نجف اشرف اور الدیوانیہ کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنائیں۔ سعودی عرب کی طرف سے بھیجے گئے ان دہشت گردوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ انہیں عراق میں دہشت گردانہ کاروائیوں اور ملک میں فرقہ وارانہ فسادات شروع کرنے کے لئے اڑھائی سو ملین ڈالر کی رقم بھی دی گئی تھی۔ 

ان دہشت گردوں کو گرفتار کرنے اور انکی تفتیش پر مامور عراقی افسر عدنان نمانمی نے ان دہشت گردوں سے کئی گئی تفتیش کی روشنی میں بتایا ہے کہ ان دہشت گردوں نے اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ امیر عبداللہ نے سعودیہ کے انٹیلی جنس چیف بندربن سلطان اور کئی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث انتہائی مطلوب عراق کے سابق نائب صدر طارق ہاشمی کو باقاعدہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ عراق میں فرقہ وارانہ فسادات، سیاسی عدم استحکام اور قبائلی اختلافات کے ذریعے عراق کو چھ سال پہلے کی صورتحال پر لے آئیں۔ عراقی پولیس کی حراست میں موجود ان دہشت گردوں نے عراق میں کئی دہشت گردانہ کارروائیوں کا اعتراف کیا ہے، جس میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بنے ہیں۔ 

اسی دوران سعودی عرب کے ایک سو ایک معروف علماء نے آل سعود حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جیلوں میں بغیر کسی مقدمہ اور جرم کے گرفتار قیدیوں کو فوراً رہا کرے۔ علماء کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں آيا ہے کہ آل سعود حکومت ظلم و ستم پر مبنی اپنی غیر انسانی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور تکبر اور طاقت کے استعمال سے پرہیز کرے، کیونکہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ علماء نے سعودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر بےگناہ قیدیوں کو فوری رہا نہ کیا گيا تو علماء کا مطالبہ قیدیوں کی رہائی سے بڑھ کر ہوگا اور اس وقت قیدیوں کو رہا کرنے کے باوجود احتجاج کا سلسلہ نہیں رکے گا اور اس کا منطقی نتیجہ حکومت کے خلاف عوام کا قیام ہوگا۔
 
آل سعود حکومت نے جب سے برطانوی سامراج کے ذریعے مقدس سرزمین حجاز پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے، اس نے اس تاریخی ریاست کو اپنے خاندان کے نام سے منسوب کر رکھا ہے۔ آج یہ بات سب پر عیاں ہے کہ آل سعود کافی عرصے سے امریکی پالیسیوں کی اندھی پیروی کر رہا ہے اور سامراجی پالیسیوں کو خطے میں نافذ کرنے کے لئے سعودی حکمرانوں کا ماضی اور حال انتہائی تاریک ہے۔ آل سعود ایک طرف اپنے ملک میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں کا مرتکب ہو رہا ہے تو دوسری طرف خطے کے ممالک میں بھی امریکی پالیسیوں کو نافذ کر رہا ہے۔ قطر اور سعودی عرب نے سلفی دہشت گردوں اور القاعدہ کے نام پر افغانستان اور پاکستان کے بعد شام اور عراق کو اپنے نشانہ پر لے رکھا ہے۔
 
سعودی عرب تمام مسلمانوں کے مشترکہ مسئلہ یعنی فلسطین کی آزادی اور غاصب اسرائيل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تو ایک فوجی بھیجنے اور ایک گولی خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، لیکن شام اور عراق میں سامراجی مفادات کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے شام میں سعودی عرب قطر، ترکی اور اسکے مغربی اتحادیوں کے ذریعے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، وہی کھیل عراق میں بھی دہرایا جا رہا ہے۔ عراق میں گرفتار ہونے والے اڑھائی سو دہشت گردوں کے اعترافات اور عراق میں عدم استحکام اور فرقہ وارانہ فسادات شروع کرانے کے لئے ڈھائی سو ملین ڈالر کا بجٹ مخصوص کرنا،اس بات کی علامت ہے کہ سعودی عرب، عراق اور شام میں امریکی ایجنڈے پر کاربند ہے، البتہ سعودی عرب کی عراق سے دشمنی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عراق میں جمہوریت کا جو نظام پروان چڑھ رہا ہے، وہ سعودی شہریوں کے لئے بھی ایک نمونہ بن سکتا ہے۔ لہذا آل سعود کی حکومت خطے میں ایسے کسی نظام کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دے سکتی، جس کو آئیڈیل بناکر سعودی عرب کے عوام بھی اس طرح کی حکومت کا مطالبہ کرنے لگیں۔
 
اس وقت سوال یہ ہے کہ امریکہ، جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے دفاع کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے اور اس بہانے سے وہ دنیا کے بہت سے ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت بھی کرتا رہتا ہے، سعودی عرب میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور اس ملک میں عوام کی وسیع پیمانے پر سرکوبی پر کیوں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔؟ یقینی طور پر امریکہ، خلیج فارس کے جنوبی ملکوں میں اپنے سے وابستہ شاہی نظام حکومت، باقی رکھنے کا خواہاں ہے۔ ان ملکوں میں امریکی مفادات اس بات کا باعث بنے ہوئے ہیں کہ وہ ان ملکوں میں آمرانہ حکومتوں اور قدامت پسند حکمرانوں کا حامی بنا رہے۔ 

بحرین اور سعودی عرب کی حکومتیں ایسی دو عرب نمونہ حکومتیں ہیں، جو اپنے ملکوں کے عوام کے خلاف جارحانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں، پھر بھی انھیں یورپ و امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے، یہان تک کہ امریکہ، ان ملکوں میں عوامی احتجاجات کچلنے کیلئے آل خلیفہ اور آل سعود حکمرانوں کو ضرورت کے تمام ہتھیار بھی فراہم کر رہا ہے۔ جب سے سعودی عرب کے مشرقی علاقوں میں عوامی استقامت کا سلسلہ شروع ہوا ہے، امریکہ نے ریاض حکومت کے جاحانہ اقدامات کی ہمیشہ حمایت کی ہے، یہاں تک کہ اس عرصے کے دوران ریاض اور واشنگٹن کے درمیان کئی فوجی معاہدے بھی طے پائے ہیں اور سعودی حکام کی جانب سے امریکی ہتھیاروں کی خریداری کے عمل میں کافی تیزی آئی ہے۔
 
بنابریں بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ شام اور دیگر ملکوں میں مداخلت اور سعودی عرب میں عوامی احتجاج کو بےدردی سے کچلنے کا اقدام امریکی ہری جھنڈی سے ہی عمل میں آیا ہے۔ چنانچے اس ناقابل انکار حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ سعودی عرب میں حکام کی جارحانہ کارروائیوں کے باوجود، حکومت مخالف اعتراضات و احتجاجات کافی شدّت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور یہ ملک، اس وقت تبدیلیوں کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہوا ہے۔ ایسی تبدیلیاں، جنھوں نے علاقے میں اسلامی بیداری کی دوڑتی لہر کے زیر اثر، آل سعود خاندان کی نیندیں اڑا دی ہیں، اور سعودی حکام کو اس وقت تیونس، مصر، لیبیاء اور یمن میں آمرانہ حکومتوں جیسا اپنا حشر ہوتا نظر آرہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے سعودی عرب کو اسلامی ممالک کے خلاف اندھا دھند استعمال کرنے کا وطیرہ اپنا رکھا ہے، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ آل سعود کو ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کرکے جلد ہی دور پھینکنے کی تیاری کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 234234
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش